انٹونی فلو کی کتاب : "There is A God” ایک مطالعہ

نصف صدی تک ملحد رہنے کے بعد خدا کے وجود کا اقرار کرنے والے شخص کی داستان

عبدالعزیز سلفی، علی گڑھ

انٹونی فلو (Antony Flew) ایک نامی گرامی منکر خدا (Atheist) تھے، جو 1923 میں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ سمیت کئی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ماہرِ فلسفۂ مذاہب تھے۔ 2003 تک الحاد کا دفاع کرتے رہے اور تقریباً پچاس سال الحاد کے حق میں اور متعدد مذاہب کے خلاف لکھتے رہے۔ پھر 2004 میں ان کی سوچ بدلی اور وہ خدا کے وجود کے قائل ہوئے، پھر انہوں نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے "THERE IS A GOD” یہ کتاب ان کے ذہنی سفر کی کہانی ہے کہ وہ کیوں اتنا عرصہ خدا کے وجود سے انکاری ہونے کے بعد خدا کے وجود کے قائل ہوئے۔
پیش نظر کتاب "هناك إله” یہ "there is a god” کی تعریب ہے، جو کہ ڈاکٹر صلاح الفضلی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب 2015 میں کویت سے شائع ہوئی تھی جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ تین فصول جبکہ دوسرا حصہ سات فصول پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے میں مصنف نے اپنے انکار خدا کی روداد بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ چودہ سال کے تھے تبھی انہوں نے کائنات میں شر کے وجود کے سبب الحاد کا راستہ اپنایا تھا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور شعبۂ فلسفہ سے تخصص کیا۔ اسی یونیورسٹی میں دوران تعلیم وہ ایک فلسفیانہ فکر پر مبنی انجمن "Socratic Club” سے جڑ گئے۔ انجمن کی بنیاد سقراط کے ایک فلسفیانہ قاعدہ پر رکھی گئی تھی کہ "دلیل کی پیروی کرو خواہ وہ تمہیں کہیں بھی لے جائے”۔ مصنف کہتے ہیں کہ میں اس قاعدے کو ساری زندگی لازم پکڑے رہا۔ اس انجمن کے تحت فلو نے سب سے پہلے سن 1950 میں بعنوان: ‘علم لاہوت اور جعل سازی’ Theology and Falsification) پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا، جس سے ان کا مقصد ایک ایسا قابل تقلید نظام تشکیل دینا تھا جس پر چل کر بڑے بڑے مذہبی دعوؤں کی پول کھولی جا سکے۔ اس مقالے کو ماضی میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے فلسفیانہ مقالے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انٹونی فلو نے 1976 میں جو مقالات لکھے تھے ان میں سے ایک مقالہ ‘مفروضہ الحاد’ ( The Presumption of Atheism) کے نام سے تھا۔ اس مقالے کی بنیادی فکر یہ تھی کہ انسان کی فطرت الحاد ہے نہ کہ کسی ایک معبود کے وجود پر ایمان لانا؟ ان کے تحریر کردہ ان مقالات پر کئی تنقیدیں ہوئیں، جو انٹونی فلو کے افکار پر اثر انداز ہوئیں، اور گزرتے زمانے کے ساتھ ان کی فکر و نظر کا زاویہ بھی تبدیل ہوتا گیا۔
کتاب کا دوسرا حصہ ‘خدا کی تلاش’ کے موضوع پر مشتمل ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے الحاد سے خدا کے اقرار تک کا سفر طے کیا ہے۔ ابتدا ایک دلچسپ قصے سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مان لو کچھ لوگ ایک ایسے جزیرے میں رہ رہے ہوں جو باقی دنیا سے الگ تھلگ واقع ہے۔ وہاں پر انہیں ایک ٹیلی فون ملتا ہے جب وہ ٹیلی فون کے بٹن کو دباتے ہیں تو مختلف لوگوں کی آوازوں کو سنتے ہیں، لیکن وہ ان کی زبان کو نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ شروع میں قبیلے کے علماء یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کی یہ موبائل مختلف دھاتوں اور کیمیائی مواد سے مل کر بنا ہے اور اسی وجہ سے یہ آوازیں آرہی ہیں، لیکن اس قبیلے کے حکماء اس نتیجے پر قانع نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کی جو آوازیں اس موبائل سے آرہی ہیں وہ کسی دوسری جگہ پر رہنے والے لوگوں کی ہیں جن کو وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں لیکن قبیلے کے علماء ان پر ہنستے ہوئے ان کے اس نتیجے کو مسترد کر دیتے ہیں۔
انٹونی فلو اس مفروضہ واقعے کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: پہلے سے تصور شدہ نظریات ہمیں ایک ایسی راہ دکھلاتے ہیں جن پر چل کر ہم دلیل تلاش کر سکتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے مفروضات پر قائم رہ کر دلیل کو نظر انداز کر دیں۔ پھر آگے چل کر موصوف نے جدید سائنسی اکتشافات کے حوالے سے وجود باری تعالٰی کے تین دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔
پہلی دلیل: فطرت کے وہ قوانین ہیں جن پر یہ پوری کائنات چل رہی ہے اور کوئی بھی شے اس سے سرِ مو بھی روگردانی نہیں کرتی ہے۔ مصنف ایک سوال قائم کرتے ہیں ‘فطرت کے قوانین کس نے لکھے ہیں؟’ اس کا جواب دیتے ہوئے موصوف سائنس دانوں کے ان ریسرچوں اور انکشافات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ایک ایسی منطقی، فلسفی اور قناعت بخش نقطۂ نگاہ عطا کرتی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ سوال کا نتیجہ خیز جواب یہی ہوگا کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق اور اس کے نظام کو چلانے والا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہے۔ بہت سارے سائنسدانوں نے اس دلیل کو مانا ہے، جن میں مشہور سائنسداں اسحاق نیوٹن، ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ اروین شرودینگر (Erwin Schrödinger) اور ریاضی داں وماہر طبعیات جیمز کلیرک ماکسویل (James Clerk Maxwell) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ البرٹ آئنسٹائین کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جاتا ہے لیکن جدید ملحدین جیسے رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) وغیرہ چاہتے ہیں
کہ آئنسٹائین کو ملحد کے ہی روپ میں پیش کیا جائے، حالانکہ آئنسٹائین نے اپنی کئی تصانیف میں خود کو الحاد کی تہمت سے بری قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل جس کو انٹونی فلو نے ذکر کیا ہے وہ ہے عدم سے زندگی کا وجود۔ وہ کہتے ہیں کہ جدید سائنس نے ڈی این اے (DNA) کی ساخت اور میکانزم (Mechanicsm) کی درستگی و پیچیدگی اور ذہانت (intelligence) کو دریافت کیا ہے، جو کسی قادر مطلق کی ہی کارفرمائی ہو سکتی ہے۔ فلو نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے اس نظریے پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان جدید سائنسی اکتشافات سے نابلد ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ خلیے (Cell) کا وجود کیمیائی مواد (Chemicals) سے ہوتا ہے۔ اس کا انہوں نے دو جواب دیا ہے، پہلا علمی اور دوسرا فلسفی۔ پہلا علمی جواب انہوں نے (کیف؟) یعنی کیمیائی مواد سے خلیے کا وجود کیسے ہوتا ہے کا دیا ہے کہ یہ تمام کے تمام سائنسی نظریات بہت پیچیدہ ہیں اور جتنے بھی مفروضے قائم کیے گئے ہیں سب بے بنیاد ہیں اور یہ نظریات ایسے ہیں کہ یہ کسی بھی چیز کا جواب صحیح طور پر نہیں دے سکتے، یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ کیا حقیقت میں اس کائنات کی عمر تقریبا 14 بلین سال ہے؟ غرض ان نظریات کی تحقیق ممکن ہی نہیں ہے۔
دوسرا جواب فلسفیانہ ہے جو (لماذا) یعنی اس کائنات کا وجود کس لیے ہوا ہے پر مشتمل ہے۔ انتونی فلو ملحدین سے کہتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے کہ یہ کیمیائی مواد معدوم العقل تھے اور وقت کے ساتھ بڑھتے گئے اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ اس زندہ و جاوید کائنات کی تخلیق ہوئی جو درج ذیل جوہری صفات سے متصف ہے:
١۔اس کائنات کے کچھ جوہری مقاصد Purpose driven ہیں جس کے لیے یہ حرکت کر رہی ہے۔
۲۔ یہ کائنات خود تولید Reproduction Self پر قادر ہے۔
۳۔ اس کائنات کے خلیے، کوڈیڈ کیمسٹری (Coded Chemistry) پہ مشتمل ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تھیوریز اور جدید تحقیقات (کیف؟) اور (لماذا؟) کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
تیسری دلیل: سائنسی رجحان ہے، یعنی کائنات کی نشونما (Origins Of Universe) کے سلسلے میں کی جانے والی وہ تحقیقات و انکشافات ہیں جس نے انتھونی فلو کی رائے کو بدل دیا تھا اور جو اس کے ایک خدا کے وجود پر ایمان لانے کا سبب بنا۔ انہوں نے کتاب کے شروع میں بتایا ہے کہ کم عمری میں انہوں نے ایک بحث بنام (The Presumption of Atheism) یعنی الحاد کا مفروضہ لکھی تھی جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اگر ہم مان لیں کہ کائنات ایک مطلق، ابدی حقیقت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فلو کہتے ہیں کہ ان کی یہ تحقیق ابتدائے عمر اور ان سائنسی اکتشافات سے پہلے کی ہے جو یہ بتاتی ہیں کی اس کائنات کا ایک نقطہ آغاز ہے جس کو بگ بینگ تھیوری (The Big Bang Theory) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ طبیعیات اور فطرت کی بنیاد پر لوگ کہتے ہیں کائنات کو بہت مضبوطی کے ساتھ اور بڑے ہی احتیاط سے بنایا گیا ہے۔
چونکہ کائناتی مستقل (Universal consonants) کی طبعی قدریں (Physical values) اور ان اقدار کے درمیان تناسب، جن کے ذریعے ہم کائنات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، بہت ہی درست ہیں۔ اس لیے ان میں انتہائی سادگی کے باوجود کوئی نقص نہ ہونا یہ باور کراتا ہے کہ کائنات یا تو اپنے آپ میں سکڑ کر غائب ہو جائے گی، یا یہ اس حد تک پھیل جائے گی کہ اس کے اندر کہکشاؤں ستاروں اور سیاروں کے بننے کا عمل ختم ہو جائے گا، حتی کہ زندگی کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔
کتاب کی آخری فصول میں انتونی فلو نے خدا کی تعریف اور ان کی خود کی زندگی میں خدا کے وجود کی اہمیت پر بحث کی ہے، اگرچہ انہوں نے ابتدائے زندگی میں خدا کے وجود کی فکر پر اعتراض کیا تھا اور دین دار طبقہ جن الٰہی صفات کا تذکرہ کرتا تھا وہ ان کا مذاق بناتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سن 1980 سے 1990 تک انہوں نے جو مقالات لکھے تھے وہ ان کے خود کے اعتراضات کا بہترین رد ہے۔ انہوں نے مزید اس چیز کی بھی وضاحت کی ہے کہ خدا کا زمان و مکان سے پرے بلکہ مخلوقات کے تصورات (کہ جن کی محدود فکر خدا کی ذات و صفات کا ادراک نہیں کر سکتی) سے پرے خارج میں موجود ہونا ضروری ہے۔
کتاب کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ آخری دور میں لکھے گئے اِن کے مقالات میں موجود افکار و دلائل منطقی ہیں اور جن سے وہ شخصی طور پر مطمئن ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ کتاب رد الحاد کے سلسلے میں نہایت ہی جامع اور مدلل ہے، کیوں کہ اس کتاب کا لکھنے والا ایک ایسا انسان ہے جو تقریباً نصف صدی تک الحاد کی دلدل میں پھنسا رہا اور جس کا قلم الحاد اور فلسفۂ الحاد کے لیے وقف تھا۔ پھر جب وہ خدا کے وجود کا قائل ہوا تو اس نے خود ہی اپنے تمام ملحدانہ افکار کا رد کیا جو اس کتاب کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو ہر شخص تک پہنچایا جائے، اس پر پروگرام اور ورکشاپ کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوان الحاد کا شکار نہ ہوں اور ہم ملحدین کو انہیں کے بنائے گئے اصول و قواعد کے مطابق جواب دے سکیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024