ہندوستان کی سڑکیں کورونا جتنا ہی خطرناک۔۔۔

خستہ حال سڑکیں، موبائل فون کا استعمال اور شراب نوشی، حادثات کی اہم وجوہات : سروے رپورٹ

افروز عالم ساحل

گزشتہ ایک سال میں کوویڈ۔۱۹ جتنا خطرناک رہا ہے ہمارے ملک کی سڑکیں بھی کم و بیش اتنی ہی خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔ ہندوستان کی ان سڑکوں پر ہر گھنٹے میں 17لوگ سڑک حادثوں میں مارے جا رہے ہیں۔ یہاں سڑک حادثوں کے اعداد وشمار انتہائی حد تک چونکانے والے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

ملک میں گزشتہ ایک سال میں اب تک قریب 1.55 لاکھ لوگ کورونا وبا کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ وہیں قریب اتنے ہی لوگ سڑک حادثات میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2019 میں کل 4,49,002 سڑک حادثے ہوئے اور ان میں 1,51,113 لوگوں کی جانیں گئیں اور 4,51,361 لوگ زخمی ہوئے۔ پولیس اسٹیشنوں میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر یہ اعداد وشمار نیشنل کرائم رکارڈ بیورو کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں۔ کتنے سڑک حادثوں میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل اعداد وشمار اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یعنی ڈبلیو ایچ او کے مطابق جو اعداد وشمار حکومت ہند کا وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز جاری کرتا ہے، وہ آدھا ادھورا ہوتا ہے۔ اصل اعداد وشمار اس سے دو گنا ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر سال 2018 میں ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری ’گلوبل اسٹیٹس رپورٹ آن روڈ سیفٹی 2018‘ میں سال 2016 میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کے اعداد و شمار پر بات کی گئی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں سال 2016میں 2,99,091لوگوں کی موت سڑک حادثات میں ہوئی تھی، لیکن حکومت ہند کا وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 1,50,785 تھی۔ ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ کے مطابق 176 ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کا مقام پہلا ہے۔ یہ بات 2019کی رپورٹ میں وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ سڑک حادثات میں مرنے والوں کے معاملے میں ہندوستان پوری دنیا میں پہلے مقام پر ہے۔ اور یہ حال تب ہے جب حکومت ہند نے سال 2020تک سڑک حادثات میں ہونے والی اموات کی تعداد کو آدھا کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔

ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے ملک میں ڈبلیو ایچ او کے ممبر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ ڈبلیو ایچ او ہر دو سال میں روڈ سیفٹی پر اپنی گلوبل رپورٹ پیش کرتی ہے۔ سال 2018کے بعد 2020میں اسے اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی، لیکن کوویڈ کی وجہ سے وہ ممکن نہیں ہو پایا، امید ہے کہ جلد ہی روڈ سیفٹی پر رپورٹ جاری کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ روڈ سیفٹی کے معاملے میں حکومت ہند کی جانب سے کئی مثبت اقدام کئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود حادثات اور ان میں مرنے و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں بہت سارے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سویڈن سے کافی کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جتنا اہم کوویڈ سے بچاؤ ہے، اتنا ہی اہم ملک میں حادثات سے روک تھام بھی ہے۔

ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے سلسلے میں اہم کام کرنے والی ’سیو لائف فاؤنڈیشن‘ کے بانی و سی ای او پیوش تیواری نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہا کہ’ گزشتہ کئی سالوں سے حکومت سے اپیل کی جا رہی ہے کہ ملک میں سڑک حادثے ایک pandemic کی طرح ہو گئے ہیں۔ یہ حادثات کوویڈ سے زیادہ خطرناک ہیں اس لیے کہ کوویڈ لوگوں کو زخمی یا زندگی بھر کے لئے معذور نہیں کر رہا ہے جبکہ سڑک حادثات یہ کام کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار دیکھیں گے تو محسوس ہوگا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان سڑک حادثوں کی وجہ سے اپنی زندگی گنوا رہے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ لوگ زندگی بھر کے لئے معذور بن جاتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح سے کوویڈ سے نمٹنے کی کوشش کی گئی، ٹھیک اسی طرح ان سڑک حادثوں کے بارے میں بھی کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے۔ جیسے کوویڈ کے لئے ویکسن تیار کی گئی بالکل اسی پھرتی وتندہی کے ساتھ روڈ سیفٹی کے لئے ’ویکسن‘ کی بجائے تمام سڑکوں کو بہتر بنایا جائے، ملک کے تمام ڈرائیورس کو صحیح طرح سے ٹریننگ دی جائے، پولیس انفورسمنٹ میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے اور ملک کی ایمرجنسی سروسیز کو ٹھیک ڈھنگ سے بحال کیا جائے۔ اس طرح سے ہماری حکومت کو سڑک حادثوں سے ملک کے شہریوں کو بچانے کے لئے اس طرح کی ’ویکسن‘ کے بارے میں ہرحال میں سوچنا ہوگا۔ اس پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ ملک کے لوگوں کو بھی اس کے تئیں بیدار ہونا ہوگا۔

نکسلی و دہشت گردانہ حملوں سے زیادہ اموات سڑک حادثات میں

ہمارے ملک میں نکسلی و دہشت گردانہ حملوں میں اتنی جانیں نہیں جاتیں جتنی سڑکوں میں پڑے گڑھوں کی وجہ سے جاتی ہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سال 2019 میں ملک میں نکسلی و دہشت گرد حملوں میں حملہ آوروں سمیت پولیس وفوجی جوانوں اور عام شہریوں کو ملا کر جملہ 623جانیں گئیں، لیکن سڑکوں میں پڑے گڑھوں نے دو ہزار سے زیادہ لوگوں کی زندگی چھین لی۔

وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2019 میں ملک میں سڑکوں میں پڑے گڑھوں نے 4,775 حادثوں میں 2,140جانیں لی اور 4,013لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ سال 2018میں 4,869حادثے ہوئے ان میں 2,015 جانیں گئیں اور 4,108زخمی ہوئے۔ سال 2017میں سڑکوں کے ان گڑھوں نے 9423 حادثوں میں 3597 لوگوں کی جانیں لی تھیں اور 8792لوگ زخمی ہوئے تھے۔راقم الحروف نے سال 2017میں سڑک کے گڑھوں کی وجہ سے ہوئی اموات پر ایک اسٹوری لکھی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا تھا۔ ممکن ہے کہ اس اسٹوری کا بھی کچھ اثر ہوا ہو۔

اس معاملے میں جسٹس مدن بی لوکور کی بینچ نے صاف طور پر کہا تھا کہ ’ہم حیران ہیں۔ ہندوستان میں دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے ہونے والی اموات سے زیادہ سڑک حادثوں میں جان گنوانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ حالات ڈرا دینے والے ہیں۔‘ اس بینچ نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ ’سڑکوں کی دیکھ بھال کا کام کسے کرنا ہے؟ کیا عوام کو اس کا رکھ رکھاؤ کرنا ہوگا یا یہ حکومت کا کام ہے؟‘ خلاصہ کلام یہ کہ سپریم کورٹ نے راستوں کی اس صورت حال پر سخت پھٹکار لگائی تھی۔

سڑک حادثوں کی بڑی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا ہے

وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ سال 2019میں شراب پی کر گاڑی چلانے سے ہوئے 12,256 حادثوں میں کل 5,325 افراد کی موت ہوئی، جبکہ 10,564افراد بری طرح سے زخمی ہوئے۔ سال 2018 میں 12,018حادثے شراب ہی کے سبب ہوئے، ان حادثوں میں 4,188افراد کی جانیں گئیں اور 9,944 لوگ زخمی ہوئے۔

اس طرح وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے گزشتہ دو سالوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو شراب کی وجہ سے ہونے والے سڑک حادثوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود روڈ سیفٹی پر کام کرنے والوں کا ماننا ہے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے یہ اعداد وشمار پوری طرح سچائی پر مبنی نہیں ہیں۔ اصل اعداد وشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ سچ پوچھیے تو سڑک حادثوں کی بڑی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا ہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شراب پی کر گاڑی چلانے سے ہونے والے حادثوں کو کم کرکے دکھایا جاتا ہے۔ اگر پولیس حادثے کی جگہ پر پہنچنے میں دیری کرتی ہے، تو یہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ حادثہ شراب پی کر چلانے کی وجہ سے ہوا یا کچھ اور محرکات تھے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہندوستان میں سڑک حادثات میں ہونے والی سبھی اموات زیادہ تر شراب پی کر گاڑی چلانے سے ہی ہوتے ہیں ۔

موبائل فون کی وجہ سے بھی سڑک حادثات میں اضافہ

35 سالہ رضوان احمد آج بھی اس واقعہ کو یاد کرکے کانپ جاتے ہیں جب وہ ایک جان لیوا سڑک حادثے کا شکار ہونے کے بعد بچ گئے تھے۔

رضوان بتاتے ہیں کہ وہ ’گھر والوں کے ساتھ پٹنہ کیلئے جا رہے تھے گاڑی میں جملہ 6 لوگ سوار تھے کہ اچانک گاڑی پل کو توڑتے ہوئے نہر میں گر پڑی۔ اس حادثہ میں سب کی جانیں تو بچ گئیں مگر کسی کے کندھے کی ہڈی ٹوٹی، تو کسی کے ہاتھ پیر کی۔ چچا کا اب بھی علاج چل رہا ہے۔ وہ اب تک چل نہیں پا رہے ہیں۔‘ یہ سب بتاتے ہوئے رضوان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اس حادثے کی وجہ دریافت کرنے پر وہ بتاتے ہیں کہ "دراصل میں ہمیشہ ڈرائیونگ کرتے وقت موبائل فون پر بات کرتا ہوں کیونکہ مجھے کسی سے بات کرنے کے لئے وہیں فری ٹائم ملتا ہے۔ لیکن اس دن تو میں بات بھی نہیں کر رہا تھا۔ لیکن ہاں! میرے دماغ میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ نیٹ آن کر کے دیکھوں کہ وہاٹس ایپ پر کسی کا کوئی میسیج تو نہیں آیا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گاڑی اچانک پل توڑتے ہوئے نہر میں جا گری اور یہ حادثہ رونما ہوا۔ لیکن ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی زندہ بچ گئے۔

رضوان تو خوش نصیب نکلے۔ لیکن ہر کسی کا نصیب اتنا اچھا نہیں ہوتا ہے کہ وہ ایسے حادثے کے بعد بھی بچ جائے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ موبائل کی وجہ سے سڑک حادثوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے اعداد وشمار کے مطابق موبائل کی وجہ سے سال 2019میں 10,522 سڑک حادثے ہوئے جن میں 4,945افراد کی موت ہوئی اور 8,144 افراد زخمی ہوئے۔ وہیں سال 2018میں 9,039سڑک حادثے موبائل کے استعمال کی وجہ سے ہوئے، ان حادثوں میں 3,707افراد کی جانیں گئیں، اس کے علاوہ 7,878شدید طور پر زخمی ہوئے۔سال 2017میں 8526سڑک حادثے موبائل فون کی وجہ سے ہوئے۔

ان حادثوں میں 3172افراد کی موت اور 7830 زخمی ہوئے۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو موبائل فون کی وجہ سے ہونے والے سڑک حادثات اور ان میں مرنے والوں کی تعداد ہر سال مسلسل بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

سیو لائف فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق 94 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ ڈرائیونگ کرتے وقت موبائل فون استعمال کرنا بہت ہی خطرناک ہے، اس کے باوجود 47فیصد لوگ ڈرائیونگ کرتے وقت فون ریسیو ضرور کرتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق گاڑی چلاتے وقت موبائل فون استعمال کرنے سے صرف ڈرائیور ہی نہیں بلکہ گاڑی میں بیٹھے تمام لوگ خطرے میں ہوتے ہیں۔ اور 96 فیصد لوگوں کو اس بارے میں جانکاری بھی ہے لیکن اس کے باوجود وہ گاڑی چلانے والے کو موبائل فون بات کرنے سے منع نہیں کرتے۔ اس سروے کے مطابق 20 فیصد سڑک حادثے موبائل فون استعمال سے ہو رہے ہیں۔

جانکاروں کا خیال ہے کہ موبائل فون پر بات کرتے ہوئے گاڑی چلانا سڑک حادثے کی ایک اہم وجہ بنتی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی وجہ سے حادثوں میں اضافہ ہوگا۔ لوگوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جس طرح وہ جہاز میں بیٹھتے ہی اپنے موبائل فون کو فلائٹ موڈ میں کر دیتے ہیں، ٹھیک اسی طرح سے ڈرائیونگ کرتے وقت بھی ایسا کرنے کے بارے میں ہم سب کو سوچنا چاہیے۔

پیدل راہ گیر بھی محفوظ نہیں

ملک کی سڑکیں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ ان سڑکوں پر پیدل چلنے والے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہر روز 56 سے زیادہ پیدل چلنے والوں کی سڑک حادثوں میں موت ہوتی ہے۔ وزارت برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پیدل مسافروں کے ساتھ حادثات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2019 میں پیدل مسافروں کے ساتھ ہوئے حادثوں کی تعداد 59,929 ہے۔
ان حادثوں میں سال 2019 میں 25,858 افراد کی موت ہوئی، 2018 میں 22,656 پیدل مسافروں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ یعنی مرنے والوں کی تعداد میں بھی قریب 13 تا 14 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔ اگر زخمی ہونے والوں کی بات کریں تو سال 2019 میں 57,672 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

مغربی بنگال کی سڑکیں سب سے خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ یہاں سال 2019 میں 2,933 پیدل مسافر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ دوسرا مقام مہاراشٹر کا ہے۔ یہاں 2,849 پیدل مسافروں کی جانیں گئی ہیں۔ تیسرے مقام پر کرناٹک ہے۔ یہاں 1,880 پیدل مسافروں کی جانوں کا اتلاف ہوا ہے۔ ان حادثات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے سب سے بڑی وجہ فٹ پاتھ کا نہ ہونا ہے۔ زیادہ تر سڑکیں ایسی ہیں جہاں فٹ پاتھ تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتا۔ زیادہ تر فٹ پاتھ پر لوگوں کا قبضہ ہے۔ کہیں لوگوں نے اسے پاٹ کر اپنی دکان ومکان میں ملا لیا ہے تو کہیں فٹ پاتھ لوگوں کے لئے آئیڈیل جگہ بن چکے ہیں۔ اگرچہ کہ حکومت پیدل چلنے والوں پر کبھی دھیان نہیں دیتی مگر اب حکومت کو اس سمت میں سوچنا ہوگا کہ کیسے اس ملک کے عوام محفوظ اپنے گھر واپس آ سکیں۔
ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ٹریفک قوانین کو فالو کریں۔ یاد رکھیں کہ سڑک پر ٹریفک قوانین صرف گاڑی چلانے والوں کے ہی نہیں ہوتے بلکہ پیدل مسافروں پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔

ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کریں۔ لیکن جہاں فٹ پاتھ نہ ہو، وہاں سڑک کے داہنی طرف چلیں تاکہ مخالف سمت سے آرہی گاڑیاں آسانی سے نظر آ سکیں۔ بائیں طرف چلنے سے پیچھے سے آنے والی گاڑیاں نظر نہیں آتی ہیں، جو زیادہ خطرناک ہے۔

پیدل چلنے والے لوگوں کے لئے جہاں کراسنگ ہو، اسی کے ذریعے سڑک پار کریں۔ لیکن جہاں ایسا نہ ہو، وہاں دونوں طرف ٹریفک لائٹ اور گاڑیاں دیکھنے کے بعد ہی اپنے قدم آگے بڑھائیں۔ کوشش کریں کہ آس پاس فٹ اووَر بریج یا سب وے ہو تو پھر ہر حال میں اسی کا استعمال کریں۔ زیبرا کراسنگ پر کبھی بھی کھڑے نہ رہیں۔
سڑک پر چلتے وقت خود کو موبائل فون دور رکھیں۔ کان میں لیڈ ڈال کر گانا سننے سے ہر حال میں بچیں۔ موبائل فون بات نہ کریں۔ سڑک پر چلتے وقت اخبار، سڑک پر لگے پوسٹر یا ہورڈنگس کی طرف دھیان نہ دیں۔

یاد رکھیں سڑک پر چلتے وقت ہمیشہ ہوشیار رہیں۔ جہاں ٹریفک جام ہے، اس کی مخالف سمت میں فٹ پاتھ کے کنارے نہ چلیں۔ سڑک پر پیدل نکلنے سے پہلے کوشش کریں کہ دن میں ہلکے رنگ یا پھر رات میں چمکدار کپڑے پہنیں تاکہ یہ کپڑے دور سے ہی گاڑی چلانے والوں کو نظر آئیں۔ بچوں کے ساتھ پیدل نکلنے پر ان کا خاص دھیان رکھیں۔ بچوں کو ہمیشہ فٹ پاتھ کے اندر ہی کی طرف ہی رکھیں اور اچھی طرح ان کا ہاتھ تھامے رہیں۔
اور ہاں! چلتی بس کے پیچھے نہ بھاگیں۔ سڑک کے درمیان بنے بیرئر کو کبھی بھی نہ پھاندیں۔ گھر سے نکلتے وقت دعاوں کا اہتمام کریں پھر ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کریں تو امید ہے کہ ہم اور آپ ہر قسم کے حادثات سے محفوظ رہیں گے ۔

(قومی روڈ سیفٹی مہینہ(18 جنوری تا17 فروری) کی مناسبت سے یہ خصوصی رپورٹ تیار کی گئی ہے)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021