دریا کو کوزے میں سمانے کی کامیاب کوشش

تدبر قرآن کی بہترین ،عمدہ اور جامع تلخیص، جس کا مطالعہ نفع بخش ہوگا

ابو سعد اعظمی

ماہ رمضان المبارک جشنِ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں قرآن کریم سے تعلق ہر سطح پر محسوس ہوتا ہے۔ تراویح، قیام اللیل اور تلاوت کا غیر معمولی اہتمام مسلم معاشرہ میں ہر جگہ نظر آتا ہے۔لوگوں کے اندر فہم قرآن کا داعیہ پیداہوتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی ومفاہیم سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق موجزن ہوتا ہے۔اردو زبان میں تراجم وتفاسیرکی ایک بڑی تعداد ہونے کے باجود حالیہ چند برسوں میں عصرحاضر کے ذہن اور اسلام پر وارد شدہ اعتراضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئی اہم تراجم وحواشی ترتیب دیے گئے ہیں۔اس میں مولانا سلمان الحسینی کی آخری وحی، مولانا سید بلال عبدالحی الحسنی کا آسان ترجمہ قرآن نیز خالد سیف اللہ رحمانی کا آسان ترجمہ قابل ذکر ہیں۔بالخصوص مفتی تقی عثمانی کا اردو ترجمہ وحواشی عوام الناس میں کافی مقبول اور عصری آگہی سے بھرپور ہے۔قاری ابوالحسن اعظمی نے تفسیرمعارف القرآن کی تلخیص ۳ جلدوں میں تیار کی جو قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنے میں کافی معاون ہے۔
تحریک اسلامی نے روز اول سے ہی قرآن فہمی پر زور دیا اور قرآن سے رشتہ استوار کرنے کے لیے متعدد مہمیں چلائیں اور اس کا لٹریچراس طرح کے مواد سے پر ہے۔ خرم مراد، مولانا ابوسلیم عبد الحی،مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا محمدفاروق خاں، مولانا محمد یوسف اصلاحی وغیرہ نے قرآنیات پر عوام الناس کی دل چسپی کاکافی لٹریچر تیار کیا ہے۔ تفہیم القرآن، تلخیص تفہیم القرآن، ترجمہ قرآن مع حواشی اور مولانا فاروق خاں کا ہندی ترجمہ قرآن نیز اردو ترجمہ قرآن وغیرہ بھی قرآن سے رشتہ استوار رکھنے اور اہل علم میں قرآن کریم کا ذوق پیدا کرنے کی سنجیدہ کوششوں سے عبارت ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی محتاجِ تعارف شخصیت نہیں ہیں ۔ ان کی کتاب تزکیہ نفس ، دعوت دین اور اس کا طریقہ کارتحریکی نصاب کا لازمی جز ہے۔ نیز حقیقت توحید، حقیقت شرک اور حقیقت نماز سے بھی اہل علم خوب واقف ہیں۔ ان کی مایہ ناز تفسیر تدبر قرآن(۹ جلدیں) بھی اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر اہل علم میں متداول رہی ہیں اور انہوں نے بعض مباحث میں ان سے اختلاف کے باوجود اسے قدر وتحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ نظم قرآن اور تفسیر القرآن بالقرآن کا اس تفسیر میں خصوصی اہتمام ملتا ہے۔ متعدد اہل علم مثلاً مولانا محمد فاروق خاں، مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی، ڈاکٹر الیاس احمد اعظمی، پروفیسر ابوسفیان اصلاحی، ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی وغیرہ نے اس تفسیر کی خصوصیت وانفرادیت اور اس کے اسلوب وامتیاز کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے۔الفاظ کی بحث وتحقیق کے لیے کلام عرب سے استشہاد اس تفسیر کا نمایاں وصف ہے۔ انبیاء اور قوموں کی سرگزشت سے متعلق قرآن کریم کے اجمال اور صحف سماویہ میں مذکور تفصیل کا موازنہ کرکے قرآن کی حقانیت کا اثبات ہے۔
مولانا اصلاحی کی زبان شستہ، سلیس اور رواں ہے۔بعض جملے اردو نثر کا شاہ کار ہیں۔اس میں توحید ، رسالت اور آخرت کا واضح تصور نیز قرآنی اصطلاحات مثلاً صلوٰۃ،صوم، زکاۃ، حج، نسک، انفاق، جہاد وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ البتہ ۹ ؍اجزاء پر مشتمل تفسیر تدبر قرآن کا حصول اور ان سے استفادہ سب کے لیے آسان نہیں ہے۔ بالخصوص عصر حاضر میں نوجوانوں کی سہل انگاری، قلت وقت اور مطالعہ سے عدم دلچسپی وغیرہ ایسے اسباب ہیں جس کی بنا پر اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی تلخیص تیار کی جائے۔ یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ مولانا اصلاحی کے شاگرد رشید علامہ خالد مسعود نے اس کی ایک تلخیص بہت پہلے ہی کردی تھی ۔لیکن اس کی حیثیت تلخیص کے بجائے ’’ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی‘‘ کی تھی جیسا کہ خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں:’’ترجمہ کے نیچے مختصر حواشی دیے گئے ہیں۔ یہ ان مقامات پر ہیں جہاں قاری ذرا وضاحت کے بعد مفہوم بہتر طور پر اخذ کرسکتا ہے۔ یہ حواشی مولانا کی تفسیر سے ماخوذ اور بیشتر انہی کے الفاظ میں ہیں‘‘۔ (تلخیص تدبر قرآن، از خالد مسعود، ص۵-۶)
فاضل تلخیص نگار مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی جوتقریباً تیس سال سے مدرسۃ الاصلاح میں قرآن کریم کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ طلبہ کے ذہن، ان کی اپروچ اور وضاحت طلب امور کا انہیں خوب ادراک ہے۔مختلف مساجد میں ان کے دروس قرآن بھی ہوتے ہیں جن سے عوام الناس سے ان کا براہ راست تعلق ہے۔فہم قرآن کی طلب،اس راہ میں حائل دشواریاں اوران کی ذہنی سطح بھی کلی طور پر ان کے پیش نظر ہے۔انہوں نے اس ضرورت کا احساس کیاکہ تدبر قرآن کی ایک ایسی تلخیص تیار کی جائے جو مختصر ہو لیکن اس میں تفسیر تدبر قرآن کی تمام خصوصیات اور اس کے امتیازات سمٹ کر آجائیں۔ یہ تنہا انہی کا احساس نہیں تھا بلکہ ان کے الفاظ میں جیسا کہ انہوں نے پیش لفظ میں وضاحت کی ہے یہ احساس بہت سے لوگوں میں پیدا ہوا اور انہوں نے بار بار اس کا اظہار بھی کیا۔بعض لوگوں نے تدریس قرآن میں ان کی مشغولیت کی وجہ سے اس کام کے لیے سب سے موزوں انہی کو قرار دیتے ہوئے بار بار ان سے اصرار کیا (ص۶) جیسا کہ پیش لفظ میں انہوں نے اس کی روداد دل چسپ انداز میں بیان کی ہے۔
تلخیص نگار کے الفاظ میں اس تلخیص میں جن امور کا لحاظ رکھا گیا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
’’کوشش کی گئی ہے کہ مولانا اصلاحی کا بیان کردہ کوئی پہلو چھوٹنے نہ پائے، الفاظ بھی ممکن حد تک انہی کے ہوں، جہاں تلخیص میں دشواری ہوئی اور اپنے الفاظ کا سہارا لیا گیا وہاں بھی بار بار پڑھ کر اطمینان کرلیاہے کہ مدعا میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔الفاظ کی تحقیق ضروری حد تک اس تلخیص میں بھی موجود ہے البتہ استشہاد میں کلام عرب وہیں نقل کیے گئے ہیں جہاں ان کے بغیر بحث نامکمل رہ جاتی، آیات کے شواہد میں بیشتر جگہوں پر آیات نقل کرنے کے بجائے ان کے محض حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے، قدیم آسمانی صحیفوں کے صرف حوالے نقل کر دیے گئے ہیں الّا آنکہ کسی مقام پر عبارت نقل کرنا ناگزیر ہو،بعض اضافی بحثیں جن کا تعلق براہِ راست تفسیر سے نہیں ہے، حذف کردی گئی ہیں۔تفسیر تدبر قرآن کا مقدمہ قدرے طویل ہے اس لیے اس کی بھی تلخیص کردی گئی ہے۔ (ص۶-۷)
تلخیص اور تدبر قرآن میں موازنہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ واقعی فاضل تلخیص نگار مندرجہ بالا امور کو برتنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ سورہ فاتحہ جو تدبر قرآن میں ۲۷ صفحات پر مشتمل ہے اس کے مباحث کو اس خوبصورتی سے ۵ صفحات میں ضم کیا گیا ہے کہ کوئی بھی گوشہ چھوٹنے نہیں پایا ہے۔اسی طرح پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل تفسیر سورہ بقرہ کو تقریباً ۱۷۰ صفحات میں سمیٹ دیا گیاہے۔مطالعہ اور موازنہ سے اندازہ ہوا کہ انہوں نے جزئیات کا بھی اس قدر باریک بینی سے احاطہ کیا ہے کہ تدبر قرآن میں مذکور کوئی گوشہ چھوٹنے نہیں پایا۔ تدبر قرآن میں جو علمی وفنی مباحث اور تعلیمی وتذکیری نصائح ہیں ان کا عطر اس تلخیص میں کشید کرلیا گیا ہے۔صرف ایک مثال ملاحظہ ہو:
سورہ بقرہ آیت۳۰ میں فساد فی الارض کی اصطلاح مستعمل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کی تشریح تقریباً 20 سطروں میں کی ہے۔مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی نے اس کا عطر تین سطر میں اس طرح کشید کیاہے:’’قرآن مجید کی اصطلاح میں فساد فی الارض کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم ونسق اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین کے مطابق چلانے کے بجائے اس کو من مانے طریقہ پر چلایا جائے۔ خونریزی فساد فی الارض کا قدرتی نتیجہ ہے۔جب خدا کا قانون عدل باقی نہیں رہے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسی شخص کے بھی جان ومال یا اس کی آبرو کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی‘‘۔(جلد اول،ص۴۰)
ملاحظہ فرمائیں کہ کس خوبصورتی سے مولانا محمد عمر اصلاحی نے فساد فی الارض کی اصطلاح کو تین سطروں میں واضح کردیا ہے جو تدبر قرآن میں بیس سطر میں بیان ہوئی ہے۔
تلخیص تدبر قرآن ان تمام لوگوں کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے،جو قلت وقت کا شکار ہیں اور فہم قرآن کا ذوق رکھتے ہیں۔اس تلخیص کو ہمیں اپنے مطالعہ کی میز کا لازمی جز بنانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس ماہ مبارک کو قرآن کے سائے میں بسر کرتے ہوئے ہم اپنے ذوقِ فہم قرآن کو جلا بخشیں، رمضان مبارک کی ان قیمتی ساعات کو مطالعہ تفسیر میں گزارنا اور قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا وقت کا مثبت اور صحیح استعمال ہے۔تفسیر تدبر قرآن کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قاری میں فہم قرآن کا ذوق پروان چڑھاتی ہے، وہ غور وفکر اور آیات میں تدبر وتفکر کا عادی ہوجاتا ہے۔وہ آیات کے مفہوم سے سرسری طور پر نہیں گزر جاتا بلکہ جگہ جگہ اس میں احتساب نفس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو قرآن کریم کا مخاطب سمجھتے ہوئے اپنا احتساب کرتا ہے اور اصلاح عمل کے لیے اس کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ رمضان المبارک جو تقویٰ کے حصول کا مہینہ ہے اگر اس میں کسی کے اندر احتساب کی یہ صحیح کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کی سعادتوں کے کیا کہنے۔امید ہے کہ اس تلخیص کا شایانِ شان استقبال کیا جائے گا اور طلبا وعوام الناس میں اسے یکساں مقبولیت حاصل ہوگی۔
***

 

***

 تلخیص تدبر قرآن ان تمام لوگوں کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے،جو قلت وقت کا شکار ہیں اور فہم قرآن کا ذوق رکھتے ہیں۔اس تلخیص کو ہمیں اپنے مطالعہ کی میز کا لازمی جز بنانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس ماہ مبارک کو قرآن کے سائے میں بسر کرتے ہوئے ہم اپنے ذوقِ فہم قرآن کو جلا بخشیں، رمضان مبارک کی ان قیمتی ساعات کو مطالعہ تفسیر میں گزارنا اور قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا وقت کا مثبت اور صحیح استعمال ہے۔تفسیر تدبر قرآن کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قاری میں فہم قرآن کا ذوق پروان چڑھاتی ہے، وہ غور وفکر اور آیات میں تدبر وتفکر کا عادی ہوجاتا ہے۔وہ آیات کے مفہوم سے سرسری طور پر نہیں گزر جاتا بلکہ جگہ جگہ اس میں احتساب نفس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو قرآن کریم کا مخاطب سمجھتے ہوئے اپنا احتساب کرتا ہے اور اصلاح عمل کے لیے اس کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے۔ رمضان المبارک جو تقویٰ کے حصول کا مہینہ ہے اگر اس میں کسی کے اندر احتساب کی یہ صحیح کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کی سعادتوں کے کیا کہنے۔امید ہے کہ اس تلخیص کا شایانِ شان استقبال کیا جائے گا اور طلبا وعوام الناس میں اسے یکساں مقبولیت حاصل ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024