’ کیا ہندو دھرم اتنا کمزور ہے کہ ایک کانفرنس سے ختم ہو جائے گا؟‘ — بھنور میگھ ونشی

آزاد صحافی بھنور میگھ ونشی کی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت

’ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندوتوا‘ انٹرنیشنل کانفرنس میں شامل ہوئے کئی ناموں میں ایک نام راجستھان کے سماجی کارکن، مشہور مصنف اور آزاد صحافی بھنور میگھ ونشی کا بھی تھا۔ انہوں نے اس کانفرنس میں ’کاسٹ اور ہندوتوا‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے لیے انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں جس میں ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکی بھی شامل تھی۔

ہفت روزہ دعوت کے لئے افروز عالم ساحل نے ان کے ساتھ خاص بات چیت میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ گلوبل کانفرنس کا مقصد کیا تھا اور اس کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے اور ہندوتوا کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں۔ بھنور میگھ ونشی نے بھی کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پیش ہیں گفتگو کے کچھ اہم پہلو۔

اس کانفرنس کا مقصد کیا تھا؟

ہندوستان میں اس وقت جو پرتشدد اور جارحانہ اور عدم برداشت پر مبنی سیاسی ہندوتوا چاروں طرف پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں دوسرے مذہب کے ماننے والے بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر مارا جا رہا ہے یا ماب لنچنگ ہو رہی ہے اور لوگوں کے بولنے پر پابندی لگائی جارہی ہے اس کے خلاف بات رکھنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔

لیکن پہلی بار اس طرح گلوبل سطح پر ہندوتوا پر بات کرنے کا کچھ خاص مقصد ہو گا؟

ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔ ہندوتوا پر بحث کافی پرانی ہے۔ کئی اکیڈمک کام ہوچکے ہیں۔ اس طرح کی چیزیں ہوتی رہی ہیں۔ اگر آپ بہوجن آندولن کو دیکھیں گے تو ہمارے یہاں یہ ایک روایت ہے۔ مسلسل اس پر بات ہوتی رہی ہے۔ نا برابری، ذات پات اور ورنا سسٹم کے خلاف لوگ بولتے رہے ہیں۔ جو بات میں نے اس کانفرنس میں کہی ہے وہ میں سینکڑوں منچوں میں کہہ چکا ہوں۔ جب میں یہ بات مقامی سطح پر کہتا ہوں تب آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن یہی بات گلوبل سطح پر کہہ دی تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے کیا یہ دوغلاپن نہیں ہے؟

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کانفرنس کا اہم مقصد ہندو دھرم کو بدنام کرنا تھا؟

آپ کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ کانفرنس ہندو دھرم کو بدنام کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ لیکن ہاں! ہندو دھرم کو جس سیاسی ہندوتوا نے بدنام کر رکھا ہے اس کو چیلنج دینے کے لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اب اسی سیاسی ہندوتوا کے علمبرداروں کے ذریعہ ملک کے عام لوگوں میں یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ کانفرنس ہندوؤں کو ختم کرنے کی عالمی سازش ہے۔ کیا ہندو دھرم اتنا کمزور ہے کہ ایک کانفرنس سے ختم ہو جائے گا؟

لیکن نشانے پر تو ہندو دھرم ہی آ رہا ہے؟

اس پورے کانفرنس میں کسی بھی مقرر نے ہندو دھرم کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ اور میرا سوال ہے کہ اگر سیاسی ہندوتوا کے خلاف لوگ بات کر رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔ اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ہندو دھرم کے بارے میں بھی بات کی جارہی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر دھرم میں سدھار کی گنجائش رہتی ہے اور اس پر بھی بات ہوتی رہنی چاہیے۔ ہندو خود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو دھرم سب سے روا دار دھرم ہے اور ان کے یہاں ’شاستراتر‘ (शास्त्रार्थ) کی ایک لمبی روایت رہی ہے۔ یہ بھی ایک ’شاسترارتھ‘ ہے۔ یہ بھی ایک بحث ہے۔ اس بحث سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی آپ سے جنگ نہیں لڑ رہا ہے۔ ہمارے ساتھ دنیا کے ماہرین تعلیم اور دانشور لوگ ہیں اور صرف بات ہی تو کر رہے ہیں۔ اب کیا آپ ہمیں اپنی بات بھی رکھنے نہیں دیں گے؟ اور میری نظر میں ہندو دھرم اور ہندوتوا کو ایک ساتھ دیکھنا ایک عجیب سی بات ہے۔

تو کیا ہندوتوا، ہندو دھرم سے الگ کوئی چیز ہے؟

بالکل! ہندوتوا کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر نے خود کہا تھا کہ ہندوازم اور ہندوتوا بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ میری نظر میں ہندوتوا ایک خاص سیاسی نظریہ ہے۔ اقتدار پر قابض ہونے کا ایک ہتھیار ہے۔ ۱۹۲۳ میں جب ساورکر نے اپنی کتاب ’ہندوتوا‘ لکھی تھی تب وہ وہی وقت تھا جب بابا صاحب امبیڈکر ہندو دھرم میں نا برابری اور ذات پات کے نظام کے خلاف عوامی تحریک شروع کر رہے تھے۔ ہندوتوا کا یہ نظریہ در اصل نا برابری کے خلاف عوامی تحریک کو کمزور کرنے، ذات پات کی کمزور ہوتی ہوئی دیوار کو مضبوط کرنے اور ورن آشرم اور برہمن ازم کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ’انسداد انقلاب‘ کی شکل میں وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کے نظریہ سازوں نے کھلے طور پر کہا اور لکھا ہے کہ ہندو دھرم ان کے ہندوتوا سے الگ ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی ہندوتوا کے سیاسی کردار پر وار کیا جاتا ہے تو وہ فوراً ہندو دھرم کے خول میں جاکر چھپ جاتے ہیں اور پھر چلانے لگتے ہیں کہ دیکھو! ہندوؤں کے خلاف عالمی سازش کی جارہی ہے۔

تو پھر اس کانفرنس سے ان کو کیا پریشانی ہے؟ اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ ہندوتوا کا جابرانہ کردار انسانوں کے درمیان نا برابری، ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم اور ظلم وزیادتی کی تاریخ اب عالمی سطح پر اجاگر ہو رہی ہے اور ان کو اپنے اس کردار کا اجاگر ہونا پسند نہیں آرہا ہے۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں اپنی تصویر روا دار، امن پسند اور اصول پسند کی حیثیت سے بنائی تھی لیکن اب ان کی حقیقی تصویر سامنے آرہی ہے۔ لوگوں کو ورنا سسٹم میں بانٹ کر ان کو تعلیم، اقتدار، جائیداد اور ہر طرح کے وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ آج بھی محروم طبقات اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ابھی بھی ملک کے کچھ علاقوں میں لوگ مندروں میں داخلے کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنی ہی شادی میں گھوڑی پر بیٹھنے سے ان کو روکا جا رہاہے، اپنے ہی گاؤں میں تالاب سے پانی پینے کے لیے ان کو جدوجہد کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنی ہی زمین پر اپنا حق حاصل کرنے کے لیے وہ مارے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تک طلبا کے ساتھ بھید بھاؤ ہو رہا ہے۔ تو یہ جو ہندوتوا کا اصلی کردار ہے، اسے اس کانفرنس کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ جبکہ ہندوتوا کے علمبردار نہیں چاہتے کہ یہ سب کچھ دنیا کے سامنے آئے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپنا جو چہرہ انہوں نے دنیا میں بنا رکھا ہے، وہ باقی رہے۔ دراصل یہ لوگ اپنی حقیقت سامنے آنے سے ڈر رہے ہیں۔ اب چونکہ اس کانفرنس سے ان کی پوری منافقت اجاگر ہو رہی ہے اس لیے انہیں اس سے تکلیف ہوئی۔

یہ کانفرنس کس نے منعقد کی تھی؟

اس میں عالمی سطح کے اکیڈمک دنیا کے متعدد یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور دانشور شامل ہیں۔ ان کا ایک ویب سائٹ ہے، اس پر تمام یونیورسٹیوں اور دانشوروں کے نام موجود ہیں۔ کانفرنس کی ساری جانکاری موجود ہے۔ اس میں شامل مقررین اور ان کے موضوعات دونوں موجود ہیں۔ ہر سیشن کی نظامت کرنے والے کا نام بھی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی بنکر میں چھپے ہوئے لوگ ہیں اور وہ کوئی سازش کر کے یہ سب کر رہے ہیں۔ چونکہ اس کانفرنس کے اعلان کے ساتھ ہی ’عدم برداشت والے‘ لوگوں کا چہرہ بے سامنے آگیا ہے ہندوتوادی اس کانفرنس کے مقررین کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ میں خود بھی ان کی دھمکیوں کا شکار ہوا۔ اس لیے دانشوروں نے فیصلہ کیا کہ ذاتی طور پر کسی ایک تنظیم یا شخص کا نام مناسب نہیں ہے۔ ویسے یہ ایک اکیڈمک کانفرنس ہے اور اس میں دنیا بھر کے دانشور شامل ہیں۔ اسے سب کی ملی جلی کوشش سمجھنا چاہیے۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی برائی ہے۔

آپ کو کس طرح سے پریشان کیا گیا؟

مجھے مسلسل یہ دھمکی دی گئی کہ میں اپنا نام اس کانفرنس سے واپس لے لوں ورنہ برے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہوں۔ بہت سارے لوگوں نے سوشل میڈیا، ای میل اور یہاں تک کہ کال کر کے طرح طرح کی باتیں کہیں۔ کہا گیا کہ تمہارے لیے اسامہ بن لادن بن جائیں گے، تم کو اڑا دیں گے، گولی مار دیں گے وغیرہ۔ کوئی کیپٹن اجیت ہیں جو کسی کلکی آرمی سے منسلک ہیں انہوں نے بھی مجھے دھمکی بھرا ای میل کیا، ان کے حامیوں نے ہر جگہ خوب گالی گلوج کی جس کے وہ ماہر ہیں۔ یونائٹیڈ ہندو فرنٹ کے عالمی صدر جئے بھگوان گوئل کا بھی ایک دھمکی بھرا خط ملا۔ میڈیا میں نہ جانے میرے بارے میں کیا کیا باتیں کہی گئیں۔ لیکن میں ان کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔

ہفت روزہ دعوت کے قارئین سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

مجھے لگتا ہے کہ یہ دنیا کے تمام مظلوم معاشروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ آج تمام مظلوموں اور محروموں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ اس کانفرنس میں ہندو سماج کے مظلوم ومحروم طبقات نے اپنی بات رکھی۔ اس وقت تمام انسانیت نواز لوگوں کو ساتھ ہو جانا چاہیے۔ اور ہم تو ہمیشہ سے ہی دنیا کے تمام مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں، چاہے وہ فلسطین کے مظلومین ہوں یا کہیں اور کے ہم سب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے میں آپ کو بھی بہوجن آندولن کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم دکھانا ہو گا۔ یہ وہ وقت ہے جب سیاسی ہندوتوا کا پرتشدد چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ آپ نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نافذ کرتے وقت کی ان کی نیت کو بھانپ لیا تھا اور ان کے ظلم کو بھی آپ نے برداشت کیا ہے۔ اگر میں سچ کہوں تو آپ نے جس وسیع پیمانے پر سی اے اے کی مخالفت کی وہ یقیناً آزادی کے بعد اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کی سب سے بڑی عدم تشدد پر مبنی تحریک تھی۔ اس تحریک نے ملک کے دیگر طبقوں کو جدوجہد کی ایک راہ دکھائی ہے۔ ایسے میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب متحد ہو کر اس خطرناک، آئین مخالف، سیکولرازم مخالف، نا انصافی اور نا برابری کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ ہندوتوادی طاقتوں کی طرف سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی جو بحث چل رہی ہے اس کی ہر طرح سے مخالفت کریں۔

***

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021