دل کی آواز

مہلت حیات گھٹ رہی ہے تو پھر عمل میں سستی کیوں؟

جاویدہ بیگم ورنگلی

انسان کو اس فانی دنیا میں عمل کے لیے جو مختصر سی مدت دی گئی ہے اسی پر دائمی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے۔
وگ جب بھی مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کیا آپ اب بھی اجتماعات میں جایا کرتی ہیں۔ کیا آپ اب بھی مضامین لکھا کرتی ہیں؟ میں جواب دیے بغیر سوال کرنے والے کو بس دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ اس لیے کہ میں سوال کو سمجھ ہی نہیں پاتی کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ کیا یہ کہ اس عمر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے موت کا انتظار کرنے کے بجائے اجتماعات میں کیوں جارہی ہیں؟ کیوں پڑھ لکھ رہی ہیں؟ ایسی باتوں کا بھلا کیا جواب ہوسکتا ہے؟
یہ کیسی سوچ ہے، کیسا انداز فکر ہے۔ ایک عمر پر پہنچ کر آدمی ہر قسم کی جدوجہد کو ترک کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہ جائے؟ اس سوچ پر افسوس سے زیادہ تعجب ہوتا ہے۔ اسلام تو آخری وقت تک عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر تمہارے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہے معلوم ہوگیا کہ قیامت آگئی ہے تب بھی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہاتھ کے پودے کو زمین میں لگادو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے قیامت کے دن کیے جانے والے پانچ سوالات کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ اس میں پہلا سوال عمر کے بارے میں ہوگا کہ جو مہلت عمل تم کو دی گئی تھی اس میں کیا کیا۔ انسان کو اس فانی دنیا میں عمل کے لیے جو مختصر سی مدت دی گئی ہے اسی پر دائمی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے۔ انسان اس دنیا میں عمل کے جو بیچ بوئے گا آخرت میں اسی کی فصل کاٹے گا۔ تمام علما و فضلا سب اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کو دی گئی سب سے زیادہ قیمتی پونجی وقت ہے۔ لمحات زندگی فراہم کرنے والا وقت بے بدل نعمت ہے۔ دنیا میں کھوئی ہوئی چیز پھر مل سکتی ہے مگر گیا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرمایا کرتے تھے کہ زمانے کی گردش اگرچہ ایک عجیب امر ہے لیکن انسان کی غفلت اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ انسان کو اپنی عمر کے اس دن پر آنسو بہانا چاہیے جو گزر جائے اور اس میں اس نے کوئی نیکی نہ کی ہو۔ جو طالب علم امتحان ہال میں امتحان دینے بیٹھا ہوا ہو اور جو یہ بات بھی جانتا ہو کہ اس امتحان میں کامیابی پر ہی اس کی دائمی زندگی کی فلاح و کامرانی کا انحصار ہے، وہ وقت کو ضائع نہں کرتا ’’جس نے موت حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرسکے تو میں سے کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے‘‘ (الملک ۲)
جو شخص اس بات کو جانتا ہو وہ اپنی ساری توجہ دیے ہوئے پرچے کو حل کرنے میں لگادے گا ۔ غیر ضروری چیزوں کو آنکھ اٹھاکر کر بھی نہ دیکھے گا۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ اس کو احساس دلاتا ہے کہ اس کو دیا ہوا وقت ختم ہوا جاتا ہے۔ یہ احساس اس کے عمل کی رفتار کو تیز کردے گا۔ وہ ایک لمحہ کو بھی ضائع نہیں کرے گا۔ گھڑیال کی ہر ٹک ٹک اس کو احساس دلاتی ہے یہ وقت ختم ہورہا ہے۔ وقت ختم ہورہا ہے جو کرنا ہے جلد سے جلد کرلو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس وقت دن اعلان کرتا ہے ’’آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کرلے آج کے بعد میں پھر کبھی نہیں آوں گا‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں اس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا کہ جو میری عمر سے کم ہوجائے اور اس میں میرے عمل کا اضافہ نہ ہو سکے‘‘۔ یعنی وقت ضائع ہوجائے۔ علمائے سلف وقت کے بارے میں بڑے محتاط تھے۔ چند لوگ حضرت معروف کرخیؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ جب مجلس انہوں نے طویل کی اور کافی دیر تک نہیں اٹھے تو حضرت معروف کرخیؒ ان سے فرمانے لگے ’’نظام شمسی چلانے والا فرشتہ تھکا نہیں (اس کی گردش جاری ہے وقت ہےکہ گزرتا جارہا ہے۔ آپ لوگوں کا اٹھنے کا کب ارادہ ہے‘‘ چھٹی صدی کے مشہور عالم علامہ ابن الجوزی نے اپنے بیٹے کو نصیحت نامہ لکھا جس میں وہ وقت کی اہمیت اور عمر عزیز کی قدر و منزلت کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں ۔ ’’بیٹے! زندگی کے دن چند گھنٹوں اور گھنٹے چند گھڑیوں سے عبارت ہے۔ زندگی کی سانس گنجینہ ایزدی ہے۔ ایک ایک سانس کی قدر کیجیے کہ بغیر فائدہ کے گزر نہ جائے تاکہ کل قیامت میں زندگی کا دفینہ خالی پاکر اشک ندامت نہ بہانے پڑے۔ ایک اک لمحہ کا حساب کریں کہ کہاں صرف ہورہا ہے اور اس کوشش میں رہیں کہ ہر گھڑی کسی مفید کام میں مصروف ہو۔ بے کار وقت گزارنے سے بچیں اور کام کی عادت ڈالیں تاکہ آگے چل کر آپ وہ کچھ پاسکیں جو آپ کے لیے باعث مسرت ہو‘‘۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے تھے ، دن رات کی گردش آپ کی عمر کم کررہی ہے تو آپ عمل میں پھر کیوں سست ہیں‘‘۔ مشہور بزرگ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے۔ جب ایک دن گزر جاتا ہے تو یوں سمجھ لے کہ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔
زمانے کے انقلاب نے ہر چیز کی قدر و قیمت کو بدل کر رکھ دیا مگر زمانے کے انقلابات سے کوئی چیز متاثر نہ ہوپائی تو وہ ’’وقت‘‘ ہے۔ وقت کی قدر قیمت آج بھی وہی ہے جو روز اول رہی ہے۔ آج سائنسی ترقی کے باوجود قریب المرگ شخص کی زندگی میں چند گھنٹوں کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ آج بھی ہر شخص کو جو کچھ کرنا ہے اس کو ملے ہوئے مہلت عمل میں کرنا ہے۔ کل بھی جو کرنا ہوگا ملی ہوئی مہلت عمل میں ہی کرنا ہوگا۔ سمجھ میں نہیں آتی لوگ بڑھتی ہوئی عمر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھتے ہیں۔ گذرتا ہوا وقت کیوں احساس نہیں دلاتا کہ جو کرنا ہے فوراً کرو۔ وقت مہلت ختم ہوا چاہتا ہے۔
ہمارے بزرگوں کو وقت کی قدر و قیمت کا اس قدر زیادہ احساس تھا جس کی تاریخ گواہ ہے۔ آج وقت کی کوئی قدر و قیمت ہمارے میں نہیں ہے۔ ہماری عملی زندگی ہماری مصروفیتیں اس کی گواہ ہیں۔ ہمارا بیشتر وقت شاپنگ مالوں، ہوٹلوں، کلبوں، بازاروں میں گھومنے پھرنے غیر ضروری بحث و تکرار لا یعنی باتوں میں گذرتا ہے۔ سنجیدہ مطالعہ کے لیے کوئی وقت نہیں۔ دل سے آواز آتی ہے کیا زندہ قوموں کا سوچ کا یہ انداز ہوسکتا ہے کہ وہ وقت برباد کرکے خوش ہوں؟

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024