کیا کوویڈ کی تیسری لہر سے عوام کو بچانے کے لیے ہماری حکومت تیار ہے؟
ویکسین وبائی مرض سے بچنے کا اہم ذریعہ ۔تیسری لہر میں بچوں کے متاثر ہونے کے دعوے کی سائنسی بنیاد نہیں
افروز عالم ساحل
کووڈ-19 کی دوسری لہر میں بتدریج کمی آنے کے ساتھ ہی حکومت نے ممکنہ تیسری لہر کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ لہر بچوں کو زیادہ متاثر کرے گی۔ اس بات میں کتنی سچائی ہے، یہ سمجھنے کے لیے ہفت روزہ دعوت نے اس میدان کے کئی ماہرین سے بات کی۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے وابستہ ہندوستان کے مشہور پبلک پالیسی وہیلتھ سسٹم ایکسپرٹ ڈاکٹر چندر کانت لہریا نے ہفت روزہ کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ ممکنہ تیسری کووڈ لہر بچوں کو متاثر کرے گی اس بات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ اب تک کسی کے پاس کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ آگے آنے والی ممکنہ کووڈ لہر بچوں کو متاثر کرے گی۔ اب تک کوئی گلوبل ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جو یہ بتائے کہ بچوں میں خطرناک انفیکشن ہو گا۔ اب تک کے تمام سائنسی و وبائی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر والوں میں شدید بیماری کی نشوونما کا خطرہ نسبتاً کم رہا ہے۔
وہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں صحت کے معیار وحفاظت کے پروگراموں کی رہنمائی کر رہے مشہور ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر فہیم یونس بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے کہتے ہیں کہ میں نے اب تک ایسا کوئی ریسرچ پیپر نہیں دیکھا جس میں کسی بھی ملک میں کسی بھی قسم کی وضاحت کی گئی ہو کہ کووڈ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اخباری مضامین اور ماہرین کی رائے کی گنتی نہیں ہونی چاہیے۔
ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ مولیکیولر بائیولوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رضوان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ ممکنہ تیسری لہر بچوں کو زیادہ متاثر کرے گی، اس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ سائنسی اعتبار سے اگر بات کی جائے تو بچوں میں کووڈ سے اموات کی شرح زیرو ہے۔ اگر ان کو کووڈ ہوا بھی تو وہ کھانسی بخار جیسا ہو گا اور وہ پھر ٹھیک ہو جائیں گے، لیکن اگر ان بچوں کے ذریعے ماں باپ کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو یہ زیادہ خطرناک ہو گا۔
ایک طرف تیسری لہر کے بارے میں ماہرین یہ کہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری حکومتیں بار بار اس بات کی تشہیر کر رہی ہیں کہ ممکنہ تیسری لہر سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہوں گے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار ہیں۔
اتر پردیش کی حکومت گزشتہ کئی دنوں سے اخباروں میں دو صفحوں پر مشتمل اشتہار دے کر یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ’اتر پردیش میں بچوں کو تیسری لہر سے بچائے گا بی آر ڈی ماڈل‘۔ اس اشتہار میں بچوں کو تیسری لہر سے بچانے کی تیاریوں کے سلسلے میں کئی دعوے کیے گئے ہیں۔ دہلی کی حکومت بھی بار بار میڈیا کو اپنا بیان جاری کر کے بتا رہی ہے کہ ممکنہ تیسری لہر کے دوران بچوں کو بچانے کے لیے ہر طرح کی تیاری اور روک تھام کے اقدامات پر کام کیا جا رہا ہے۔ ان کے تمام ’چلڈرن کیئر انسٹیٹیوشنز‘ کووڈ کی تیسری لہر سے مقابلہ کے لیے تیار ہیں۔
مہاراشٹر کی حکومت نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ بچوں کو انفیکشن کے پھیلنے سے بچانے کے لیے ریاست میں چائلڈ کووڈ سینٹرس اور پیڈیاٹرک ٹاسک فورس قائم کیے جا رہے ہیں انہیں خصوصی پیڈیاٹرک وینٹیلیٹر کی بھی ضرورت ہوگی، مہاراشٹر حکومت اس کے لیے پہلے سے تیار ہے۔ اسی طرح کے دعوے دوسری ریاستیں بھی کر رہی ہیں۔
کب آئے گی تیسری لہر؟
اس سوال پر ڈاکٹر چندرکانت لہریا کہتے ہیں کہ تیسری لہر آئے گی، یہ کوئی گارنٹی سے نہیں کہ سکتا لیکن کچھ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔موجودہ حالات کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیسری لہر آئے گی لیکن یہ کب آئے گی اور کیا نقصان کرے گی، کس کو نقصان کرے گی، یہ سب کہنا مشکل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر یا نومبر کے مہینے تک ایک بار پھر ملک میں کووڈ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ صوبائی سطح پر یہ پہلے بھی ہو سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں ڈاکٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ لہر کی کوئی ’سائینٹیفک اسٹینڈنگ‘ نہیں ہے۔ یہ ’الگورتھم‘ کے ماڈل ہوتے ہیں۔ جب ملک میں کووڈ کی شروعات ہوئی تو ہماری حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا لیکن جب معاملے بڑھتے گئے تب لاک ڈاؤن ہٹا دیا۔اس کے بعد پھر مثبت معاملات میں اضافہ ہوا۔ جسے ہم نے دوسری لہر کا نام دیا چنانچہ دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور اب پھر سے لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب لوگ کووڈ سے متاثر ہونے لگیں گے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا تب ہم اسے تیسری لہر بتاتے ہوئے پھر سے لاک ڈاؤن نافذ کریں گے۔ اگلی بار پھر کھولیں گے توچوتھی لہر آجائے گی۔ دراصل لہر کوئی ایسا concept نہیں ہے جو تین یا چار پر جا کر رک جائے۔ جب تک لوگوں کے اندر قدرتی طور پر یا ویکسین کے ذریعے immunity نہ آجائے، تب تک اس وائرس کا اس ماحولیاتی نظام سے جانا ممکن نہیں ہے۔ لوگ جب تک لاپروائی برتتے رہیں گے کورونا کی لہر آتی جاتی رہے گی۔
آپ کو بتا دیں کہ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ اگلے چھ سے آٹھ ہفتوں میں ملک میں پھر سے کووڈ انفیکشن کی تیسری لہر آسکتی ہے۔
کیا کوویڈ کی تیسری لہر سے عوام کو بچانے کے لیے ہماری حکومت تیار ہے؟
اس سوال پر ڈاکٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک کوئی بھی خاص تیاری نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھی سیاست ہی نظر آ رہی ہے۔ کووڈ سے لڑنے کے لیے سسٹم کا جیسا response ہونا چاہیے، وہ ہمیں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ اگر آپ ملک میں گزشتہ سال 23 مارچ سے لے کر اس سال23 مارچ تک کے آئی سی یو بیڈس کا جائزہ لیں گے تو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔ پھر سوال ہے کہ سال بھر میں کیا تیاری ہوئی؟ 32 آکسیجن پلانٹس لگانے کی بات کی گئی تھی لیکن ان میں صرف 4 لگائے گئے اور وہی چلائے جا رہے ہیں۔ جتنا میڈیکل اسٹاف گزشتہ سال تھا، تقریباً اتنا ہی اس سال بھی ہے تو پھر کیا تیاری ہوئی؟ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹرس اور دیگر ہیلتھ کارکنوں کی ٹریننگ کے لیے اب تک حکومت کے پاس کوئی فل پروف پروگرام بھی موجود نہیں ہے۔ اگرچہ دوسری لہر آنے کے بعد تھوڑا بہت کام ہوا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ہم تیسری لہر سے نمٹ سکیں۔ جنوبی ریاستوں میں بہت کام نظر آرہے ہیں لیکن شمال کا ابھی بھی برا حال ہے۔ گویا جیسا پہلے تھا، ویسا ہی اب بھی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ جمعرات یعنی 17 جون کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ کووڈ وبا سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ تیار کر کے لائے، کیونکہ اس وبائی بیماری کا ابھی ’طویل عرصے تک‘ رہنے کا امکان ہے۔
چیف جسٹس، سنجے یادو کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وائرس لمبے وقت تک ہمارے ساتھ رہنے والا ہے۔ نادیدہ چیلنجوں اور مستقبل کے لیے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟‘ عدالت نے یو پی حکومت کو کووڈ کی موجودہ صورتحال اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مستقبل میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں تفصیلات طلب کرتے ہوئے ایک حلف نامہ داخل کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ اس بنچ نے ریاست سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے سامنے جو بھی اسکیم پیش کی جائے وہ صرف کاغذوں پر نہ رہے بلکہ زمینی سطح پر بھی اس کو سختی سے نافذ کیا جائے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے مئی کے مہینے میں مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ تیسری لہر کے لیے تیاری کرے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے تجویز پیش کی تھی کہ مرکز کل ہند سطح پر اپنے منصوبہ کو اپنائے تاکہ وہ کورونا وائرس کی تیسری لہر کی تیاری کر سکے۔
میڈیا میں آئی خبروں پر بھروسہ کیا جائے تو مرکزی حکومت تیسری لہر کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے وزارت داخلہ جی کشن ریڈی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اگر ہندوستان میں کووڈ کی تیسری لہر آتی ہے تو ہم پوری طرح تیار ہیں۔ ہندوستان کا طبی انفراسٹرکچر مکمل طور پر لیس ہے اور ممکنہ تیسری لہر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
غور طلب رہے کہ اس طرح کے دعوے پہلی اور دوسری لہر سے قبل بھی ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کر چکے ہیں۔
14 اپریل 2020 میں ہی وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ’ہم صحت کی بنیادی ڈھانچے کو بھی منظم بنانے کی سمت تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔ عالمی تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر دس ہزار مریضوں کے لیے پندرہ تا سولہ سو بستر درکار ہوتے ہیں۔ ملک میں ہم نے آج ایک لاکھ سے زائد بستروں کا انتظام کر رکھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چھ سو سے زائد اسپتال ایسے ہیں، جو کووڈ معالجے کے لیے وقف ہیں۔ آج ہم جس پہلو پر گفتگو کر رہے ہیں، اسی دوران ان سہولتوں کو مزید رفتار کے ساتھ مزید توسیع دی جا رہی ہے۔‘‘ لیکن دوسری لہر میں جو کچھ ہوا، وہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔
تو حکومت نے خود سے بڑھا دی دوسری خوراک کی مدت؟
کووڈ سے بچنے کے لیے ویکسین ایک ذریعہ ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد سے جلد ملک کے تمام لوگوں کو ویکسین فراہم کرائے، لیکن وہ ابھی تک اس معاملے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے سائنٹفک گروپ کے معاہدے کے بغیر کووڈ ویکسین کی دو خوراکوں کے درمیان کی مدت کو بڑھا کر دوگنا کر دیا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ پہلے کووڈ ویکسین کے پہلی خوراک کے چھ تا سات ہفتوں بعد دوسری خوراک لینا ضروری تھا، لیکن حکومت نے 13 مئی 2021 کو اس مدت میں اضافہ کر اسے بارہ تا سولہ ہفتہ کر دیا۔ حکومت نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ملک میں ویکسین کم پڑنے لگی تھی اور ملک بھر میںکووڈ مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔
حالانکہ اس مدت میں اضافہ کرتے ہوئے حکومت ہند نے کہا کہ وہ ایسا ’نیشنل ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ آن امیونائزیشن (NTAGI)‘ کے کہنے پر کر رہی ہے۔ لیکن NTAGI کے سائنسدانوں نے کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسا ڈیٹا یا ریسرچ نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ اس طرح کی سفارش کریں اور نہ انہوں کے ایسی کوئی سفارش کی ہے۔ ان کے مطابق یہ مدت آٹھ سے بارہ ہفتہ ہونی چاہیے۔
کیا مسلمان نہیں لے رہے ہیں ویکسین؟
گزشتہ دنوں بی جے پی کے سینئر لیڈر اور اتر اکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راؤت نے رشی کیش میں عالمی بلڈ ڈونر ڈے کے موقع سے منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ مسلم سماج کووڈ ویکسین لینے سے گریز کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ویکسین کو لے کر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ویکسین لینے سے خوفزدہ ہیں۔ راؤت یہیں نہیں رکے، بلکہ آگے یہ بھی کہا کہ ’میں مسلمانوں کا نام لے کر یہ کہ رہا ہوں کہ وہ اب بھی ویکسین نہیں لے رہے ہیں، ان میں اب بھی ہچکچاہٹ، خدشات اور غلط فہمیاں ہیں۔‘
راؤت نے مزید کہا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لیتے ہیں وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر آپ ویکسین نہیں لیتے ہیں تو اس بیماری کے ساتھ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔ آپ خود بھی بیمار ہو جائیں گے اور آپ دوسروں تک بھی اس بیماری کا انفیکشن پھیلائیں گے، آپ سُپر اسپرپڈر ثابت ہوں گے۔ اسی لیے سب کو پہل کرنی چاہیے اور معاشرے کے ہر فرد کو یہ ویکسین لینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اسی فیصد آبادی کی جانب سے ویکسین لینے کے بعد ہی امیونیٹی بن سکتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ اس طرح کی باتیں اتر پردیش اور بہار کے دیہی علاقوں میں بھی پھیلائی جا رہی ہے کہ مسلمان کووڈ ویکسین نہیں لے رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس قسم کی باتیں بولنے والوں کا مقصد سماج میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانا ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے اپنی تحقیق میں یہ بھی پایا کہ مسلم علاقوں میں ویکسین ملنا کافی مشکل کام ہے۔ دہلی کے جامعہ نگر جہاں قریب 98 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے وہاں صرف ایک ویکسینیشن سنٹر ہے۔ شاہین باغ اور ابوالفضل انکلیو جیسے بڑے علاقے میں ایک بھی ویکسینیشن سنٹر حکومت کی جانب سے قائم نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہاں جو ایک ویکسینیشن سنٹر ہے، وہاں رپورٹ لکھے جانے تک اٹھارہ سال سے زائد عمر والوں کے لیے ویکسین موجود نہیں تھی۔
الزام ہے کہ مسلمان ویکسین نہیں لے رہے ہیں؟ اس سوال پر ڈاکٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ یہ الزام بالکل غلط ہے۔ ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ یونیورسل ہے۔ میری نظر میں ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ سے جڑی تین ہزار سے زائد ریسرچ پیپرس ہیں۔ یہ ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ پورے یوروپ، امریکہ، افریقہ ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ یہ کسی ایک طبقہ میں ہے تو پوری طرح سے غلط ہو گا۔ ہندوستان میں بھی اگر تحقیق کریں تو آپ پائیں گے کہ یہاں مسلمان اور ہندو دونوں کی آبادی کے تناسب میں ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ برابر ہی ہے۔ ویسے ہم اس ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ کو ہندو مسلمان کے حساب سے نہیں دیکھتے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ’ویکسین ہیزیٹینسی‘ ہر جگہ، ہر قوم، ہر طبقہ، ہر عمر اور ہر قسم کے لوگوں میں نظر آئے گی۔
گزشتہ دنوں ملک کے مختلف اخبارات میں حکومت اتر پردیش کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل اشتہارات دیکھنے سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اقلیتوں میں ویکسین کو لے کر زیادہ انتظام کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ بھی ویکسین لے لیں تاکہ اسے یہ کہنے کا موقع ملے کہ یہ لوگ ویکسین لینے کو تیار نہیں تھے لیکن ہماری کوششوں کی وجہ سے تیار ہوئے۔
اس اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اقلیتوں کو کووڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ جبکہ اسی اشتہار میں آگے یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ویکسین کو لے کر اقلیت سماج میں کافی جوش ہے۔ ویکسینیشن سنٹرس پر بڑی تعداد میں مسلم خواتین بھی آ رہی ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے آس پاس کے علاقوں سے ویکسینیشن سنٹر تک پہونچنے کے لیے اسپیشل بسیں چلائی جارہی ہیں۔ اب سوال ہے کہ اشتہار میں یہ باتیں لکھنے کی ضرورت کیوں آ پڑی؟
رام دیو نے بھی ویکسین لینے سے کیا تھا انکار
بی جے پی لیڈر بھلے ہی ملک میں یہ افواہ پھیلاتے رہے کہ مسلمان ویکسین نہیں لے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوگا گرو بابا رام دیو نے صاف طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ ویکسین نہیں لیں گے۔ ان کے اس اعلان کے بعد ان کے حامیوں میں یہ پیغام چلا گیا کہ ویکسین لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 30 مئی 2021 کو رام دیو نے کہا کہ وہ یوگ اور آیوروید ادویات کی ڈبل خوراک لے رہے ہیں، تو پھر انہیں اس صورتحال میں کورونا ویکسین لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رام دیو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وائرس کی خواہ کتنی ہی قسمیں دریافت ہو جائیں انہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، کیونکہ دفاع کے لیے وہ مستقل یوگ کر رہے ہیں۔ رام دیو نے یہ بھی کہ دیا کہ ویکسین لگانے کے بعد بھی لوگ کورونا کے شکار ہو رہے ہیں تو پھر ویکسین لگوانے کا کیا فائدہ؟
رام دیو کی یہ بات ان کے بھکتوں کے ذریعے کافی دور دور تک پہنچ گئی۔ گاؤں میں لوگ کہنے لگے کہ کوویڈ کے لیے یوگا کرنا کافی ہے، ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جب بابا رام دیو کے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہوا تب انہوں نے کہا کہ وہ بھی ویکسین لیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کو ایسے بیانات دینے والے اپنے ہمنوا کیوں نظر نہیں آتے؟ ان کے بارے میں کیوں نہیں کہتے کہ’ جو لوگ ویکسین نہیں لیتے ہیں وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہوتے ہیں‘۔
حکومت کیا کرے؟
ڈاکٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں سیاست نہ کرے، یہ ملک کی صحت کا سوال ہے۔ ضرورت ہے کہ ملک میں صحت کا سسٹم درست ہو۔ اسپتالوں میں آئی سی یو بیڈس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ دواؤں کے ڈسٹریبیوشن کا جو نظام بگڑا ہوا ہے اسے موثر بنایا جائے۔ خاص طور پر حکومت کو ویکسین پیٹنٹ کے ایشوز پر توجہ دینا چاہیے۔ جو کمپنیاں ویکسین بنانے کے لیے آمادہ ہیں ان سے یہ کام لیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ویکسین تیار ہو سکے اور ہر ہندوستانی شہری کو یہ بآسانی سے مل جائے۔
ہمیں کرنا کیا چاہیے؟
اس سوال پر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ڈاکٹر محمد رضوان کہتے ہیں کہ یہ سوچ کہ حکومت ہی سب کچھ کرے گی صحیح نہیں ہے۔ اپنی تمام غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے لوگوں کو ہر حال میں ویکسین ضرور لگوانی چاہیے۔ ابھی تک ویکسین کی وجہ سے ایک ہی موت کنفرم ہوئی ہے۔ پچیس کروڑ کی آبادی میں اگر دس بیس لوگ فوت ہو گئے تب بھی یہ تناسب فائدے کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر دماغ کے آپریشن میں سو میں ستر تا اسی لوگ فوت ہو جاتے ہیں، لیکن کیا اس کی وجہ سے آپریشن کرانا بند کر دیتے ہیں؟ ہارٹ سرجری میں کامیابی کی شرح 63 تا 64 فیصد ہی ہے، لیکن کیا ہارٹ سرجری بند ہو گئی؟ اسی طرح ویکسین کو بھی لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک سب لوگ ویکسین نہیں لے لیتے، یہ لہریں چلتی رہیں گی۔ اور جب تک کم از کم ساٹھ فیصد آبادی ویکسینیٹیڈ نہیں ہو جاتی تب تک ہمیں ہر طرح کی احتیاط برتنے کی سخت ضرورت ہے۔ احتیاط برتنے والوں میں کچھ اتنے زیادہ احتیاط برت رہے ہیں کہ سال بھر لوگوں سے یہاں تک کہ اپنے ماں باپ سے بھی نہیں ملے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کووڈ کا وجود ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ یہ احمقانہ سوچ ہے۔ اس کا درمیانی راستہ ٹھیک ہو گا کہ کورونا کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ ماسک، سماجی دوری، سینیٹائزر کا خیال رکھنا ہے۔ عموما اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
مشہور ڈاکٹر فہیم یونس کا ماننا ہے کہ دنیا میں 2.3 ارب لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے۔ ان میں سے 230 بھی ویکسین کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئے۔ اگر انہی 2.3 ار ب لوگوں کو کورونا ہو گیا ہوتا تو ان میں سے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہوتے۔ عجیب بات ہے کہ لوگ پھر بھی کورونا وائرس سے نہیں ڈرتے مگر ویکسین سے ڈرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ویکسین کے حامی عام طور پر وبائی امراض یا وائرس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین ہوتے ہیں۔ ویکسین کے مُنکر عام طور پر مشہور شخصیات، نا تجربہ کار ڈاکٹر یا وہ لوگ ہیں جن کی صلاحیت فیس بُک یا ویٹس ایپ تک محدود ہوتی ہے۔ اب کس پر یقین کریں فیصلہ کرنا اتنا مشکل نہیں۔
***
کووڈ سے بچنے کے لیے ویکسین ایک ذریعہ ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلد سے جلد ملک کے تمام لوگوں کو ویکسین فراہم کرائے، لیکن وہ ابھی تک اس معاملے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے سائنٹفک گروپ کے معاہدے کے بغیر کووڈ ویکسین کی دو خوراکوں کے درمیان کی مدت کو بڑھا کر دوگنا کر دیا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ پہلے کووڈ ویکسین کے پہلی خوراک کے چھ تا سات ہفتوں بعد دوسری خوراک لینا ضروری تھا، لیکن حکومت نے 13 مئی 2021 کو اس مدت میں اضافہ کر اسے بارہ تا سولہ ہفتہ کر دیا۔ حکومت نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ملک میں ویکسین کم پڑنے لگی تھی اور ملک بھر میںکووڈ مریضوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021