کسان احتجاج: کسان یونینوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، مئی 22: جمعہ کے روز تینوں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کی۔ مودی کو لکھے گئے ایک خط میں 40 کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیم، سنیکت کسان مورچہ نے کہا ہے کہ وہ اس لڑائی سے باز نہیں آئے گی کیوں کہ یہ مظاہرین کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔

پی ٹی آئی کے مطابق اس خط میں لکھا گیا ہے ’’کسی بھی جمہوری حکومت نے کسانوں کے ذریعہ مسترد کیے جانے والے ان قوانین کو رد کردیا ہوتا، جن کے نام پر یہ قانون نافذ کیا گیا ہے، اور تمام کسانوں کو ایم ایس پی کی قانونی ضمانت فراہم کرنے کا موقع ضائع نہ کیا ہوتا… دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے کسانوں کے ساتھ سنجیدہ اور مخلصانہ بات چیت کا دوبارہ آغاز کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘

مرکز اور کسانوں نے دسمبر کے بعد سے اب تک 11 دور کے مذاکرات کیے ہیں، لیکن وہ کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے کیوں کہ حکومت قوانین کو مکمل طور پر ختم کرنے کے مطالبے پر راضی نہیں ہوئی۔ 22 جنوری کو آخری مرتبہ حکومت اور کسانوں کی بات چیت ہوئی تھی۔

جنوری میں حکومت نے زرعی قوانین کو 12-18 ماہ کے لیے معطل کرنے کی پیش کش کی تھی، جسے کسان یونینوں نے مسترد کردیا تھا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے اگلے احکامات تک ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی ہے اور اس تعطل کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی اطلاع کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں بلبیر سنگھ راجیوال، درشن پال، گرنام سنگھ چدونی، ہنن ملا، جگجیت سنگھ ڈالیوال، جوگندر سنگھ اُگرہن، شیو کمار ککّاجی، یوگیندر یادو اور یدھویر سنگھ شامل ہیں۔ کسان رہنماؤں نے کہا کہ وہ اپنے ’’بنیادی مطالبات‘‘ پر قائم ہیں۔

اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم یہ خط، اپنی جدوجہد کے 26 مئی 2021 کو چھ ماہ مکمل ہونے سے چند دن قبل لکھ رہے ہیں۔ اسی دن مرکز میں آپ کی حکومت، جو اب تک ملک کی سب سے زیادہ کسان مخالف حکومت ہے، اپنے عہدے پر سات سال پورے کرتی ہے۔‘‘

وزارت زراعت کے ایک نامعلوم اہلکار نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ حکومت کسانوں سے بات کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔ ایک اور عہدیدار نے کہا ’’وزیر اعظم اور وزیر زراعت نے پارلیمنٹ میں اور باہر بھی یہ بات کہی ہے۔‘‘

اس سے قبل ایک بیان میں سنیکت کسان مورچہ نے کہا تھا کہ حکومت ان کے صبر

کا امتحان نہ لے اور بات چیت کا آغاز کرے اور ان کے مطالبات کو قبول کرے۔ مورچہ نے نوٹ کیا کہ بارش کی وجہ سے قومی دارالحکومت دہلی کی حدود میں ان کے احتجاجی مقامات کو نقصان پہنچا ہے۔ سڑکیں اور احتجاجی مقامات کے متعدد حصے بارش کے پانی سے بھر چکے ہیں۔ لیکن مظاہرین چھ مہینوں سے اس طرح کے تمام حالات کا اکیلے ہی سامنا کر رہے ہیں۔