’ایکسٹرا ٹو اے بی‘ یعنی آندھرا پردیش اور بہار

سیاسی اتحادیوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے بجٹ کا انتخاب

زعیم الدین احمد حیدرآباد

حالیہ بجٹ حکومت کی دس سالہ ناکامیوں کا کھلا اعتراف، لیکن کوئی اصلاح نہیں
حالیہ پارلیمانی اجلاس میں بجٹ سے اقتصادی سروے پیش کیا گیا، جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اقتصادی سروے ملک کی معاشی حالت کو جاننے کا پیمانہ ہوتا ہے جو ملکی معاشی حالت کا جائزہ لیتا ہے، کلیدی پیرامیٹرز پر کارکردگی کا خلاصہ پیش کرتا ہے اور ان عزائم کو بھی اس میں اجاگر کیا جاتا ہے جن کی طرف حکومت نگاہیں مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ بہر حال بجٹ پیش کردیا گیا ہے، اس بجٹ میں حکومت کی پچھلے دس سال کی ناکامیوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن افسوس کہ ان ناکامیوں کی اصلاح نہیں کی گئی۔ وزیر خزانہ کا حال یہ ہے کہ جب مریض کو عملِ جراحی کی ضرورت ہے تو اسے محض دواؤں کے ذریعے علاج کی پیشکش کی جارہی ہے۔ ماہرین معاشیات اور اپوزیشن کتنی ہی مدد کرنے کی کوشش کر لیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ ملک کی معیشت کو وہ برباد کر کے ہی چھوڑے گی۔ آئیے اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے آغاز ’بے روزگاری‘ سے کرتے ہیں۔ جیسا کہ راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس کے 2024 کے منشور سے اس بجٹ کے نکات کو نقل کیا گیا ہے۔ حقیقت بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے، حکومت نے روزگار سے منسلک مراعات یعنی انسنٹیوز اور اپرنٹس شپ کو اہم پالیسی میٹر کے طور پیش کیا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے کسی اپوزیشن پارٹی کے منشور کی اہم چیز کو اپنے بجٹ میں شامل کیا ہے، اس بات پر مرکزی وزیر خزانہ کی تعریف کی جانی چاہیے۔ یہ خیالات تو بڑے اچھے معلوم ہوتے ہیں کہ حکومت نے روزگار سے منسلک مراعات یعنی انسنٹیوز اور اپرنٹس شپ کو اپنے بجٹ کا حصہ بنایا ہے، یہ کچھ حد تک درد کو کم کریں گے۔ لیکن حکومت نے جب خود سے یہ سوال کیا ہوگا کہ کیا محض ان مراعات سے روزگار کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے؟ ایمان داری سے اگر وہ جواب تلاش کریں گے تو یقیناً وہ انہیں ‘منفی’ ہی ملا ہوگا۔
نئی ایمپلائمنٹ جنریشن اسکیم کے لیے دس ہزار کروڑ اور نئے انٹرنشپ پروگرام کے لیے دو ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، ان دونوں اسکیموں میں مختص کردہ رقم کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس خود اعتمادی کی کمی ہے۔ جس طریقے سے اس نے "آتم نربھر بھارت” کے ساتھ کیا، یہاں بھی وہی معاملہ نظر آتا ہے۔ بنیادی طور پر حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سپلائی سائیڈ کے اقدامات پر انحصار کر رہی ہے جو کہ معیشت میں مانگ یعنی ڈیمانڈ کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ اوسطاً، ایک کمپنی بیس ہزار انٹرنز یعنی نئے ملازمین کی بھرتی کرے گی، جو ایک نان اسٹارٹر ہے۔ حکومت ان بھرتی کے اخراجات کا ایک حصہ مالی امداد کے طور پر کرنے کا وعدہ کر رہی ہے۔ لیکن اگر ڈیمانڈ میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اور پروڈکشن کیپاسٹی اتنی ہی رہتی ہے جتنی کہ پہلے تھی، تو کون سی کمپنی مزید ملازمین کو اپنی کمپنی میں شامل کرے کرکے منافع کے مارجن کو کم کرنے کا خطرہ مول لے گی؟ اسی لیے میں نے کہا کہ جسے سرجری کی ضرورت ہے اسے گولیاں دی جارہی ہیں۔
مالی سال 2024 میں ذاتی کھپت یعنی گھریلو اخراجات کی شرح نمو گزشتہ بیس سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی، کوویڈ کے سال کو چھوڑ کر۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کا اندازہ ہے کہ گھریلو بچت یعنی ہاؤز ہولڈ سیونگ گزشتہ 47 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے کیونکہ خالص مالی بچت جی ڈی پی کے 5.1 فیصد تک گر گئی ہے۔ آر بی آئی کا تازہ ترین صارفین کا معیشت پر اعتماد کا سروے مئی 2024 کا آیا ہے، یہ سروے لوگوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے، لیکن ملک کو نسل در نسل آمدنی کے بحران کا سامنا ہے اور بجٹ اس کو حل کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔
ذاتی انکم ٹیکس میں چھوٹ، کھپت بڑھانے کا ایک مختصر مدتی حل ہو سکتا ہے۔ سلیبس میں نظرثانی کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ صرف نئے ٹیکس نظام پر ہی لاگو ہوتا ہے جس میں کٹوتیوں کی اجازت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک متوسط طبقے کا ایک گھر کہ جس میں دو کمانے والے ہیں اور دو اسکول جانے والے نوجوان ہیں، اگر وہ ایک فلیٹ خریدنے کے لیے ہوم لون لیتے ہیں تو نئے ٹیکس نظام کے تحت انہیں اپنی ای یم آئی میں سود کے جزو کی کٹوتی حاصل کرنے کا حق نہیں ہو گا، یعنی انہیں ٹیکس کی بچت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، خانگی اداروں میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال مہنگی ہونے سے ایک متوسط گھرانا اپنی خریداری کو موخر کرنے پر مجبور ہو گا، پھر یہی خریداری کو مؤخر کرنے سے قومی سطح کی مانگ میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
مہنگائی اب بھی اکثر خاندانوں کے لیے ایک بڑی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ نے قیمتوں میں اضافہ اپنے ہدف کے اندر ہونے اور اشیائے ضروریہ میں مہنگائی کم ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ جب کہ ماہ جون میں اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی 9.5 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دس سال کے بعد بھی لوگ قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے سپلائی چین کو مضبوط ہونے کی توقعات کر رہے ہیں۔ گھریلو خرچ سے متعلق سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ لوگ یومیہ دو سو روپے سے کم خرچ کر رہے ہیں، جبکہ اس میں بھی تقریباً 34 فیصد لوگ یومیہ سو روپے سے بھی کم خرچ کر رہے ہیں۔ ملک کی اتنی آبادی کو اس سال بھی بجٹ سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
بجٹ میں اخراجات پر نظر ڈالیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ناکام بجٹ پیش کرنے میں مہارت حاصل کر چکی ہے۔ خوراک اور کھاد کی سبسیڈی کم کر دی گئی ہے۔ دفاعی بجٹ میں بھی کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ پنشن پر اخراجات میں معمولی سا اضافہ کیا گیا ہے۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ یعنی منریگا کے بجٹ کو جوں کا توں رکھا گیا ہے، جب اس مالی سال میں 5.8 کروڑ لوگ پہلے ہی سے اس کے تحت ہیں اور پچیس لاکھ نئے افراد کو جاب کارڈ دیا کیا گیا ہے، افراد کی تعداد تو بڑھی ہے لیکن بجٹ نہیں بڑھایا گیا۔ فصل بیمہ اسکیم، یوریا سبسیڈی، اور غذائیت پر مبنی یعنی نیوٹرینٹس پر سبسیڈی کو کم کر دیا گیا ہے۔ منریگا کی طرح، پی ایم کسان یوجنا کے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے، جب کہ اس میں مزید لوگوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بجٹ نہیں بڑھایا گیا۔
خوشحالی کے کھوکھلے دعووں سے بڑھ کر، اس سال کے بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک ’اضافی ٹو اے بی‘ بھی شامل ہے، وہی ٹو اے بی جسے برسوں پہلے مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا، یہ ’’ایکسٹرا ٹو اے بی کہاں سے آتا ہے؟‘‘ یہ ٹو اے بی کیا ہے آپ کو معلوم ہے؟ یہ ایکسٹرا ٹو اے بی (آندھراپردیش اور بہار) ہے، یہ ایکسٹرا ٹو اے بی اپنے اتحاد کی مجبوریوں سے آیا ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ ہال سے آندھرا پردیش اور بہار کی اسمبلیوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔ مودی جیسی شخصیت جنہیں ان کے اندھ بھکت بھگوان مانتے ہیں، اس بجٹ نے ان کی شخصیت کو خاک میں ملا دیا۔
مودی اور نرملا تائی کی جوڑی نے اپنے سیاسی اتحادیوں پر اپنی کمزور ہوتی ہوئی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے اس بجٹ کا انتخاب کیا اور حکومت بچانے کے لیے ملک کے عوام کو معاشی بدحالی کے دلدل میں دھکیل دیا۔

 

***

 خوشحالی کے کھوکھلے دعووں سے بڑھ کر، اس سال کے بجٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک ’اضافی ٹو اے بی‘ بھی شامل ہے، وہی ٹو اے بی جسے برسوں پہلے مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا، یہ ’’ایکسٹرا ٹو اے بی کہاں سے آتا ہے؟‘‘ یہ ٹو اے بی کیا ہے آپ کو معلوم ہے؟ یہ ایکسٹرا ٹو اے بی (آندھراپردیش اور بہار) ہے، یہ ایکسٹرا ٹو اے بی اپنے اتحاد کی مجبوریوں سے آیا ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ ہال سے آندھرا پردیش اور بہار کی اسمبلیوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔ مودی جیسی شخصیت جنہیں ان کے اندھ بھکت بھگوان مانتے ہیں، اس بجٹ نے ان کی شخصیت کو خاک میں ملا دیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024