بلڈوزر مسلمانوں کے مکانات پر نہیں‘ملک کے نظام عدل پر چلایا جارہا ہے

توہین رسالت ؐکے واقعات پر حکومت کا روّیہ جمہوریت پر بد نما داغ

نور اللہ جاوید

توہین رسالت مآب ﷺ کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں کا احتجاج اور اس کے بعد بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں بالخصوص اتر پردیش میں حکومت کی جابرانہ کارروائی نے بھارت میں قانون کی حکمرانی پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں کے برابر ہوتی ہے۔ شہریوں کے جذبات ان کے ساتھ انصاف اور رواداری نہ صرف ریاست کی ذمہ داری ہے بلکہ یہ اس کی بنیادی ڈیوٹی ہے مگر گزشتہ ہفتے کانپور میں ناموس رسالت کے خلاف احتجاج کے دوران رونما ہونے والے تشدد کے واقعات کے بعد حکومت کی کارروائی اور اس ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج کو بنیاد بنا کر جس طریقے سے یکطرفہ کارروائی کی جاری ہے اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ریاست ملک کی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتی بلکہ مسلمانوں کی تذلیل ہی ان کی ذمہ داری بن گئی ہے۔مظاہرے کو بنیاد بنا کر حکومت شہری ترمیمی ایکٹ مخالف مہم کا حصہ رہنے والے سماجی کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ کانپور کے بعد الہ آباد میں بھی یہی کہانی دوہرائی جا رہی ہے۔ شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک کا حصہ رہنے والی جے این یو کی سابقہ طالبہ آفرین فاطمہ کے والد جاوید، والدہ اور بہن کو پہلے پولیس تحویل میں رکھنا اور اس کے بعد اتوار کو دن بھر صرف 24 گھنٹے کی نوٹس پر غیر قانونی تعمیرات کا بہانہ بنا کر گھر کو منہدم کر دینا ملک میں قانون کی حکمرانی پر سوال کھڑے کرتے ہیں کہ آیا اس ملک میں انصاف کا نظام موجود ہے بھی یا نہیں؟ انتظامیہ جانچ کر کے فرد جرم عائد کر سکتی ہے لیکن فیصلہ نہیں کر سکتی مگر اب ماوارئے عدالت فیصلے سنائے جا رہے ہیں اور حکومت اور اس کے کارندے ہی فرد جرم عائد کرتے ہیں اور خود فیصلہ بھی سناتے ہیں۔
ہندوستان میں توہین رسالت کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج اور اظہار ناراضگی کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے بلکہ توہین رسالت کے خلاف مسلمانوں نے ہمیشہ اسی طرح کی حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے اور جمہوری حقوق کے دائرے میں رہ کر اپنے احتجاج کو درج کروایا ہے مگر بی جے پی کے دریدہ دہن لیڈروں کی جانب سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں ہرزہ سرائی اور اس پر قانون کے رکھوالوں کی مجرمانہ خاموشی نے آج حالات کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی سوالوں کی زد میں ہے تو دوسری طرف ملک لاقانونیت کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال لازمی طور سے اٹھتا ہے کہ جب حکومت کو معلوم تھا کہ اس واقعے پر احتجاج ہوں گے اور مسلم معاشرے میں ناراضی بہت ہی زیادہ پائی جاتی ہے تو پھر اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ شرپسندوں اور غنڈہ عناصر کی شناخت کیوں نہیں کی گئی؟ سیکیورٹی اور پولس اہلکاروں کو احتیاطی طور پر تعینات کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے حکومت نہیں بچ سکتی ہے۔
گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی بھی واقعہ کسی بھی ملک کا داخلی مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اقلیت اور ان کے جذبات کو کچلنے کی منصوبہ بند کوششوں کا آغاز ہو گیا تھا تاہم مودی کی دوہری شخصیت کا کمال تھا کہ ایک طرف ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف مہم پر حکومت نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ انتخابی فوائد کے لیے خود وزیر اعظم بھی انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف اسی سطح پر اتر کر بیان دیا جو وزارت عظمیٰ جیسے عظیم منصب پر فائز شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔
عرب دنیا روایتی طور پر ہندوستان کی دوست رہی ہے۔ یہاں 90 لاکھ ہندوستانی روزگار سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان کے خزانہ میں 70 ملین ڈالر سے زائد کا زر مبادلہ انہی خلیجی ممالک سے آتا ہے اور ہندوستان ان ممالک میں برآمدات کی شکل میں کئی ہزار کروڑ روپے کماتا ہے۔ خلیجی ممالک ہندوستان کو تیل کی ضروریات کا 60 فیصد حصہ پورا کرتے ہیں۔ صرف قطر قدرتی گیس کی ضروریات کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان عرب سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کر رہا ہے۔ ان حالات میں حکومت ہند مسلم دنیا کی ناراضی کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ عرب دنیا میں بی جے پی لیڈروں کے بیانات پر جو رد عمل سامنے آیا وہ کوئی راتوں رات نہیں ہوا ہے بلکہ عرب دنیا میں حکومتی سطح پر تو نہیں لیکن عوامی سطح پر ناراضی کی لہر 2020 سے ہی پائی جا رہی تھی۔ مالدیپ نے ہندوستان کے خلاف احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن وہاں پر بھی شدید عوامی ناراضی کی وجہ سے مالدیپ کی حکومت کو بیان جار ی کرنا پڑا۔ بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ نے اعتراف کیا کہ ہندوستان کے حالات کی وجہ سے وہ عوامی دباؤ کا شکار ہے اور اپنے ملک کے عوام کے جذبات کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ہندوستان کی معاشی صورت حال پہلے ہی سے خراب ہے ایسے میں بائیکاٹ کی مہم سے ہندوستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے اور کوئی بھی حکومت اس طرح کا جوکھم مول لینا نہیں چاہتی۔ چناں چہ حکمراں جماعت بی جے پی نے حضرت محمد ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے اپنے لیڈروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں نہ صرف پارٹی سے معطل کیا بلکہ اشتعال انگیز بیانات دینے والے پارٹی ترجمانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مستقبل کے لیے رہنما خطوط بھی جاری کیے۔ اس کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ایک ذمہ دار سیاسی جماعت ہونے کے ناطے بی جے پی نے بڑے اقدامات کیے ہیں۔
بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں اور جھارکھنڈ میں جس طریقے سے مظاہرین کو کچلنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں، اتر پردیش میں برسر اقتدار بی جے پی کا رویہ اور اس کا اپنے ہی شہریوں کے خلاف کریک ڈاون کوئی نئی بات نہیں ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی اسی طرح کا جابرانہ رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ 3 جون کو کانپور میں جمعہ کی نماز کے بعد توہین رسالت کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کے بعد یوگی حکومت کی جانب سے یکطرفہ کارروائی کی گئی اور مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا۔اب الہ آباد میں جس طریقے سے مکانات کو منہدم کرنے کی کارروائی کی جا رہی ہے وہ نہ صرف یوگی حکومت کے جابرانہ اور ظالمانہ چہرے کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ یہ ملک میں قانون کی بالادستی پر بھی سوال کھڑے کرتی ہے۔ تاہم ملک کی مسلم تنظیموں کی اپیل کے باوجود مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد یہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا مسلم نوجوانوں پر مسلم تنظیموں کے اثرات ختم ہو رہے ہیں اگر ہو رہے ہیں تو اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی احتجاج کی کال دینے والے کون ہیں اور ایک پر امن مظاہرے کو تشدد میں تبدیل کرنے والے عناصر کون ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا توہین مذہب کے خلاف قانون سازی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ملک کی مسلم تنظیمیں اور سول سوسائٹی کو متحدہ کوشش نہیں کرنی چاہیے؟
ہندوستانی میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ کردار
ملک کے نامور تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر حکومت بر وقت اپنی خاموشی توڑتی اور قانون کے مطابق کارروائی کرتی تو ملک میں اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا نہیں ہوتا۔ ہر ایک معاملے میں ٹویٹ کے ذریعہ عوام کے سامنے اپنی بات رکھنے والے وزیر اعظم مودی اور ان کے وزیر داخلہ عموما ایسے مواقع پر خاموشی اختیار کر جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ خاموشی کسی سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہو مگر اس کی قیمت ملک اور اس کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نفرت انگیز بیانات اور مہم پر مبہم ہی سی مگر بیانات دیتے ہیں مگر وزیر اعظم اتنے بڑے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ حالات پر نظر رکھیں ان پر بھی خاموشی چھائی رہتی ہے۔ مساجد کے خلاف دائیں بازوں اور ہندو شرپسند عناصر کی مہم پر ملک کے مقتدر اعلیٰ کی خاموشی نے ان عناصر کے حوصلوں کو بلند کر دیا ہے۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔4
ایڈیٹر گلڈ نے اپنے ایک بیان میں ٹی وی نیوز چینلوں کے غیر ذمہ دارانہ کردار پر انگشت نمائی کی مگر یہ تنبیہ اگر حکومت کی جانب سے آتی اور پریس کونسل آف انڈیا اس مسئلے پر ایڈوائزری جاری کرتا تو آج ملک کے حالات کچھ اور ہوتے۔
ہندوستانی نوجوانوں کا احتجاج
پیغمبر اسلام پر توہین آمیز بیانات کے خلاف مسلمانوں کا رد عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک انگریزی نیوز چینل پر 26 مئی پر بحث کے دوران بی جے پی لیڈر نوپور شرما نے جس طرح بیان دیا اس کی کوئی بھی مہذب سماج اجازت نہیں دیتا ہے۔ خود بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں نے اعتراف کیا کہ اس بیان نے بی جے پی کی توسیعی مہم کو زبردست نقصان پہنچایا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ بی جے پی اور حکومت دس دنوں تک اس پورے معاملے پر کیا کرتی رہی؟ دراصل بی جے پی کو امید تھی کہ یہ بیانات بھی جلد ہی پس منظر میں چلے جائیں گے اور کوئی نیا مسئلہ آجائے گا اور ٹی وی چینلوں پر اس کو لے کر ہنگامہ آرائی شروع ہو جائے گی مگر خلیجی ممالک میں غیر معمولی رد عمل، کویت اور قطر کی حکومتوں کے ذریعہ ہندوستانی سفیروں کو طلب کر کے احتجاج اور اس کے بعد ہندوستانی اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل نے بی جے پی کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ آر ایس ایس کا وطیرہ ہے کہ وہ بے نقاب ہونے سے گریز کرتا رہا ہے۔
ملک کے اندرونی معاملات کی وجہ سے مودی نے بیرون ملک میں اپنی جو شبیہ بنائی ہے اس کو بڑا دھکا لگ سکتا ہے چناں چہ 5 جون کو بی جے پی نے گستاخوں کے خلاف کارروائی کی اور اس پورے معاملے میں پریس بیان جاری کرکے پارٹی کا موقف پیش کیا کہ وہ کسی بھی مذہب کی توہین میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ مذاہب کا احترام ہندوستان کی دیرینہ روایات رہی ہے۔ بی جے پی کے اس ردعمل میں بھی ایک واضح پیغام تھا کہ اسے ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے کہیں زیادہ ملک کے سفارتی تعلقات کی فکر ہے اس لیے بی جے پی نے اپنے لیڈروں کی لیے ایک ریڈ لائن کھینچ دی کہ کسی بھی صورت میں اس ریڈ لائن کو عبور نہ کیا جائے۔ خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانی سفرا کے بیانات، وزارت خارجہ کی وضاحت اور بی جے پی کی کارروائی کےبعد حکومت ہند کو یہ یقین تھا کہ جو سفارتی نقصانات پہنچے ہیں اس کی بھرپائی کے لیے یہ اقدامات کافی ہیں چناں چہ بی جے پی کے ترجمانوں کے خلاف کوئی بھی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ دھرم سنسد، اسکول اور کالج میں نقاب پہننے کو لے کر ہنگامہ آرائی، مساجد سے اذان کو لے کر ہنگامہ آرائی، گیان واپی مسجد، ملک کی دیگر مساجد کے خلاف مہم اور اب نبی کریم ﷺ کے خلاف نفرت انگیز بیانات نے مسلمانوں کے صبر کے پیمانے کو لبریز کردیا ہے۔ تشدد کے ایک دو واقعات کو چھوڑ کر مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ملک بھر میں پر امن مظاہرہ کیا اور اپنے اپنے گھروں میں لوٹ گئے۔ خلیجی ممالک کی ناراضی پر سانپ سونگھ گیا تھا کارپوریٹ آقاوں نے بھی نیوز چینلوں کو قابو میں رہنے کا اشارہ دیا تھا مگر ہندوستانی مسلمانوں کے احتجاج کے بعد ایک بار پھر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ ایک بڑی کارپوریٹ کمپنی کے زیر سایہ چلنے والے ہندی نیوز چینل کا اسٹنگ آپریشن اس کا بین ثبوت ہے۔ جمعہ کو احتجاج کے دوران اتر پردیش اور جھارکھنڈ کی پولیس نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے جو کارروائی کی ہے وہ کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب مسلم تنظیموں نے احتجاج نہ کرنے کی اپیل کی تھی تو پھر اتنے بڑے پیمانے احتجاج کیوں ہوئے؟ اور جب جمعیۃ علما نے تردیدی بیان جاری کیا کہ اس کے لیٹر پیڈ کا غیر قانونی استعمال کیا گیا ہے اور اس نے احتجاج کی کوئی بھی کال نہیں دی تھی تو جعلی لیٹر پیڈ جاری کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ کیوں نہیں پولیس نے ان عناصر کی نشاندہی کی جو مسلم تنظیموں کے متعلق جھوٹ پھیلا رہے تھے۔ اس معاملے میں بھی پولیس نے بڑی غلطی کی۔ رانچی جہاں کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی حکومت ہے، مگر یہاں کی پولیس نے بھی اتر پردیش والی بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں دو جوانوں کی شہادت ہوئی۔ امارت شرعیہ پھلواری شریف کے امیر شریعت فیصل رحمانی کہتے ہیں کہ احتجاج کے مقامات کی جو ویڈیوز اور اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ مظاہرہ پر امن تھا اور پولیس نے اشتعال انگیزی سے کام لیا جس کے بعد ہی مظاہرین کی طرف سے پتھر بازی ہوئی ہے۔ اس واقعہ میں شہادت پانے والے ساحل کی عمر بیس سال ہے اور وہ بارہویں کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد موبائل فون کی دکان پر کام کرتا تھا جب کہ مدثر کی عمر محض پندرہ سال ہے اور وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جھار کھنڈ حکومت نے اس پورے معاملے میں دو رکنی جانچ کمیٹی قائم کی ہے۔ پولیس کی فائرنگ پر کئی سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ اگر فائرنگ ناگزیر تھی تو اس سے قبل وارننگ کیوں نہیں دی گئی اور لاٹھی چارج کیوں نہیں کیا؟
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ اگر مسلم تنظیمیں اپیل نہیں کرتیں تو ملک بھر میں اس سے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوتے، کیوں کہ مسلمانوں میں شدید قسم کی ناراضی پائی جاتی ہے ہے۔ چوں کہ ملک کی مسلم تنظیموں نے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی تھی اس لیے جمعہ کو چند مقامات پر ہی احتجاج ہوئے۔ مسلم تنظیموں کی اپیل اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کا احتجاج کوئی غیر آئینی قدم تو نہیں تھا اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کو بھی احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے اس لیے اس پر سوال کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ سوال احتجاج کو کچلنے پر ہونا چاہیے۔ اس ملک نے اس سے بھی بڑے احتجاج اور مظاہرے دیکھے ہیں مگر پولیس نے کبھی بھی اس طریقے سے ظالمانہ اور بے رحمانہ رویہ کا مظاہرہ نہیں کیا مگر حالیہ دنوں میں مظاہروں بالخصوص مسلمانوں کو احتجاج کو کچلنے کے لیے جو بلڈوزر پالیسی اختیار کی گئی وہ صرف مسلمانوں کے گھروں پر نہیں بلکہ ملک کے قانون اور عدالتی نظام پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔ مستقبل میں ملک اور یہاں کے عوام کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔
الہ آباد میں ویلفیئر پارٹی کے ریاستی سکریٹری جاوید محمد کے گھر پر بلڈوزر چلائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے قاسم رسول الیاس کہتے ہیں یہ پوری کارروائی غیر قانونی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جاوید محمد نے احتجاج کی کوئی کالی نہیں دی تھی چوں کہ ان کی صاحبزادی آفرین فاطمہ شہری ترمیمی ایکٹ مخالف تحریک کا حصہ تھیں اس لیے ان کو نشانہ بنایا گیا۔ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جاوید محمد نے احتجاج کی کال دی تھی یا نہیں اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی خود سوالوں کی زد میں ہے۔ جس مکان کو منہدم کیا گیا ہے وہ مکان بھی جاوید محمد کا نہیں ہے بلکہ ان کی اہلیہ کا ہے۔ یہ مکان ان کے والدین نے انہیں دیا تھا۔ اس صورت میں نوٹس جاوید محمد کی اہلیہ کے نام آنا چاہیے تھی مگر وہ جاوید محمد کے نام آئی۔ اسی طرح الہ آباد ترقیاتی بورڈ نے دعویٰ کیا کہ غیر قانونی تعمیرات کے لیے 25 مئی کو جاوید محمد کو نوٹس دی گئی تھی۔ مگر یہ سراسر جھوٹ ہے۔ سچائی یہ ہے کہ جاوید محمد ان کی اہلیہ اور ان کی بیٹی کی گرفتاری کے بعد یہ نوٹس دی گئی اور کارروائی کے لیے اتوار کا دن مقرر کیا گیا تاکہ عدالت کا سہارا نہ لیا جا سکے۔ انہدامی کارروائی کے بعد طرح طرح کے جھوٹ گڑھے جا رہے ہیں۔ وہ ویلفیئر پارٹی کے ریاستی سکریٹری تھے اس لیے ان کے گھر سے پارٹی کے جھنڈے برآمد ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے مگر میڈیا کے ایک سیکشن کے ذریعہ یہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے کہ جاوید محمد تبدیلی مذہب کی مہم کا حصہ تھے۔ جب مکان چوبیس گھنٹوں سے پولس کی تحویل میں تھا تو پھر گھر سے کچھ بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔ قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ ملک کی سول سوسائٹی اور انصاف پسند شہریوں کو ان حالات میں آگے آنا چاہیے کیوں کہ ملک بھر میں بالخصوص اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ اور دہلی میں پختہ مکانات کو بلڈوزر سے ڈھانے کی جو پالیسی اپنائی گئی ہے وہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ بلڈوزر مخالفین کو خاموش کرانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آج مسلمانوں کو دھمکایا جا رہا ہے تو کل کسی اور کی بھی باری آسکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
مسلم تنظیموں کی اپیل کا اثر کیوں نہیں ہوا؟
توہین رسالت کا یہ واقعہ رونما ہونے کے بعد بھی مسلم تنظیموں اور لیڈروں کا کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم دنیا تک یہ بات پہنچی جس کے بعد وہاں کی حکومتوں نے بھی اور عوام نے بھی ناراضی کا اظہار کیا تو اس کے بعد ہندوستان میں بھی احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایسے میں اگر میڈیا میں یہ سول کیا جا رہا ہے کہ عرب دنیا سے متاثر ہو کر ہندوستانی مسلمان احتجاج کر رہے ہیں تو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یہ سوال بھی لازمی ہے کہ کیا ان حالات میں مسلم تنظیمیں، جماعتیں اور مسلم سیاسی قیادت مسلمانوں کی رہنمائی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں؟ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ ملک و ملت وامور کے سکریٹری ملک معتصم خان کہتے ہیں کہ یہ کہنا کسی بھی درجے میں درست نہیں ہے کہ مسلم تنظیمیں اور جماعتیں نازک حالات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں۔ مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے متفقہ طور پر اپنی بات کو عوام اور حکومت کی سطح پر پیش کیا ہے۔ ناموس رسالت کا واقعہ انتہائی حساس ہے اس لیے ایسے مواقع پر عوام کے جذبات کو قابو میں رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے اس کے باوجود مسلم تنظیموں کی پہل کی وجہ سے مسلم نوجوانوں نے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔مسلم قیادت اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ کوشش بھی ہے کہ مسلم قیادت کو عوام میں بے اثر کر دیا جائے۔ ایسے مواقع پر مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے عناصر پس پردہ رہتے ہیں۔ ان عناصر کی کبھی بھی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ اب جہاں تک مودی حکومت کا
سوال ہے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہی اس کی پالیسی ہے۔ اسے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو جس قدر ٹھیس پہنچائے گی اسی قدر اس کا الیکٹورل پاور مضبوط ہو گا اور انتخابات میں پولرائزیشن کا فائدہ ملے گا۔
یہ اندیشہ کسی حد تک درست ہے کہ پرامن احتجاج کو پر تشدد بنانے والے عناصر عموماً کرایے کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ مسلم نوجوانوں بالخصوص سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والے افراد کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ وہ جذبات میں آکر کہیں وہ بھیڑ کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں؟ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنا اور مسلم قیادت کو برا بھلا کہنا بہت ہی آسان کام ہے مگر زمین پر اتر کر کام کرنا اور لوگوں کو لے کر چلنا مشکل ترین کام ہے۔ انہیں سوچنا ہو گا کہ قیادت پر بے اعتمادی کا اظہار اور پرجوش بیان بازی کے ذریعہ کہیں وہ سفاک قوتوں کی سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں؟ انہیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ قیادت اور جماعتیں کوئی ایک دن میں نہیں بنتیں بلکہ ایک مدت کی محنت کے بعد یہ تیار ہوتی ہیں۔ جذبات کی رو میں خود کو آگ میں جھونکنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ مستقبل بینی کی جائے اور طویل مدتی لائحہ عمل بنایا جائے۔ دوسری طرف مسلم تنظیموں کو بھی سوچنا ہو گا کہ اگر توہین رسالت کے اس واقعے کے فوری بعد انہوں نے جرأت و بیباکی کے ساتھ اپنا احتجاج درج کروادیا ہوتا تو آج حالات یہاں تک نہیں پہنچتے۔ بہر کیف یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ ناموس رسالت کی توہین جیسے بد بختانہ واقعہ کے باوجود بھی مسلم تنظیمیں اور جماعتیں متحد ہونے میں ناکام کیوں ہیں۔
یہ مکان نانا نے میری ماں کو تحفہ میں دیا تھا۔
مکان کے تمام ٹیکس بھی ادا کیے جا چکے ہیں : سمیہ فاطمہ
الہ آباد میں سماجی کارکن اور ویلفیئر آف انڈیا کے ریاستی سکریٹری جاوید محمد کے مکان کو مکمل طور پر بلڈوز کر دیا گیا ہے۔اس پورے واقعے پر ان کی بیٹی سمیہ فاطمہ نے دعویٰ کیا کہ یہ گھر ان کے والد کا نہیں ہے۔ سمیہ نے کہا کہ پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جو گھر منہدم کیا ہے وہ ان کی والدہ کو ان کے نانا نے تحفے میں دیا تھا۔ اتوار کو 3 بجے جے سی بی کے ذریعے اس مکان کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا۔ اتھارٹی نے الزام لگایا کہ مکان غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔
والد کی کمائی سے نہ زمین خریدی اور نہ ہی گھر بنایا۔ اب قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔
توہین رسالت کے واقعہ کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات کے بعد پولیس نے جاوید محمد کے ساتھ بیٹی سمیہ فاطمہ اور اہلیہ پروین فاطمہ کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ سمیہ اور ان کی والدہ کو رہا کر دیا گیا لیکن جاوید محمد ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں۔ نماز جمعہ کے بعد ہونے والے تشدد کے متعلق سمیہ نے کہا کہ ان کے والد نماز کے بعد سیدھے گھر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ والد فون پر لوگوں کو کسی بھی قسم کے پرتشدد مظاہرے سے منع کر رہے تھے۔
اپنی بہن آفرین فاطمہ سے متعلق میڈیا میں جاری پروپیگنڈے پر سمیہ نے کہا کہ وہ جے این یو کی سابق طالبہ ہے۔ اس کا ایم اے مکمل ہو گیا ہے۔ وہ پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہی ہے۔ ایک ہفتے بعد پی ایچ ڈی کا امتحان ہے۔ اب وہ اس مسئلے میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں امتحان دے سکوں گی یا نہیں کیونکہ ابّو کو اس معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے، اسی طرح اگر پولیس کوئی اور نام چاہتی ہے تو انہیں بھی گھسیٹا جا رہا ہے۔‘‘
مکان کے عدم واجبات کا سرٹیفکیٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں پروین فاطمہ کا نام درج ہے۔ اس سرٹیفکیٹ پر پریاگ راج میونسپل کارپوریشن کے خلد آباد ٹیکس سپرنٹنڈنٹ کے دستخط بھی ہیں۔ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ گھر کا مالی سال 2020-21 تک ہاؤس ٹیکس ادا کر دیا گیا ہے اور مکان پر کوئی بیلنس نہیں ہے۔
پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 11 جون کی رات اس گھر پر ایک نوٹس چسپاں کی تھی۔ کہا گیا تھا کہ 12 جون کی صبح 11 بجے تک گھر خالی کر دیں، تاکہ اتھارٹی کارروائی کر سکے۔ نوٹس کے مطابق گھر کے گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور پر 25*60 فٹ کی غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ اس کے بعد 12 جون کو تقریباً پانچ گھنٹوں کی کارروائی میں ان کا مکان مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا۔
***

 

***

 ان حالات میں مسلم نوجوانوں بالخصوص سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں یہ سوچنا ہوگا وہ جذبات میں آکر کہیں بھیڑ چال کا حصہ تونہیں بن رہے ہیں، سوشل میڈیا پر تبصرے کرنا اور مسلم قیادت کو برا بھلا کہنا بہت ہی زیادہ آسان ہے مگر زمین پر اتر کرکام کرنا اور لوگوں کو لے کر چلنا مشکل ترین ہے۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ قیادت پر بے اعتمادی کا اظہار اور پرجوش بیان بازی کے ذریعہ کہیں وہ سفاک قوتوں کی سازش کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 جون تا 25 جون  2022