بی جے پی جاوید اختر کی فلموں کی نمائش نہیں کرنے دے گی، بی جے پی ایم ایل نے گیت کار کے ذریعے آر ایس ایس کا موازنہ طالبان سے کیے جانے کے بعد کہا
ممبئی، ستمبر 6: بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے رام کدم نے اتوار کو کہا کہ وہ مصنف اور گیت کار جاوید اختر کی فلموں کی نمائش کی اجازت نہیں دیں گے جب تک کہ وہ آر ایس ایس کا طالبان سے موازنہ کرنے پر معذرت نہ کرلیں۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی سرپرست ہے۔
اختر نے جمعہ کو این ڈی ٹی وی سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جرائم کے بارے میں بات کرتے ہوئے آر ایس ایس کا طالبان سے موازنہ کیا تھا۔
جاوید اختر نے انٹرویو میں کہا تھا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہ ایک طالبانی اقدام ہے۔
اختر نے مزید کہا ’’بے شک طالبان وحشی ہیں اور ان کے اقدامات قابل مذمت ہیں، لیکن جو لوگ آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی حمایت کرتے ہیں وہ سب ایک جیسے ہیں۔‘‘
ہفتے کے روز ایک ویڈیو میسج میں کدم نے کہا کہ اختر کے تبصرے آر ایس ایس کے عہدیداروں کے لیے توہین آمیز تھے۔
مہاراشٹر اسمبلی میں گھاٹکوپر مغربی حلقے کی نمائندگی کرنے والے کدم نے کہا ’’یہ تبصرے کرنے سے پہلے انھیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہی نظریہ رکھنے والے لوگ (آر ایس ایس کا) اب (مرکزی) حکومت چلا رہے ہیں اور راج دھرم پورا کر رہے ہیں۔‘‘
کدم نے مزید کہا ’’اگر ان (آر ایس ایس) کا نظریہ طالبان جیسا ہوتا تو کیا وہ یہ ریمارکس دینے کے قابل ہوتے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے بیانات کتنے کھوکھلے ہیں۔‘‘
مہاراشٹر کے دیگر بی جے پی رہنماؤں نے بھی جاوید اختر کے تبصروں پر اعتراض جتایا ہے۔ ریاست کے سابق وزیر توانائی چندر شیکھر باونکولے نے کہا کہ اختر کو افغانستان بھیجا جائے۔ نارتھ ایسٹ ممبئی حلقہ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ منیج کوٹک نے اس موازنہ کو ’’افسانہ‘‘ قرار دیا۔
اتوار کی سہ پہر ممبئی میں بی جے پی ممبران نے احتجاج کیا اور گیت کار جاوید اختر سے معافی کا مطالبہ کیا۔
بمبئی ہائی کورٹ کے ایک وکیل آشوتوش جے دوبے نے کہا کہ اس نے اختر کے خلاف ممبئی پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔ اپنے ٹوئٹر بائیو میں خود کو بی جے پی کا قانونی مشیر بتانے والے دوبے نے گیت کار کے خلاف آن لائن شکایت کی ایک تصویر پوسٹ کی۔
معلوم ہو کہ جاوید اختر کے تبصرے ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں گذشتہ کچھ دنوں میں اکثر بی جے پی اور ہندوتوا گروہوں سے وابستہ افراد نے مسلمانوں کو ہراساں کیا اور ان پر حملہ کیا۔
29 اگست کو مدھیہ پردیش کے ضلع اجین میں پولیس نے دو افراد کو ایک مسلمان سکریپ ڈیلر کو ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے اور اسے گاؤں چھوڑنے پر مجبور کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔
25 اگست کو اندور میں ایک مسلمان چوڑی بیچنے والے کو ایک ہندو علاقے میں اپنا سامان بیچنے پر ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کی ایک وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس شخص کو مارا پیٹا جا رہا ہے جب کہ ہجوم میں سے کچھ کو اس کی جیبوں سے پیسے نکالتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ بعد میں متاثرہ شخص کو ہی جنسی ہراسانی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
دو دن قبل مدھیہ پردیش کے دیواس ضلع میں ایک مسلمان ہاکر کو مبینہ طور پر دو نامعلوم افراد نے اس وقت مارا پیٹا تھا جب وہ اپنا آدھار کارڈ دکھانے میں ناکام رہا تھا۔
اس سے قبل 8 اگست کو دہلی کے جنتر منتر پر پارلیمنٹ سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ریلی میں مسلمانوں کے خلاف تشدد پر ابھارنے والے اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے تھے۔
6 اگست کو ہندوتوا گروہوں اور دیگر تنظیموں نے دہلی کے دوارکا علاقے میں ایک مہا پنچایت یا میٹنگ منعقد کی اور اس علاقے میں حج ہاؤس کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا۔ ایونٹ کی ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ مظاہرین فرقہ وارانہ طور پر حساس تبصرے کر رہے تھے اور حج ہاؤس بنائے جانے پر تشدد کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس تقریب میں دہلی بی جے پی کے سربراہ آدیش گپتا بھی موجود تھے۔