بے روزگاری اور زرعی بحران کے حل کے لیے بجٹ اصلاحات کا مطالبہ

مرکزی بجٹ 2025 سے قبل حکومت کو جماعت اسلامی ہند کی 16 نکاتی تجاویز پیش

0

نئی دلی: (دعوت نیوز نیٹ ورک)

سنبھل میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی جبرکی مذمت
سال 2025 کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سال بنایا جائے: جماعت اسلامی ہند
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مرکزی بجٹ 26-2025 پیش کیے جانے سے قبل حکومت کو ملک میں عدم مساوات کی بڑھتی ہوئی خلیج ، بے روزگاری اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے جامع و موثر اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے صحت کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد اور تعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کرنے کی تجویز پیش کی ہے، جبکہ ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کو زیادہ سے زیادہ 5 فیصد تک محدود کرنے پر زور دیا ہے۔امیر جماعت کی پیش کردہ 16 تجاویز میں سوپر امیر طبقے پر وِنڈفال ٹیکس عائد کرنا، کم از کم 30 فیصد کارپوریٹ ٹیکس نافذ کرنا، پر تعیش اور غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس (LNGT) عائد کرنا، منریگا کے بجٹ میں کی گئی 33 فیصد کٹوتی کی بحالی، شہری علاقوں میں بھی اسی طرز کے روزگار پروگرام کا آغاز اور حاشیہ پر ڈالے گئے طبقات کی ترقی کے لیے جامع اقدامات شامل ہیں۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ یہ بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیاجا رہا ہے جب ملک شدید مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ’سی ایم آئی ای‘ CMIE ڈیٹا کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 45.4 کی سطح تک پہنچ چکی ہے جبکہ تقریباً 20 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور زرعی ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو محض 2.8 رہ گئی ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی ہند عدم مساوات، بے روزگاری اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کو دور کرنے اور انصاف، مساوی ترقی اور موثر حکم رانی کے لیے بجٹ کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہماری رائے میں ہمیں سپلائی سائیڈ کی حکمت عملی سے جو بنیادی طور پر کاروبار کی ترقی اور ٹیکس کی مراعات پرمرکوز نقطہ نظر کی وکالت کرتی ہے، ڈیمانڈ سائڈ اسٹریٹجی کی طرف بڑھنا چاہیےجس کا مقصد شہریوں کی قوت خرید کو بڑھانا ، کھپت کو مضبوط کرنا اور فلاحی پروگراموں کو وسعت دینا ہوتا ہے ‘‘ ۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے مطالبہ کیا کہ ’’منریگا بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ، شہری بے روزگاری کے لیے منریگا جیسے پروگرام شروع کیے جائیں اور قابل تجدید توانائی اور زرعی شعبے کو فروغ دینے کے لیے دیہی روزگار کے مراکز قائم کیے جائیں۔ صحت عامہ پر جی ڈی پی کا 4 فیصد اور ’’ مشن شکشا بھارت‘‘ کے لیے 6 فیصد مختص کیا جائے۔ اقلیتوں اور ایس ٹی / ایس سی برادریوں کو بااختیار بنانے کے لیے منقطع اسکالرشپس بحال کی جائیں، بڑے پیمانے پر اسکل ڈیولپمنٹ زون بنائے جائیں اور زمین اور کاروباری مواقع تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے مناسب پروگرام شروع کیے جائیں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں سرکار کو قرض سے راحت، ایم ایس پی کی ضمانت، آبپاشی منصوبوں کو ترجیح دینی چاہیے، اس کے علاوہ کمزور طبقات کے لیے یونیورسل بیسک انکم ( یو بی آئی) کا مرحلہ وار آغاز ہونا چاہیے۔ محصولات کے اقدامات کو منصفانہ اور وسائل کی عادلانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کی حد 5 فیصد کی جائے ، 1000 کروڑ سے زائد دولت رکھنے والے افراد اور غیر ملکی ٹیک کمپنیوں پر ونڈ فال اور ڈیجیٹل ٹیکس لگائے جائیں اور مرکزی ٹیکسوں میں ریاستوں کا حصہ بڑھا کر 50 فیصد کیا جائے ، سی ایس آر کے اصولوں کو مضبوط کیا جائے نیز ٹیکس سے مستثنیٰ انفراسٹرکچر بانڈز متعارف کروائے جائیں” انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ان تجاویز پر عمل آوری سے ملک میں عدم مساوات، بے روزگاری، پسماندگی پر قابو پانے نیز، سب کے لیے انصاف و ترقی کو یقینی بنانے اور سرکار پر اعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی۔‘‘
شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ میں معصوم مسلم نوجوانوں کی شہادت کے بعد سنبھل میں ریاستی جبر اور مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے حکومت اترپردیش سے مطالبہ کیا کہ ان جانبدارانہ اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے سنبھل میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کو تشویشناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظالم آئینی حقوق کی خلاف ورزی اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی امتیاز کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ نومبر کے واقعے نے ریاستی جبر کا ایک واضح نمونہ پیش کیا، جس میں زندگی اور عزت کے حقوق پامال کیے گئے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ درجنوں مسلمانوں بشمول معروف رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق پر کئی مقدمات درج کیے گئے ہیں، اور یہ مقدمات بظاہر بجلی کے استعمال سے متعلق بے ضابطگیوں پر مبنی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک سیاسی مہم کا حصہ ہیں۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ شیو۔ہنومان مندر کے دوبارہ کھلنے اور 1978 کے فرقہ وارانہ فسادات کے مقدمات کو بحال کرنے کے اقدامات کشیدگی کو مزید بڑھا رہے ہیں اور خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔
سنبھل انتظامیہ کے رویہ پر بات کرتے ہوئے، جناب سعادت اللہ حسینی نے اس کو مکمل طور پر غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ پورے ملک کے لیے خطرناک مثال بن سکتی ہے۔ انہوں نے بیوروکریسی اور انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ آئین کے مطابق کام کریں اور ذاتی تعصبات سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا کہ سنبھل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے خطرناک ہے، اور اس طرح کے اقدامات کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے تمام مذاہب کے افراد سے اپیل کی کہ وہ اس کے خلاف متحد ہو کر کام کریں۔فرقہ وارانہ سیاست کے خطرات اور عوامی شعور کی اہمیت پر ایک سوال کے جواب میں، بغیر کسی سیاسی جماعت کا نام لیے انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ سیاست ملک کے وجود اور تمام شہریوں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے زور دیا کہ کوئی بھی ملک یا تہذیب لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان جماعتوں کے غلط ایجنڈے کے خلاف کھڑے ہوں اور ان کو صحیح راہ اختیار کرنے پر مجبور کریں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ان جماعتوں سے غربت، بے روزگاری اور جی ڈی پی کی ترقی جیسے اہم مسائل کے حل پر سوالات کرنے چاہئیں اور انہیں مندر-مسجد کی سیاست سے باز رہنے کی تاکید کرنی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس عوامی دباؤ کے ذریعے سیاست دانوں کو صحیح پالیسیاں اپنانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اور یہ کہ عوامی تحریک ہی ملک کے مفاد کو فوقیت دینے کا راستہ ہموار کرے گی۔
پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ "جماعت اسلامی ہند عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سال 2025 کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کا سال بنائیں۔ ہمارا ملک متنوع عقائد اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے ۔ کوئی بھی مذہب نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا۔ کچھ مفاد پرست عناصر ہماری دیرینہ روایتوں کو زک پہنچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان عناصر کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں نے ملک اور عوام کو اخلاقی، روحانی اور مادی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے ان پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے لیے ہمیں انفرادی، خاندانی اور سماجی ہر سطح پر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں متنوع نظریات و عقائد کے لوگوں کو مشترکہ بنیادوں پر متحد کرنے کی مثبت کوششیں کرنی چاہیے ۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جماعت اسلامی ہند بین المذاہب اتحاد اور امن کے لیے متعدد اقدامات کرتی رہی ہے۔ سماجی و مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے آئیں اور ملک میں امن و آشتی کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم اپنے ملک کے ہر شہری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش میں شامل ہوکر اس نئے سال کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سنگ میل بنانے میں ہمارے ساتھ دے۔
اس موقع پر نائب امیر جماعت ملک معتصم خاں نے سنبھل میں مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو بے جا طور ہراساں کرنے کے لیے سنبھل میں نئے نئے مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں ممبر پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق سمیت درجنوں مسلمانوں پر بے بنیاد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات کا سروے کرنے اور مبینہ تجاوزات کو بلڈوز کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا، ریاستی سرکار کے منفی رویہ اور سوچ کو اجاگر کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند، اترپردیش کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان منصوبہ بند منفی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرے ، قانون اور انصاف کی حکم رانی کو بحال رکھے اور سنبھل میں متاثرہ خاندانوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔ ‘‘ کانفرنس کی نظامت میڈیا ڈپارٹمنٹ کے انچارج محمد سلمان نے کی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024