سری لنکا میں گذشتہ پانچ ہفتوں میں دوسری بار ایمرجنسی نافذ

نئی دہلی، مئی 7: اے ایف پی کی خبر کے مطابق سری لنکا کے صدر راجا پکسے نے جمعہ کو ملک میں غیر معمولی اقتصادی بحران کے درمیان ایک ماہ سے کم عرصے میں دوسری بار ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔

ان کے ترجمان نے کہا کہ راجا پکسے نے امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے ایمرجنسی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمرجنسی جمعہ کی نصف شب سے نافذ ہوئی۔

اس سے قبل جمعہ کو مظاہرین نے ملک کی پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کی کوشش کی اور مطالبہ کیا کہ راجا پکسے مستعفی ہو جائیں۔ پولیس کی جانب سے انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال کے باوجود مظاہرین پارلیمنٹ کے باہر موجود رہے۔

ڈیلی مرر نے رپورٹ کیا کہ کئی قانون ساز احتجاج کی وجہ سے پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر نہیں جا سکے۔ حزب اختلاف کے رکن پارلیمنٹ ہارین فرنانڈو نے کہا کہ احاطے میں داخلے اور نکلنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

فرنانڈو نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی ایوان میں اس وقت تک کارروائی کا بائیکاٹ کرے گی جب تک صدر اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ نہیں لیا جاتا۔ یونائیٹڈ پیپلز پاور نے منگل کو راجا پکسے اور ان کے بھائی وزیر اعظم مہندا راجا پکسے کے خلاف دو عدم اعتماد کی تحریکیں جمع کرائی گئی ہیں۔

سری لنکا کی حکومت نے پہلی بار یکم اپریل کو ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا، جس میں راجا پکسے کو مظاہرین کو حراست میں لینے اور املاک کو ضبط کرنے کے وسیع اختیارات دیے گئے تھے۔ اس کے باوجود ان کی برطرفی کے لیے احتجاج جاری تھا۔

دریں اثنا سری لنکا میں ٹریڈ یونینوں نے بھی جمعہ کو ملک گیر ہڑتال شروع کر دی اور معاشی بحران کی وجہ سے حکومت سے استعفیٰ مانگا۔ ہڑتال میں صحت اور بندرگاہ کے شعبوں کے ساتھ ساتھ دیگر سرکاری خدمات کی یونینوں نے حصہ لیا۔ تاہم کچھ حکومت نواز یونینوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔

احتجاجی مزدور یونینوں کے شریک کنوینر روی کمودیش نے کہا کہ 2000 سے زیادہ یونینیں ان کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ کارکن ہنگامی خدمات فراہم کرتے رہیں گے۔

پی ٹی آئی کے مطابق کمودیش نے کہا ’’آج کی ایک دن کی کارروائی سے صدر کو بتانا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مستعفی ہو جائیں۔ اگر ہماری درخواستوں پر غور نہیں کیا گیا تو ہم 11 مئی سے حکومت کے استعفیٰ تک مسلسل ہڑتال کریں گے۔‘‘

واضح رہے کہ سری لنکا اس وقت عوامی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، جس کی وجہ سے 1948 میں اس کی آزادی کے بعد سے اسے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کے ساتھ ساتھ سری لنکا کو ادویات، دودھ کے پاؤڈر، کھانا پکانے کی گیس، مٹی کے تیل اور دیگر ضروری اشیا کی قلت کا سامنا ہے۔

پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے ایندھن کی کمی کے باعث حکام نے یومیہ 13 گھنٹے بجلی کی کٹوتی کر دی ہے۔ 17 اپریل کو سرکاری پٹرولیم کارپوریشن نے ایندھن کی راشننگ شروع کر دی تھی۔

12 اپریل کو حکومت نے کہا کہ جب تک اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ نہیں مل جاتا وہ 51 بلین ڈالر (3.88 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ) کے اپنے پورے بیرونی قرضوں کو ڈیفالٹ کر لے گی۔