بھارت کے 75ویں یوم آئین کے موقع پر۔۔۔

دستور ہند فقط خوش نما الفاظ کا پیرہن بن گیا حقیقی روح غائب!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

’ہم بھارت کے عوام‘ آئین کے آغاز سے اختتام تک۔ ہر سطر سے آگاہی، ہر بھارتی کی ذمہ داری
بھارت کی جدید تاریخ میں 26 نومبر کی تاریخ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔یہی وہ دن ہے جب کہ آزاد بھارت کی عوام کے لیے مجلس دستور ساز اسمبلی (Constituent Assembly) نے ایک نیا اور منفرد دستور منظور کیا تھا۔ اسی کی یاد کے طور پر ہر سال 26 نومبر کو "یوم آئین "منایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 کو جس دستور کو اپنایا تھا، وہ بھارت کے حالات و کوائف کی بہتر انداز میں ترجمانی کرتا ہے۔ 15 اگست 1947 کو بھارت کی آزادی کے بعد سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ ایک ایسا ملک جس میں کئی مذاہب، کئی تہذبیں اور زبانیں پائی جاتی ہیں ان سب کی نمائندگی کیسے ہو؟ دستور سازوں نے اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا دستور مرتب کیا جو اس ملک کی عوام کی آرزؤں اور امنگوں کی بڑی حد تک تکمیل کرتا ہے۔ اس دستور کے ذریعہ ان مجاہدینِ آزادی کے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی جو تحریک آزادی کے دوران انہوں نے دیکھے تھے۔ بھارتی آئین کے فلسفے اور اس کی خصوصیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت واضح انداز میں سامنے آتی ہے کہ دستور کے مرتب کرنے والوں نے اس آئین کے ذریعہ ملک میں قانون کی حکم رانی اور شہریوں کے حقوق کو اولین ترجیح دی تھی۔ ان کا جذبہ یہی تھا کہ عوام کو جمہوری ماحول میں رہنے کا موقع ملے اور ان کی آزادیوں میں کوئی خلل نہ ہو۔ معمارانِ دستور نے مذہب، ذات، علاقہ، جنس اور دیگر سارے امتیازات کو ختم کر کے سب کو یکساں حقوق عطا کیے۔ آئین ہند کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے مکمل ایک باب مختص کیا گیا۔ دستور کے باب سوم میں تفصیل سے نہ صر ف شہریوں کے حقوق بیان کیے گئے بلکہ ان حقوق کی دستور نے ضمانت دی ہے۔ عام حالات میں کوئی حکومت ان حقوق کو شہریوں سے چھین نہیں سکتی۔ دستور میں یہ واضح کر دیا گیا کہ بھارت "کثرت میں وحدت” ملک ہوگا۔ یہ وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی طبقہ کو کسی اور پر کوئی بالا دستی حاصل نہیں ہے۔ ہر ایک اس ملک کا شہری ہے اور سب کے یکساں حقوق ہیں۔ آئین کے دیباچہ (Preamble) میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گی کہ ہر فرد کے ساتھ انصاف اور مساوات کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ مملکت انصاف کی فراہمی اور مساوات کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں برتے گی۔ بھارت کا آئین ہر فرد کو اظہار خیال کی آزادی کے ساتھ عقیدہ و فکر کی بھی آزادی دیتا ہے۔ کسی بھی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے نظریات و خیالات کو کسی دوسرے پر زبردستی تھوپے۔ دستور کا دیباچہ آئین کی روح کہلاتا ہے۔ کوئی حکومت اس میں درج اصولوں کے خلاف کام نہیں کر سکتی۔ ملک کا دستور مرتب کرنے والے جانتے تھے کہ اس ملک کے تمام طبقات نے اس ملک کی آزادی میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے لہٰذا یہاں کسی ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری کے لیے کوئی گنجائش پہلے سے ہی نہیں رکھی گئی۔ ہر ایک کو قومی ثمرات سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرنا حکومت کے فرائض منصبی میں شامل رہا۔ بھارت کا دستور ملک کو ایک فلاحی مملکت کی تشکیل کی طرف لے جاتا ہے۔ دستور کے فلسفہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس نے حریت پسندی اور پر امن بقائے باہم کو اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کے ساتھ عوام کو اطمینان و سکون کی زندگی گزارنے کا ذریعہ قرار دیا۔
آئین ہند کے مطابق ملک کے اصل حکم راں کون ہیں؟ 26 نومبر 1949 کو جس آئین کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا اور جو آئین 26 جنوری 1950 سے ملک میں نافذ کیا گیا، اس کے مطابق ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھوں میں ہے؟ اگر اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آئین کی تمہید کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے "ہم بھارت کے عوام” اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس جمہوری ملک کے اصل حکم راں عوام ہیں۔ یہاں جو بھی قانون بنے گا، اس میں عوام کی مرضی شامل ہوگی۔ حکومت کی جو بھی پالیسی بنے گی اس کا مقصد عوام کو راحت دینا ہوگا۔ عوام کی مرضی و منشاء کو بالائے طاق رکھ کر حکومت اپنی من مانی نہیں کر سکتی۔ دستور کے نظریات اور اس کے فلسفہ کو نظر انداز کرتے ہوئے جو بھی قانون سازی ہوگی وہ قوم کے اتحاد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے دور رس نتائج کی حامل نہ ہوگی۔ شہریوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف دلانے کے لیے حکم رانوں کو پہلے اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ ملک کا آئین "عوامی اقتدار اعلیٰ” کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ عوام ہی ہیں جو ملک کے سیاہ و سفید کو طے کرتے ہیں۔ عوام کا کام محض الیکشن کے موقع پر ووٹ ڈالنا نہیں ہے بلکہ وہ حکومت کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیتے ہوئے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کوئی پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی جو عوامی مفاد کے خلاف ہو۔ جبکہ موجودہ دور میں دیکھا جا رہا ہے کہ حکومتیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اکثریت کی بنیاد پر ایسے قوانین منظور کر رہی ہیں جو عوام کے مفادات پر ضرب لگاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے بیسیوں قوانین پارلیمنٹ میں حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے جو شہریوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو نقصان پہچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کسانوں کے خلاف بنائے گئے تین سیاہ قوانین اس کی بدترین مثال ہیں۔ اسی طرح شہریوں کے اظہار خیال پر پابندی لگانے کے مقصد سے بنائے گئے قوانین ہوں یا پھر کسی مخصوص طبقہ کو پریشان کرنے کے لیے قانون سازی، یہ سب ملک کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اس لیے کہ آئین، قانون سازی کرتے وقت شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کی تاکید کرتا ہے۔ 400 سے زائد دفعات پر مشتمل بھارت کا آئین ، حکومت کے اختیارات کو کم کرتا ہے اور شہریوں کی آزادیوں میں اضافہ کر تا ہے۔ لیکن آئین کے نفاذ کے 75 سال بعد صورت حال بدل گئی ہے۔ اب حکومتیں اپنے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر قانون سازی کرنے لگی ہیں۔ ان کے پیش نظر ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ اب ملک کی 140 کروڑ آبادی کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قوانین نہیں لائے جاتے۔ حکومتوں کے اسی انداز فکر کی وجہ سے عوام کا اعتماد جمہوری قدروں پر سے اٹھتا جا رہا ہے۔ اس ملک کا نوجوان یہ سوال کر رہا ہے کہ ملک میں ایک بہتر دستور کے ہوتے ہوئے حکومت کس طرح آمرانہ رنگ ڈھنگ اختیار کر سکتی ہے؟ حکومت سے سوال کرنا اب کیوں جرم ہو گیا ہے؟ اس کی سرمایہ داروں کو سہولتیں اور مراعات دینے والی پالیسیوں پر تنقید کیسے ملک دشمنی کے زمرے میں آتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ ایک غریب شہری آخر کب تک دستور سے امید لگا کر اپنے آپ کو یہ کہہ کر کیسے مطمئن کر سکے گا کہ اس کے ساتھ انصاف ہوگا اور قومی ثمرات میں اس کی بھی حصہ داری ہوگی۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ملک کی دولت کو چند لٹیرے لوٹ رہے ہیں۔ ابھی ایک نام منظر عام پر آیا ہے۔ ایسے کئی تجارتی گھرانے ہیں جن کی موجودہ حکومت پشت پناہی کرتی رہی اور یہ سب غریبوں کا حق مار کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ اس لیے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ بھارت میں اصل حکم راں کون ہے۔ جس دن عوام کو معلوم ہوجائے گا کہ آئین نے عوامی حکم رانی کو تسلیم کیا ہے تو سیاست دانوں کے دن پورے ہوجائیں گے۔
آئین ہند اور اقلتیں: بھارت کے آئین نے جہاں ملک کے تمام شہریوں کو بلا لحاظِ مذہب، ذات، رنگ و نسل و جنس اہم حقوق اور آزادیاں عطا کی ہیں وہیں ملک کی اقلیتوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ دستورکی دفعہ 29 اور 30 کے ذریعہ اقلیتوں کو ان کی زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق دیا گیا۔ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ اسی طرح دیگر حقوق بھی دیے گئے ہیں جس کی تفصیل شہریوں کے بنیادی حقوق کے ذریعہ بیان کی گئی ہے۔ ملک کے تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دستور نے بھارت کو ایک سیکولر مملکت قرار دیا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ شہری اپنی پسند کے مذہب پر کار بند نہیں رہ سکتے۔ سیکولرازم کی بہت ہی واضح انداز میں تشریح کرتے ہوئے بتا دیا گیا کہ مملکت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور حکومت مذہب کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کرے گی۔ دستور ساز یہ جانتے تھے کہ بھارت میں کئی نوعیت کی لسانی اور مذہبی اقلیتیں رہتی ہیں۔ ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی زبان کا تحفظ آئین کے ذریعہ ضروری ہے۔
ملک کے موجودہ منظرنامے کو اقلیتوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ این ڈی اے حکومت دستور میں درج اقلیتوں کے حقوق کو ہی دستور سے حذف کر دینا چاہتی ہے۔ اس تعلق سے پہلے بھی کوشش کی گئی اور اب تیسری معیاد کے دوران اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مارنے کی تیاری زور وشور سے جاری ہے۔ یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کی بات ہو یا ریزویشن کا تنازعہ ہو یہ سب اقلیتوں کے دستوری حقوق کو چھیننے کے ہتھیار ہیں جسے موجودہ حکومت آزما رہی ہے۔ 75 سال بعد اب یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کس طرح اقلیتوں کو زیر کرنے کے لیے دستور ی ترمیمات کی جائیں۔ وقف ترمیمی بل 2024 کو جاریہ پارلیمانی سیشن میں منظور کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اس بل کے ذریعہ مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں پر حکومت قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ملک کے جس دستور نے اقلیتوں کے مذہبی، سماجی اور ثقافتی آزادیوں کے تحفظ کا یقین دلایا تھا اب اسی پر تلوار لٹک رہی ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کس طرح دستور ی دفعات کی دھجیاں اڑانے میں لگی ہوئی ہے۔ اقلیتوں کے تئیں حکومت کا معاندانہ رویہ تو روز اول سے جاری ہے لیکن کم از کم آئین سے کھلواڑ نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ بھارت میں اقلیتیں اپنے دستوری حقوق سے استفادہ کر رہی ہیں اور حکومت بھی ان کو دستوری مراعات دینے میں کوئی کمی نہیں کر رہی ہے۔حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے متعدد اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے جمہوری اور دستوری حقوق کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو ان کے حقوق سے ہی محروم کر دینا چاہتی ہے۔ بابری مسجد-رام جنم بھومی مقدمے کے دوران مذہبی مقامات سے متعلق قانون پارلیمنٹ میں منظور کرکے یقین دلایا گیا تھا کہ اب کسی عبادت گاہ کی ہئیت کو نہیں بدلا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود مساجد کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا مسئلہ کئی دہائیوں سے عدالت میں زیر دوراں ہے۔ سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے چیف جسٹس نے سارے شواہد کے باوجود ادھورا فیصلہ دیا۔مسلمانوں کے دینی مدارس پر حکومت کی کڑی نظر ہے۔ حالات کے اس پس منظر میں ہندی مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ دستور کی دہائی دیتے ہوئے کتنے صدیاں گزار دیں گے یا پھر اس کا کوئی متبادل نظام بھی پیش کریں گے جس میں سب کے ساتھ عدل و قسط بھی ہوگا اور بھارت ایک جنت نشان ملک بھی بن پائے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024