بچپن کے صدمات وحوادث کا شخصیت سازی میں اہم کردار

ادبِ اطفال میں بچوں پر زیادتی اور اس کے تحفظات جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی ضروری

عرفان الہٰی

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں زندگی کا کوئی بھی شعبہ، صحافت یا ذرائع ابلاغ سے اچھوتا نہیں ہے۔ ادب عالیہ ہو یا بچوں کا ادب ہر صنف میں صحافت کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ ادب کو سماج کا آئینہ کہا جاتا ہے اور صحافت سماج کو آئینہ دکھانے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا موجودہ صحافت یہ فریضہ انجام دے رہی ہے اور بچوں کے ساتھ ہونے والے صدمات و حوادث پر صحافت پوری طرح سنجیدہ ہے؟ اور آخری سوال کیا ادب اطفال میں ان موضوعات کو مناسب جگہ مل پاتی ہے یا نہیں؟
مفروضہ یہی ہے کہ بچوں پر کی گئی زیادتیوں کا نتیجہ انہیں ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور سماجی طور پر متاثر کرتا ہے اور وہی حادثات صدموں میں بدل جاتے ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین تعلیم تسلیم کرتے ہیں کہ شخصیت سازی میں بچپن کا دور سب سے نازک اور حساس ہوتا ہے۔ عمر کے ابتدائی دور میں بچے کو جن حادثات و صدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اثر ان کے دل و دماغ پر عمر بھر رہتا ہے اور اس سے جڑی یادیں پوری زندگی ایک خوفناک سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
مثال کے طور پر اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر میں ایک استانی نے ایک مسلم طالب علم کی اپنے ہی اسکول کے دیگر مذہب کے بچوں سے کلاس روم میں پٹائی کرائی، اس دوران اس نے متاثرہ بچے کے مذہب کا ذکر کرتے ہوئے نازیبا تبصرے بھی کیے۔ صحافتی ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کو شہ سرخیوں میں جگہ دی لیکن کیا کسی نے سوچا کہ اس معصوم پر کیا گزری ہوگی جسے اپنے ہی ہم جماعت طلبا کے سامنے ذلیل و رسوا کیا گیا؟ کیا ہماری قومی یا علاقائی زبانوں کے ادب اطفال میں ان موضوعات پر کہانیاں یا نظمیں لکھی جا رہی ہیں؟
معاصر ادب کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوا کہ بدقسمتی سے اردو، ادب اطفال میں ان موضوعات پر بہت کم کام ہوا ہے ہمارے یہاں  آج بھی راجہ رانیوں کی مافوق الفطرت یااخلاقی کہانیوں کی کثرت ہے۔ صحافت میں آئے دن بچوں کے ساتھ گھروں اور اسکولوں میں استحصال و حوادث کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ مظفر نگر کے واقعے کے کچھ ہی دن بعد سنبھل کے اسکول میں بھی ایک  استانی نے ایک ہندو بچے کی دوسرے مذہب کے بچے سے پٹائی کروا دی اس پر صحافتی حلقوں میں پہلے سے زیادہ شدید رد عمل سامنے آیا جس پر حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے استانی کو گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اس پر ذرائع ابلاغ کے ساتھ ادبی محفلوں میں بھی ایک ہی طرح کے واقعات میں دو طرح کا رد عمل سامنے آنے پر بڑے پیمانے پر چہ می گوئیاں ہوئیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ مکتب کی تعلیم کے دوران پیش آیا موسم گرم کی تعطیل میں ایک بچے کو مقامی مدرسے میں اردو عربی کی تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا وہاں کے ایک استاد نے جنہیں سب بچے قاری صاحب کہتے طلبہ کو ایک تقریر یاد کرنے کے لیے دی ایک بچے نے تقریر سنا دی لیکن دوسرے بچے ایسا نہیں کر سکے قاری صاحب نے اس بچے کو دیگر طلبا کے منہ پر تھوکنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس بچے کو آج تک یہ واقعہ یاد ہے بلکہ اس کے ذہن سے چپکا ہوا ہے۔
دراصل اس طرح کے واقعات بچے کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں ادب اطفال کے معاصر ادیبوں کی چند تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں۔ رنگ و نسل کے امتیازات پوری دنیا میں ایک اہم مسئلہ ہیں بچوں کو بچپن سے ہی کالا یا گورا کہہ کر چڑایا جاتا ہے جس سے اکثر کالے یا سانولے رنگ کے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے جو عمر بھر پریشان کرتی ہے۔ سید اسد علی نے ’گورا کالا‘ کے عنوان سے ایک کہانی لکھی ہے جس میں کبوتر اور کوا کی زبان سے اس موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔
بچوں کے معروف ادیب پروفیسر ادریس صدیقی نے بچوں کے استحصال اور بندھوا مزدوری پر نادر کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے  ’مورو امی‘ کے نام سے اس میں ایک کہانی’ نجات‘ کے عنوان پر ہے۔ اس میں مائیکل نام کے ایک بچے کو بچپن میں ہی بندھوا مزدوری کے لیے اٹلی بھیج دیا جاتا ہے اور آخر میں وہ خودکشی کر لیتا ہے۔ اس کہانی میں ان بچوں کی جسمانی اور ذہنی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جو بچپن میں ہی بندھوا مزدوری یا کانٹریکٹ لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں، جنوبی یورپ خاص طور پر  اٹلی بھیج دیے جاتے ہیں۔ کہانی کا اصل کردار مائیکل بچپن کی اس اذیت سے تنگ ا ٓکر خود کشی کر لیتا ہے اس طرح یہ مسئلہ سرخیوں میں آ کر سیکڑوں بچوں کی نجات کا سبب بنتا ہے۔
اسی مجموعے میں ایک کہانی ہے اس کا عنوان ہے’ کوکھ کا سودا‘ یہ کہانی شیواکاشی کی ماچس صنعت میں بندھوا مزدوری کے رواج پر مبنی ہے۔ ایک مجبور ماں اپنا قرض اتارنے کے لیے کوکھ میں پلنے والے بچے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی گروی رکھ دیتی ہے۔ یہ کہانی ماں کے ساتھ ایک ایسے بچے کے نفسیاتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے جو آنکھ کھولنے سے پہلے ہی بندھوا مزدور بنا دیا گیا۔
پروفیسر ادریس صدیقی کی ایک اور کہانی ’لمس کی لذت‘ فیروز آباد کی گلاس صنعت میں بچوں کی جسمانی اذیت اور استحصال پر مبنی ہے۔ گلاس فیکٹری میں کام کرنے والے بچے آگ کی تپش، کانچ کے ٹکڑوں اور گندگی سے بے انتہا متاثر ہوتے ہیں۔ یہ کہانی بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ان کے جسمانی نفسیاتی اور ذہنی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔
بچپن میں صدمات و حوادث کے موضوع پر صحافتی ذرائع ابلاغ میں کافی مواد نشر یا شائع ہوا ہے تاہم ادب اطفال میں اس کو کم ہی موضوع بنایا گیا ۔
اردو میں اس موضوع پر بہت ہی کم ادب تخلیق ہوا ہے، مثال کے طور پر ذوالفقار بخاری نے ’ساحل دور نہیں‘ کے عنوان سے ایک کہانی لکھی ہے اس میں زہرا نام کی بچی بچپن میں ہی گھریلو نوکرانی کے کام کے دوران جنسی ہراسانی کی شکار ہوتی ہے جسے ساحل نامی تنظیم کی مدد سے بچایا گیا ہے۔ یہ کہانی گھروں میں کام کرنے کے دوران بچوں کے ساتھ ہونے والی سماجی زیادتی کو اجاگر کرتی ہے جس سے اس موضوع کا سماجی اور نفسیاتی پہلو سامنے آتا ہے۔
شجاع الدین شاہد کی ایک نظم ’ایک بچے کی خدا سے فریاد‘ بچوں کے ساتھ زیادتی کے نفسیاتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ نظم کا پہلا شعر ہے :
خدایا تو سب پہ مہربان ہے
مگر تیرا ننھا پریشان ہے
اس کہانی میں بڑی خوبصورتی سے بچوں کے دل کے ترجمانی کی گئی ہے۔
بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی مکمل یاجامع تعریف نہیں پائی جاتی ہے۔ ایک سرسری جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں پر زیادتیوں کی زمرہ بندی ابھی تک نہیں کی گئی ہے اور جتنی ہوئی ہے ان کی حدیں ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس مضمون میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ بچوں کی زیادتیوں کا ادبی رسپانس یا رد عمل بہت کم پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے ادب میں اس قسم کی کہانیوں، نظموں یا ڈراموں کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ہے ۔
صحافت میں بالخصوص اخباروں میں بچوں پر زیادتیوں کی جس طرح کی کوریج پائی جاتی ہے وہ سنسنی خیز خبروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس میں مسئلہ کی جڑ پر کوئی روشنی نہیں ڈالی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اثرات دیرپا نہیں ہو پاتے۔
اس سمت میں اس کوشش کی ضرورت ہے کہ بچوں کی زیادتیوں کی زمرہ بندی کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر ادب اطفال تخلیق کیا جائے۔
بھارت کی مختلف این جی اوز یعنی رضاکار تنظیموں نے بچوں کی زیادتیوں پر کام تو کیا ہے لیکن ان مسائل پر سماج کو بہت حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے حتی کہ ہمارے یہاں تخلیق کیا ہوا ادب اور لٹریچر بہت کم دستیاب ہے جس سے سماج میں کوئی بیداری پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس میدان میں مزید جہات پر کام کرنے کی اشد ضرورت باقی ہے۔

 

***

 بھارت کی مختلف این جی اوز یعنی رضاکار تنظیموں نے بچوں کی زیادتیوں پر کام تو کیا ہے لیکن ان مسائل پر سماج کو بہت حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں اب تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے حتی کہ ہمارے یہاں تخلیق کیا ہوا ادب اور لٹریچر بہت کم دستیاب ہے جس سے سماج میں کوئی بیداری پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس میدان میں مزید جہات پر کام کرنے کی اشد ضرورت باقی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023