دعوت الی اللہ سے اقامتِ دین تک کا سفر
ڈاکٹر ساجد عباسی
تمام انبیاء ورُسل کا بنیادی مقصدِ نبوت ورسالت ،انذارو تبشیراور دعوت الی اللہ تھا۔’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘(سورۃ النساء۱۶۵)
تمام انبیاء نے اپنی قوم کو ایک اللہ ہی کی بندگی کی طرف دعوت دی۔’’ اس نے کہا اے برادرانِ قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔(سورۃالاعراف۵۹۔)
رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا کہ واضح کردو کہ آپؐ کا طریقہ اور راستہ کیا ہے۔’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔“(سورۃ یوسف ۱۰۸)
امتِ مسلمہ کو بہترین امت جس وصف کی بنیاد پر بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں(سورۃ آل عمران ۱۱۰)۔ سب سے بڑا معروف اللہ کی بندگی ہے اور سب سے بڑا منکر کفر اور شرک ہے۔ اس امت کو امتِ وسط اس ذمہ داری کے ساتھ بنایا گیا کہ وہ شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دیں یعنی انسانوں تک حق بات پہنچائیں جس کے وہ امین ہیں اور جس سے انسانیت ناواقف ہے(سورۃ البقرۃ ۱۴۳)۔
اقامتِ دین بھی ایک فریضہ ہے جس کا حکم قرآن میں اس طرح آیا ہے جیسے نماز کو قائم کرنا ایک فریضہ ہے۔’’اس نےتمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نُوحؑ کو دیا تھا، اور جسے اے محمدؐ اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاوٴ۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ۱۳۔)
اقامتِ دین سے مراد دین کو عملاً قائم کرنا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ امت کا ہر فرد اپنی ذات پر اس دین کو قائم کرے جس کا وہ مکلف ہے۔ دوسرے یہ کہ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی معاشرے و ملک میں دین کو اجتماعی سطح پر نافذ کرے۔ اجتماعی طور پر دین وشریعت کے نفاذ کا انحصار کئی خارجی عوامل پر ہواکرتاتھا۔جیسےرسولوں کی دعوت کو ان کی قوم میں قبول عام حاصل ہونا اور ان کو جانثار ساتھیوں کا ملنااور ان کےاندر اتحاد کا پایا جانا وغیرہ۔رسول اللہ کے اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا گیا:’’اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہی ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑدیا یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔‘‘(سورۃ الانفال ۶۳۔)
چونکہ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐکے لیے غیر معمولی طورپر سازگار حالات پیدافرمائے اور آپؐکی رسالت میں ایک عظیم انقلاب کو مکمل فرمایا جس طرح دین کو مکمل فرمایا۔’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘
(سورۃ الصف۹)۔
لہذا اہل ایمان کو اس امرپر کامل یقین ہونا چاہیے کہ اسوۂ رسول پر عمل کرتے ہوئے اقامت دین کی منزل تک لے جانے والے سنگ ہائے میل اور نقوشِ پا کی اگر مکمل اتباع کی جائے تو اس دورمیں بھی اقامتِ دین کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔لیکن اس شاہراہ میں کئی ایسے امور ہوں گے جو خارجی نوعیت کے ہوں گے جو سراسر اللہ تعالیٰ کی مشیّت ونصرت پر موقوف ہوں گے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کچھ انبیاء و رسل کو منزل کے حصول سے قبل ہی کو اٹھالیا گیا۔رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی دینِ اسلام کو مکمل نظامِ حیات کے طور پر نافذ رکھا۔ لیکن جب خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تو خالص اسلامی اصولوں پر حکومت کا نظام چل نہ سکا لیکن شریعت کے بیشتر احکام نافذ العمل رہے۔
رسول اللہ ﷺ کے علاوہ انبیاء ورسل کی تاریخ میں کسی نبی و رسول کو اقامتِ دین کے مقصد میں اس شان کی کامیابی نہیں ملی جو کامیابی آپ کے حصے میں آئی۔سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر ۱۳ میں اقامتِ دین کا حکم دیا گیا ہے اور اسی آیت میں پانچ اولی العزم رسولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گویا کہ اقامتِ دین کی عملی کاوش میں ان رسولوں کی سرگزشت سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔
سب سے پہلے اس آیت میں نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جنہوں نے ایک طویل عرصہ تک (ساڑھے نوسو سال) تک دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا۔قوم ایک تھی اور پیغام بھی ایک ہی تھا لیکن نوح علیہ السلام نے صدیوں کی مدت میں کبھی دن میں تو کبھی رات میں ،کبھی اجتماع میں اورکبھی تنہائی میں اور ہر پیرائے میں دعوت الی اللہ کرتے رہے۔لیکن قوم کی اکثریت نےاپنے سرداروں کی اطاعت کی اور آپ کی تعلیمات کو قابل التفات نہیں سمجھا چنانچہ کشتی بنانے کا حکم ہوا ۔حکم الہی سے ایک عظیم طوفان نے ساری قوم کو ڈبودیا اور کشتی بھر اہل ایمان بچالیے گئے۔ابراہیم علیہ السلام نے ساری زندگی اسلامی مراکز کے قیام اور دعوت الی اللہ میں گزاردی۔ عیسی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن اقامتِ دین سے قبل ہی آپ کو اٹھا لیا گیا۔ موسی علیہ السلام کو ایسی قوم سے واسطہ پڑا جو آپ کو ساری زندگی ایذا پہنچاتی رہی۔ ایسی قوم پر دین کا قیام محال تھا جو ہر وقت شرک و نافرمانی کے بہانے تلاش کرتی رہی۔ فرعون کو اپنی آنکھوں کے سامنے غرق ہوتے دیکھ کر وہ بچھڑے کی پرستش پر مائل ہوئے۔ من وسلویٰ کی نعمت کی ناشکری کی اور موسی علیہ السلام سے کہا کہ تم اور تمہارا خدا جاکر دشمن قوم سے لڑو ہم تو بیٹھے رہیں گے۔ اسلام کو مکمل نظامِ حیات کے نفاذ کی جدوجہد میں حتمی کامیابی رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی اور ہمارے لیے اقامتِ دین کے فریضے کی ادائیگی میں آپ کا اسوہ ایک واضح اور تابناک نمونہ ہے۔’’ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا1 ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘(سورۃ الاحزاب ۲۱۔)
ایک فرد واحد سے اسلامی ریاست کے سفر میں جو سنگ ہائے میل رہے ہیں وہ تو بہت ہیں۔ اور 23 سالہ دور نبوت میں اتنے متنوع سنگ ہائے میل ایک معجزہ سے کم نہیں ہیں۔
مکی دورِ نبوت میں خاموش و خفیہ دعوت بھی ہےاور علانیہ دعوت بھی،دشمنوں کی طرف سےجھوٹے الزامات، استہزاء و ایذا رسانی پر صبر ہے، ناسازگار حالات کے باوجود پیغام رسانی کی جہد مسلسل ہے، مکہ میں جب اہلِ ایمان کے لیے زمین تنگ کردی گئی توایسے حالات میں حبشہ کی طرف ہجرت بھی ہے۔ دعوت الی اللہ کے راستے میں استقامت اور اس کے مقابلے میں کفار کی ہر پیشکش کوٹھکرانا اور بے آمیز حق کو پیش کرنا بھی ہے۔دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں مکہ کے دو بہادروں حضرت حمزہ و عمر کا ایمان لانا بھی ہے۔ مکی دور میں وہ دورِ محصوری بھی ہے جس میں بنی ہاشم و بنی مطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کرکے معاشی و سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔مکہ میں آپؐاپنی غمگسار اہلیہ وشفیق چچا سے محروم ہوجاتے ہیں اسی سال کو غموں کا سال کہا گیا۔ دعوت الی اللہ کے لیے نئے میدان تلاش کرنےکے لیے طائف کا سفر بھی ہے جس میں آپ کے ساتھ بہت بےرحمانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔پھر اہل مکہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں گویا کہ آپؐ کو خود اپنے وطن میں شہریت سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ مطعم بن عدی کی امان میں مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کی جدوجہدجاری و ساری رہتی ہے۔حج کے قافلوں میں دعوت الی اللہ کے کام پر اپنی توجہ مرکوزکرتے ہیں ۔مدینہ کے چند لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس طرح مدینہ سے امید کی کرن نمودار ہوتی ہے۔ بیت المقدس اور عالم بالا کے سفرِ معراج کا واقعہ پیش آتا ہے۔اہل مدینہ سے معاہدہ[بیعت عقبہ اولی و ثانی] عمل میں آتا ہے۔اہل مکہ آپ کے قتل کی سازش پر متفق ہوتے ہیں بالآخر اپنے وطن عزیز کو الوداع کہہ کر ہجرت کو گوارا کرتے ہیں۔ یہ مکی دورِ نبوت کے اہم مراحل ہیں جس میں وہ احوال ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہوں اور اکثریت کے ظلم کا شکار ہوں۔
مدنی دورِ نبوت میں جو مراحل درپیش ہوئے وہ یہ ہیں:
مدینہ ہجرت کرنے کے فوراً بعد میثاقِ مدینہ بنایا گیا جس میں مدینہ کی سلامتی کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدات کیے گئے۔جب ۲ ہجری میں کفار نے پہلی بار مدینہ پر حملہ کیا تو غزوہ بدر پیش آیا جو فیصلہ کن معرکہ ثابت ہوا ۔جنگی قیدیوں سےبہترین سلوک و رہائی عمل میں آتی ہے ۔ اگلے سال غزوہ احد پیش آتا ہے۔مسلمانوں کی فتح کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑاجس میں ۷۰صحابہ شہید ہوئے ۔ غزوۂ احزاب[غزوۂ خندق] میں جنگ کی نئی حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔یہودیوں غداری کی سزا[غزوۂ بنو قریظہ] ان ہی کے حَکَم کے فیصلے کے مطابق دی جاتی ہے۔اسلامی اصولوں پر اسلامی معاشرت کی تعمیرکی جاتی ہے۔صلح حدیبیہ کا مرحلہ پیش آتا ہے جس کو قرآن میں فتح مبین سے تعبیر کیا گیا۔اس صلح کے بعد اطراف و اکناف کے قبائل یکے بعد دیگرے مشرف بہ ایمان ہوتے ہیں۔ بادشاہوں کے نام خطوط لکھے جاتے ہیں اور اس طرح اسلام کے جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے نکل کر ایک بین الاقوامی دین بننے کا آغاز ہوتا ہے۔یہودیوں کی بدعہدی کی پاداش میں غزوۂ خیبر میں یہود کی حتمی سرکوبی کی جاتی ہے۔اس کے بعدمعرکہ موتہ پیش آتا ہے۔ صلح حدیبیہ کی بدعہدی کے بعد فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوتا ہے جس کے بعدکعبتہ اللہ کو بتوں سے پاک کیا جاتا ہے ۔اس کے بعدغزوہ حنین، غزوہ طائف اور غزوہ تبوک پیش آتے ہیں جس سے اسلام جزیرہ نمائے میں واحد قوت کے طور پر ابھر تا ہے۔اس کے بعد باقی قبائل دائرہ اسلام میں تیزی کے ساتھ فوج در فوج داخل ہوتے ہیں ۔آخر میں حجتہ الوداع اسلامی طریقے پر آپ کی قیادت میں ادا کیا جاتا ہےجس میںساری دنیا کے انسانی حقوق کا منشور دیا جاتا ہے اور بالآخر اللہ رفیق اعلی کی طرف کوچ کرجاتے ہیں یعنی آپؐ کی رحلت ہوتی ہے۔
ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ۲۳ سالہ مختصر حیاتِ طیبہ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف و متنوع ادوار و مراحل اور منظر ناموں scenarios کو جمع فرمایا ہے تاکہ قیامت تک کے لیے تمام ممالک و اقوام کو پیش آنے والے تمام حالات میں اسوۂ رسول میں رہنمائی ملے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اتنے واقعات کو آپؐکی زندگی میں رکھ دیا۔اگر کفار مکہ ابتداء ہی میں ایمان لے آتے تو آپ کی زندگی میں اتنے متنوع قسم کے واقعات پیش نہیں آتے۔ یہ ختم نبوت کا بیّن ثبوت ہےکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے مکمل دین کا عظیم تحفہ انسانیت کو دیا اور اس ایسا اسوہ دیا جو ساری انسانیت کے لیے مکمل رہنمائی رکھتا ہے۔یہ ہےشاہراہ ِ رسالت کے سنگ ہائے میل جو اشارات کی صورت میں پیش کیےگئے ہیں ۔
اجمالی طور پر دورِ رسالت کے تین اہم ترین مراحل ہیں : دعوت، ہجرت اور جہاد۔ یہ دراصل تین ایسے مراحل ہیں جو یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہو ئے ہیں۔ پہلا مرحلہ ہے دعوت الی اللہ۔ جب تک دعوت الی اللہ اتمامِ حجت کی حدتک مکمل نہیں ہوئی اس سے پہلے ہجرت کے آثار بھی نمودار نہیں ہوئے۔مکہ و طائف میں جب میدان دعوت میں اتمامِ حجت ہوچکا اور اس وقت یہ محسوس ہونے لگا کہ کاوشِ رسالت ایک بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔اس وقت بھی یہ فرمایا گیا کہ: وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىَ يَحْكُمَ اللّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ۔ اور اے نبیؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(سورۃ یونس ۱۰۹)۔
آپ نے اس وقت اسی دعوت الی اللہ کے فریضے کو ادا کرنے کے لیے حج کے قافلوں پر توجہ مرکوز کی اور یہیں سے بند گلی کا دروازہ کھلتا ہے یعنی ہجرت کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔سیرت سے ایک اہم سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ دعوت الی اللہ بند گلی کے دروازے کھولتی ہے اور ایسا حل سامنے آتا ہے جو انسان کے فہم و ادراک سے ماورا ہوتا ہے۔اسی طرح کی صورتحال یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آئی جب آپ نےجیل میں اپنے مستقبل سے بے نیاز ہوکر دعوت الی اللہ کے کام میں اپنے آپ کو منہمک رکھا اور یہی فریضہ جیل کے دروازے کو نہ صرف کھولنے کا ذریعہ بن گیا بلکہ آپ کو ایوان شاہی تک پہنچایا۔
قرآن کی آیات اور رسول اللہ کی سیرت سے ایک اہم اصول یہ ہمیں ملتا ہے کہ جب تک دعوت الی اللہ کے کام کو حتمی طورپر اتمامِ حجت تک نہیں پہنچایا جاتا اس وقت تک اگلے مرحلے کا دھندلا سا ، سایہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ سے جو زرین اصول ہمیں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ : دعوت الی اللہ کے فریضہ میں اتمام ِ حجت کے بعد ہجرت کا مرحلہ پیش آتا ہے۔اور ہجرت کے بعد جہاد کا مرحلہ وقوع پذیر ہوتا ہے اور فیصلہ کن جہاد کے بعد اقامت دین کی منزل قریب الحصول ہوتی ہے۔
آج بھارت میں اسوۂ رسول کی روشنی میں ہم کو پہلے مرحلے میں اتمامِ حجت کی حد تک دعوت الی اللہ پر توجہ کو مرکوز کرنا ہوگا۔اس سے امت مسلمہ کو نیا خون ملے گا ،نئی صلاحیتوں اور نئےعزم کے ساتھ نئے لوگ اس میں آملیں گے جو اسلام کو روز بروز طاقتوربنائیں گے۔اس کے بعد ہجرت ہوگی ۔ضروری نہیں کہ یہ ہجرت جغرافیائی ہجرت ہو۔یہ کفر سے اسلام کی طرف ہجرت ہوگی ،کمزوری سے طاقت کی طرف ہجرت ہوگی، زوال سے عروج کی طرف ہجرت ہوگی۔اس کے بعد جہاد کا مرحلہ ہوگا۔ ضروری نہیں ہے کہ میدان قتال سجادیا جائے گا بلکہ اس کی جگہ افکار کی دنیا میں جہاد ہوگا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۔اس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیرکرو۔(سورۃ الفرقان۵۲)
جب جہاد بالقرآن کا مرحلہ طے ہوگا تو پھر اقامت دین کی راہ ہموار ہوگی ۔افکار میں تبدیلی ہی ایک فطری اور پائیدار انقلاب کی نقیب ہوگی۔
سارے انبیاء علیہم السلام کی سرگزشت اس اصول کو پیش کرتی ہے کہ دعوت الی اللہ و شہادت علی الناس جہاں ایک عظیم شاہراہ سعی وجہد ہے تو اقامتِ دین اس کی حتمی منزل ہے۔دعوت الی اللہ کےمیدان میں اتمامِ حجت کے بعد ہی اگلے محاذ کھلنےکا آغاز ہوتا ہے۔ورنہ ترجیحات کی ترتیب میں فطری اور الہی اصولوں سے انحراف تحریکوں کو ناقابلِ تلافی نقصانات سے دوچار کرتا ہے۔
اول کو کیا آخر، آخر کو کیا اول
دور ہوئی منزل ہر اک قدم کے اٹھنے سے
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022