آئین کا بنیادی ڈھانچہ ’نارتھ اسٹار‘ کی طرح رہنمائی کرتا ہے: چیف جسٹس آف انڈیا
نئی دہلی، جنوری 22: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ہفتے کے روز کہا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ، جو عدلیہ اور ایگزیکیٹو کے اختیارات کو الگ کرتا ہے، ایک رہنما ستارہ ہے۔
چندرچوڑ کا یہ تبصرے ہندوستان کے نائب صدر جگدیپ دھنکر کے 1973 کے کیسوانند بھارتی بمقابلہ ریاست کیرالہ کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر تنقید کرنے کے چند دن بعد آئے ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق 7-6 کی اکثریت کے ساتھ 13 ججوں کی بنچ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے لیکن وہ اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
11 جنوری کو دھنکر نے کہا تھا ’’کیا آئین میں ترمیم کرنے کا پارلیمنٹ کا اختیار کسی دوسرے ادارے پر منحصر ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی ادارہ کہہ سکتا ہے کہ اس پر ہمارے ڈاک ٹکٹ کی ضرورت ہے؟‘‘
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا 2014 میں حکومت کی طرف سے تجویز کردہ نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے فیصلے کی دنیا کی جمہوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
چندر چوڑ نے کہا ’’ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ، جیسا کہ نارتھ اسٹار، آئین کے ترجمانوں اور نافذ کرنے والوں کی رہنمائی کرتا ہے جب آگے کا راستہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، اختیارات کی علیحدگی، عدالتی نظرثانی، سیکولرازم، وفاقیت، آزادی اور فرد کے وقار اور قوم کے اتحاد و سالمیت پر مبنی ہے۔‘‘
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق چندرچوڑ نے یہ بھی کہا کہ جج کی دست کاری بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ آئین کے متن کی تشریح کرنے میں مضمر ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا کے یہ تبصرے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں مرکز اور عدلیہ کے درمیان تعطل کے درمیان آئے ہیں۔
وزیر قانون کرن رجیجو نے کئی مواقع پر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ موجودہ کالجیم نظام کو نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ سے تبدیل کیا جانا چاہیے، جسے سپریم کورٹ نے 2015 میں ختم کر دیا تھا۔
یہ قانون 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے مہینوں بعد پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔