ڈر کا کھیل ؛کہانی ایک کردار اَنیک ،بی جے پی اور ترنمول کانگریس کےمتضاد پہلو

اِدھرمسلمانوں کے نام پر اکثریتی طبقے میں ڈر کا ماحول، اُدھر بی جے پی کے نام پر مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش

کولکاتا دعوت نیوز بیورو

بنگا ل میں مسلمانوں کی ترقی کا نام و نشان نہیں مگر سیاسی مفاد سب کو چاہئے
پچھلے13سال میں مسلمانوں کے حق میں کیے گئے اقدامات کی ترنمول کانگریس کے پاس کوئی فہرست نہیں
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی ایک تہائی سے زائد ہے اور ریاست کی پسماندہ ترین آبادی میں سے ایک ہے۔لوک سبھا انتخابات کے دوران مسلمانوں کے نام پر سیاست تو ضرور ہو رہی ہے مگر مسلمانوں کی ترقی اور فلاح وبہبود ایجنڈا نہیں ہے۔ ایک طرف بی جے پی مسلمانوں کے نام پر ہندوؤں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف ترنمول کانگریس مسلمانوں کو بی جے پی کے نام پر خوف زدہ کررہی ہے۔ بی جے پی ہندوؤں سے کہہ رہی ہے کہ مسلمانوں کی خوشنودی کے لیے ممتا بنرجی شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کر رہی ہیں تو دوسری طرف ممتا بنرجی مسلمانوں سے کہہ رہی ہیں کہ اگر بی جے پی آئے گی تو ان کی شہریت ختم کردی جائے گی۔گزشتہ ایک دہائی سے مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن کی وجہ سے اقتدار پر متمکن ممتا بنرجی کو اس مرتبہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا خوف ستانے لگا ہے۔ مالدہ، مرشدآباد، شمالی دیناج پور، ندیا اور بھیربھوم جیسے اضلاع میں وہ اس خوف و اندیشے کا بار بار اظہار کر رہی ہیں۔ وہ ایک طرف مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تو دوسری طرف گزشتہ 13 برسوں میں مسلمانوں کی ترقی و فلاح بہبود سے متعلق ان کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
1947 کی تقسیم نے بنگال میں ایک دیر پا سماجی انحطاط کو جنم دیا ہے، مغربی بنگال سے متمول اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کی نقل مکانی کے اثرات سات دہائیوں کے بعد بھی باقی ہیں۔ ریاست کے متوسط طبقے کے مسلم دانشور ابھی بھی وہاں مسلمانوں کے لیے میکانزم وضع کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاہم 27 فیصد آبادی ہونے کی وجہ سے بنگال کے مسلمان سیاسی منظر نامے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت ترنمول کانگریس کی حمایت میں ہے۔ مغربی بنگال میں 125 اسمبلی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹروں کا کافی اثر ہے۔سی پی آئی ایم کی قیادت والی بائیں محاذ نے 2006 میں ان میں سے 102 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔اس طرح کل 235 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی ہیں۔ لیکن اگلے پانچ سالوں میں تبدیلی کی لہر نے بائیں محاذ کو عرش سے فرش پر پہنچا دیا ہے۔ 2011 کے اسمبلی انتخابات میں تصویر مکمل طور پر تبدیل ہوگئی تھی جب ترنمول کانگریس اور کانگریس اتحاد نے 125 مسلم اکثریتی نشستوں میں سے 95 سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ زراعت میں جمود، سنگور، نندی گرام میں حصول اراضی کے خلاف، سچر کمیٹی کی رپورٹ اور مسلم کمیونٹی سے ممتا بنرجی کے متعدد وعدےیہ سب عناصر 2011 میں ترنمول کانگریس کی تاریخی جیت پر منتج ہوئے تھے۔
اب اس موقع پر بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت کے دور میں مسلم کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی ترقی کے رفتار کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مغربی بنگال حکومت کی کابینہ اور اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح کیا رہی ہے؟ 2011 میں ترنمول کانگریس کی جیت نے مسلم کابینہ کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا لیکن اس کے بعد کے انتخابات میں یہ مسلسل کم ہوتا چلا گیا اور 2021 کے آخری الیکشن میں بالآخر 2006 کی سطح تک گر گیا۔اسی طرح مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد بھی کم ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ترنمول کانگریس نے 2021 میں بائیں محاذ اور کانگریس اتحاد کے مقابلے میں مسلم امیدواروں کی تعداد کم کر دی۔
قومی اوسط کے مقابلے میں مغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے روزگار کے مواقع میں کافی فرق ہے۔ قومی سطح پر لیبر فورس سروے 2018-19 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ریاست میں صرف 13 فیصد مسلمان ہی باقاعدہ تنخواہ والی ملازمتیں کرتے ہیں جبکہ قومی اوسط 22 فیصد ہے۔ اس کے بر عکس مغربی بنگال میں مسلمان غیر منظم سیکٹر میں زیادہ کام کرتے ہیں ۔قومی سطح پر 26 فیصد کے مقابلے میں بنگال میں 34 فیصد مسلمان غیر منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ مزید برآں سروے بتاتا ہے کہ مغربی بنگال میں تنخواہ دار مسلم کارکن ملک کے دیگر حصوں میں اپنے ہم منصبوں کے مقابلے اوسطاً کم کماتے ہیں۔
ایک اور سروے اس سے بھی زیادہ سنگین تصویر پیش کرتا ہے۔ SNAP، گائیڈنس گلڈ اور پرتیچی ٹرسٹ کی طرف سے تیار کردہ ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دیہی بنگال میں تقریباً 80 فیصد مسلم گھرانے صرف 5,000 روپے ماہانہ کماتے ہیں جو کہ پانچ افراد کے خاندان کی غربت کی لکیر کی آمدنی کے بہت قریب ہے۔ یہ تشویشناک امر ہے کہ یہاں کے 38.3 فیصد مسلم گھرانے 2,500 روپے یا اس سے کم کماتے ہیں جو غربت کی لکیر کا صرف نصف ہے۔ صرف 3.4 فیصد مسلم گھرانے 15,000روپے یا اس سے زیادہ ماہانہ کما پاتے ہیں۔ مغربی بنگال کے مسلمان اوسط ہندوستانی مسلمان کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
مرشد آباد، مالدہ اور شمالی دیناج پور کے اضلاع جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مغربی بنگال کے سب سے پسماندہ علاقوں میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے -5 (21-2019) سے ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس (MPI) کے مطابق ان اضلاع میں غربت کی شرح بالترتیب 16.55،15.57 اور 21.65 فیصد ہے جبکہ ریاست کا اوسط 11.58 فیصد ہے۔ ریاست کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہونے کے باوجود، ان اضلاع میں صرف 3 سرکاری میڈیکل کالجس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں موجودہ میڈیکل کالجوں کو ریاست کے دیگر حصوں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ مریضوں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ یہ صورت حال صحت کی دیکھ بھال اور وسائل تک رسائی میں نمایاں تفاوت کو ظاہر کرتی ہے، جو ان اضلاع میں جاری سماجی واقتصادی چیلنجوں میں حصہ ڈالتا ہے۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کے لیے تعلیمی حصول میں تفاوت اعلیٰ تعلیم تک پھیلا ہوا ہے۔ کیونکہ ریاست کی آبادی کا 27 فیصد ہونے کے باوجود، اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعداد صرف 12 فیصد ہے، جیسا کہ AISHE نے تعلیمی سال 22-2021 میں واضح کیا ہے۔ یہ عدم توازن خاص طور پر ریاست کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر جادو پور یونیورسٹی میں تعلیمی سال 16-2015 کے دوران کل8 329 طلباء کے اندراج میں سے صرف 50 یعنی محض 6 فیصد مسلمان تھے۔ اسی طرح انڈین اسٹیٹسٹیکل انسٹیٹیوٹ (آئی ایس آئی) ایک مرکزی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والا ادارہ ہے جس میں کل 740 طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں مسلم طلباء کی تعداد محض 8 ہے۔یعنی 1.08 فیصد مسلم طلبا نے داخلہ لیا۔ AISHE رپورٹ کے مطابق رابندر بھارتی یونیورسٹی میں 16-2015 میں 46,522 طلباء کے اندراج کے ساتھ صرف 2.34 فیصد مسلم طلباء تھے، جبکہ سلیگوڑی کی یونیورسٹی آف نارتھ بنگال میں مسلم طلبا کی تعداد محض 2.6 فیصد تھی۔مزید یہ کہ اسی رپورٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کالج کے اساتذہ میں بھی مسلمانوں کی حصہ داری بہت کم ہے۔ 13-2012 میں کالج کے اساتذہ میں سے صرف 3.12 فیصد مسلمان تھے جو کہ 19-2018 میں بڑھ کر 7.8 ہو گئے۔ تاہم یہ ظاہری اضافہ اس وقت اپنی اہمیت کھو دیتا ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کو جب حساب سے ہی خارج کر دیا جائے۔
سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی اب بھی کم ہے۔ 2008 اور 2016 کے درمیان مغربی بنگال میں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں معمولی اضافہ دیکھا گیا جو 5 .19 فیصد سے بڑھ کر 6.8 فیصد ہوا تھا۔ یہ ان کی آبادی کے 27 فیصد حصہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اس کے مقابلے میں شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) 5.7 فیصد سرکاری ملازمتیں رکھتے ہیں جو ان کی 6 فیصد آبادی کے حصے کے ساتھ بڑی حد تک مطابقت رکھتے ہیں، جب کہ درج فہرست ذاتیں (SCs) ریاست کی 23 فیصد آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود اس طرح کے 17.66 فیصد عہدوں پر فائز ہیں۔
ممتا بنرجی نے کلکتہ کارپوریشن کے میئر کے عہدہ پر فرہاد حکیم کو مقرر کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بنگال میں مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم شہری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا شدید فقدان ہے۔ ایک آر ٹی آئی درخواست نے انکشاف کیا کہ کلکتہ میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) میں 2019 تک مسلمانوں کی شرح 5 .2 فیصد ہے جو کہ 2008 میں 4.5 فیصد تھی۔ تاہم، بھرتی میں کمی اور آؤٹ سورسنگ میں اضافہ کی وجہ سے شہری خدمات میں مسلمانوں کی مکمل تعداد 2008 میں 1,555سے کم ہوکر 2019 میں 1,126 ہوگئی۔ کلکتہ پولیس میں مسلمانوں کی کل 25,999 نفری میں سے صرف 11.14 فیصد ہوچکی ہے یعنی 2,897 مسلمان کام کر رہے ہیں جو 2008 میں بائیں محاذ کے دور حکومت میں9.13 فیصد سے کم ہے۔ پولیس میں مسلمانوں کی موجودگی 2008 اور 2019 کے درمیان صرف2 .01 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
اس وسیع پیمانے پر عدم مساوات کے باوجود، غیر بی جے پی کی حکم رانی والی ریاستوں کا آخری حربہ ’’مسلمانوں کی سیکیورٹی اور حفاظت‘‘ کا سوال ہے۔ یہاں تک کہ یہ دلیل اعداد و شمار کے سامنے الگ ہو جاتی ہے۔ ترنمول کانگریس کے دور حکومت میں فرقہ وارانہ تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سبھاشیش رے اور سمن ناتھ کی تحقیق کے مطابق 2011 میں مغربی بنگال میں فسادات کی تعداد 15 تھی جو 2017 میں بڑھ کر 58 تک پہنچ گئی۔ حاجی نگر، بادوریا، بشیرہاٹ، آسنسول، پرولیا اور ڈھولا گڑھ میں بڑے فرقہ وارانہ واقعات ہوئے۔ بسوناتھ گوسوامی کے ذریعہ داخل کردہ آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق ہوڑہ سٹی پولیس نے صرف 18 مہینوں میں فسادات کے 59 کیس درج کیے (2021 میں 36، 2022 میں 23) 2011 کے بعد سے سیاسی تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی بے یقینی، پولرائزیشن اور انتخابی تشدد کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ تعداد میں اپنی جانیں گنواتے ہیں۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس پوسٹ پول سروے کے مطابق ترنمول کانگریس نے 2021 کے انتخابات میں متاثر کن 75 فیصد مسلم ووٹ حاصل کیے، بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترنمول کانگریس کو مسلم آبادی پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ تاہم اس مضبوط حمایت کے باوجود حالیہ میونسپل، پنچایتی اور ضمنی انتخابات نے بایاں محاذ اور کانگریس کی طرف مسلم ووٹروں کی نمایاں تبدیلی نظر آئی۔ اگرچہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ رجحان عام انتخابات میں پوری طرح سے ظاہر ہوگا، لیکن ترنمول کانگریس کو اپنی انتخابی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔ آخر کب تک مسلمانوں کو بی جے پی اور شہریت کے سوال پر خوف زدہ کرنے کا نسخہ کارگر ثابت ہوگا۔اگرچہ آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں میں تعلیمی ترقی کافی نہیں ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دہائی میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے جو حصہ داری اور یکساں مواقع چاہتے ہیں۔چناں چہ مالدہ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور میں مسلم نوجوان کے سوالات الگ ہیں۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کو پریشان کر رہی ہے۔

 

***

 آخر کب تک مسلمانوں کو بی جے پی اور شہریت کے سوال پر خوف زدہ کرنے کا نسخہ کارگر ثابت ہوگا۔اگرچہ آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں میں تعلیمی ترقی کافی نہیں ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دہائی میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے جو حصہ داری اور یکساں مواقع چاہتے ہیں۔چناں چہ مالدہ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور میں مسلم نوجوان کے سوالات الگ ہیں۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس کو پریشان کر رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024