فرقہ وارانہ تشددمخالف بل پر سياسي جماعتيں خاموش کيوں ہيں؟
افروز عالم ساحل
ملک میں نفرت بھرے ماحول میں جب فرقہ وارانہ تشدد اور نسل کشی کی دھمکی عام بات ہو چلی ہے، ’فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل‘ چرچے میں ہے۔ اس بل کي ياد پچھلے دنوں بي جے پي کے صدر جے پي نڈا نے دلائی۔ وہ ملک کے 13 اپوزيشن جماعتوں کے قائدين کي طرف سے ملک ميں نفرت انگيز تقريروں اور فرقہ وارانہ تشدد کے حاليہ واقعات پر گہري تشويش کا اظہار اور لوگوں سے امن اور ہم آہنگي برقرار رکھنے کي اپيل کرنے والے خط کا جواب دے رہے تھے۔
ملک ميں فرقہ وارانہ ہم آہنگي پر تشويش کا اظہار کرنے والي اپوزيشن جماعتوں کو بي جے پي کے صدر جے پي نڈا نے کانگريس کے دور حکومت ميں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات (1969 گجرات، 1980 مراد آباد، 1984 بھيونڈي اور 1989 بھاگلپور) کي ياد دلاتے ہوئے اپنے ايک کھلے خط ميں لکھا کہ ’ميں آپ سب کو ياد دلا دوں کہ يہ يو پي اے حکومت ہي تھي جو ايک ماورائے آئين ’نيشنل ايڈوائزري کونسل‘ کے ذريعے کنٹرول ہو رہي تھي، جس نے انتہائي خوف ناک فرقہ وارانہ تشدد کا بل لايا تھا جس نے ووٹ بينک کي سياست کو يو پي اے کے معيار سے نئے سطح تک پہنچا ديا تھا۔‘
غور طلب بات ہے کہ جس ’فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل‘ کي جے پي نڈا بات کر رہے ہيں وہ آج تک نافذ ہي نہيں ہو سکا ہے۔ جب يو پي اے نے اپنے دور حکومت ميں اس بل کو پيش کيا تھا تو سب سے زيادہ اس کي مخالفت بي جے پي نے ہي کي تھي۔ اپوزيشن کي ديگر جماعتيں بھي بي جے پي کے ساتھ تھيں۔ خاص طور پر اس کي مخالفت ميں اس وقت کے گجرات کے وزير اعليٰ نريندر مودي پيش پيش تھے۔ اگرچہ يہ ايک کڑوي حقيقت ہے کہ کانگريس بھي اس بل کے تئيں زيادہ ايماندار نہيں رہي۔ اس کے دور حکومت ميں ہي يہ بل نو برسوں تک پارليمنٹ ميں رہا ليکن قانون نہيں بن سکا۔ اسے متحدہ ترقي پسند اتحاد کي اسي حکومت نے واپس لے ليا تھا جو ملک ميں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف ايک مضبوط قانون چاہتي تھي۔
دراصل کانگريس نے 2004 کے عام انتخابات ميں اپنے انتخابي منشور ميں اس بات کا وعدہ کيا تھا کہ اگر وہ اقتدار ميں آئے گي تو ملک ميں فرقہ وارانہ تشدد مخالف قانون نافذ کرے گي۔ اقتدار ميں آنے کے بعد اپنے انتخابي وعدے کے مطابق راجيہ سبھا ميں 5 دسمبر 2005 کو اس وقت کے وزير داخلہ شيوراج پاٹل نے ’فرقہ وارانہ تشدد (روک تھام، کنٹرول اور بحالي) بل 2005‘ پيش کيا تھا تاکہ فرقہ وارانہ تشدد کے مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو حل کيا جا سکے۔ اس بل کا جائزہ لينے کے ليے اس کو امور داخلہ کے اسٹينڈنگ کميٹي کے پاس بھيجا گيا، جس کي قيادت اس وقت سشما سواراج کر رہي تھيں۔ اس کميٹي نے 13 دسمبر 2006 کو اپني رپورٹ پارليمنٹ کو پيش کي۔ پارليمنٹ ميں مذکورہ کميٹي کي سفارشات کا جائزہ ليا گيا اور کابينہ ميں حکومتي تراميم کي تجويز پيش کي گئي جسے مارچ 2007 ميں منظوري دے دي گئي ليکن اس کے بعد متعدد مواقع پر نوٹس کے باوجود اس بل کو زير غور نہيں لايا جا سکا۔ جب اس حکومت کے پانچ سال مکمل ہو گئے تو کانگريس نے دوبارہ اس قانون کو لانے کي بات اپنے انتخابي منشور ميں شامل کي۔ فروري 2010 ميں وزير داخلہ نے راجيہ سبھا ميں بل پر غور کرنے اور اسے منظور کرنے کے ليے آخري بار نوٹس ديا، ليکن تب بھي اس بل پر غور نہيں ہو سکا۔ بعد ميں 05 فروري 2014 کو اس بل کو واپس لے ليا گيا۔
دريں اثنا، نيشنل ايڈوائزري کونسل (اين اے سي) نے بتايا کہ اين اے سي اس موضوع پر ايک نيا مسودہ بل سونيا گاندھي کي زير قيادت تيار کرے گي۔ اين اے سي نے 14 جولائي 2010 کو بل کا بليو پرنٹ تيار کرنے کے ليے ايک ڈرافٹنگ کميٹي تشکيل دي اور 28 اپريل 2011 کو اين اے سي کے اجلاس کے بعد اسے 22 جولائي 2011 کو حکومت کے حوالے کيا گيا۔ 25 ستمبر 2011 کو اس ’’فرقہ وارانہ اور نشانہ بند تشدد کي روک تھام (انصاف تک رسائي اور اصلاحات) بل، 2011‘‘ کے عنوان سے ايک مسودہ وزارت داخلہ کو غور کے ليے بھيجا گيا۔ اس بل ميں نہ صرف فرقہ وارانہ تشدد کي ايک وسيع تعريف فراہم کي گئي تھي بلکہ اس کا مقصد تيز رفتار تحقيقات، ٹرائل اور متاثرين کي بحالي بھي بتايا گيا تھا۔ اس نے رياستي حکومتوں کو کسي علاقے کو ’’فرقہ وارانہ طور پر پريشان‘‘ قرار دينے کا اختيار ديا تھا۔ اس بل ميں سخت سزا کا بھي بندوبست کيا گيا ہے اور ايسے واقعات کے ليے اہلکاروں کو بھي جواب دہ بنايا گيا۔ اس قانون ميں ہر رياست ميں ’’کميونل ڈسٹربنس ريليف اينڈ ري ہيبيليٹيشن فنڈ‘‘ قائم کرنے کي راہ بھي ہم وار کي گئي تھي۔
اس بل کو راجيہ سبھا ميں پيش کرنے کے ليے 17 دسمبر 2013 اور 20 جنوري 2014 کو نوٹس ديے گئے۔ 05 فروري 2014 کو راجيہ سبھا ميں بحث کے بعد، ’’فرقہ وارانہ تشدد کي روک تھام (انصاف تک رسائي اور معاوضہ) بل، 2014‘‘ کي پيشي کو ايوان نے ملتوي کر ديا تھا۔ اس کے بعد مرکز ميں اقتدار کي تبديلي ہوئي، ليکن اين ڈي اے کے دور حکومت ميں کبھي بھي اس قانون کے معاملے ميں کسي بھي سياسي جماعت کي طرف سے کوئي بات نہيں رکھي گئي۔
اب جب کہ ملک ميں نفرت کا ماحول گرم ہے بھارت کو اس بل کي پہلے سے کہيں زيادہ ہے ضرورت ہے خاص طور پر اس وقت جب کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ميں اضافہ ہو رہا ہے نيز امريکہ کے بين الاقوامي مذہبي آزادي کميشن (يو ايس سي آئي آر ايف) کي رپورٹ صاف طور پر کہہ رہي ہے کہ ہندوستان ميں مذہبي آزادي کے حالات انتہائي نچلي سطح پر آگئے ہيں اور مذہبي اقليتوں پر حملوں ميں اضافہ ہوا ہے اور بھارت کو 2021 کے مذہبي آزادي کي صورتِ حال کي بنا پر امريکي انتظاميہ سے بين الاقوامي مذہبي آزادي ايکٹ (آئي آر ايف اے) کے تحت منظم، جاري اور مذہبي آزادي کي متشدد خلاف ورزيوں ميں ملوث ہونے اور اسے نہ روکنے کے ليے ہندوستان کو ايک ’’خاص تشويش کا حامل ملک‘‘ کے طور پر نامزد کرنے کي سفارش کي گئي ہے۔
يو پي اے کے ليے يہ احتساب کا لمحہ ہے کہ وہ اقتدار ميں رہنے کے دوران حسب وعدہ اس بل کو قانون نہيں بنا سکي اور اب جب کہ وہ اپوزيشن ميں ہے، يو پي اے ميں شامل کسي جماعت کي طرف سے اس قانون کے بارے ميں کوئي بات نہيں کي گئي ہے حالاں کہ اس قانون کي ملک کو اس وقت سخت ضرورت ہے۔ اب رہي بات اين ڈي اے حکومت ميں شامل سياسي پارٹيوں کي تو ان سے تو اس بات کي اميد ہي فضول ہے کہ وہ ملک ميں کسي طرح کے فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل کا مطالبہ کريں گي۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 مئی تا 04 جون 2022