نادیہ تمثال بنت محمود عثمان
مولانا جلال الدین عمریؒ کی کتاب کا حاصل مطالعہ
نادیہ تمثال بنت محمود عثمان
مولانا سید جلال الدین عمریؒ ایک جید عالمِ دین،محقق اور صاحب طرز مصنف تھے۔ مولانا کی تحریروں میں فقہی بصیرت نظرآتی ہے۔ آپ نے جن گوشوں کو اپنی تحریر وتقریر اور بحث و تحقیق کا موضوع بنایا تھا ان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر تمام فقہی مسالک سے استفادہ کیا ہے اور لوگوں کو بھی اسی کی دعوت دی ہے۔ آپ کی اسی خوبی کی وجہ سے آپ کو امت کے ہر طبقہ میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ مولانا عمریؒ نے مختلف موضوعات پر مختلف تصانیف تحریر کیں لیکن مسلم عورت ان کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا بلکہ شاید یہ ان کا پہلا انتخاب بھی تھا۔ ’عورت اسلامی معاشرے میں‘ اس موضوع پر ایک کتاب بہت پہلے 1961میں شائع ہوچکی ہے۔ مولانا مرحوم کی بہت سی تصانیف خواتین کے متعلق ہیں ان ہی میں سے ایک ’’عورت اور اسلام‘‘ بھی ہے ۔اس کتاب میں مولانا نے اسلام میں مساوات مرد و زن کے حقیقی تصور اور نظامِ خاندان میں دونوں کے درمیان تقسیم کار، ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز اس میں عورت کے کردار اور مقام کو بمع حوالۂ قرآن و سنت و فقہ وضاحتاً، مدلل اور عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔ اس تصنیف کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیاہے۔
( ۱ ) باب اول: عورت کی عظمت اور خاندان کی تعمیر میں عورت کا کردار
( ٢ ) باب دوم : مسلمان عورت گھر اور خاندان میں
( ٣ ) باب سوم : مسلمان عورت کی تاریخ، ایمان اور عبادت کے نقوشِ تاباں
( ٤ ) باب چہارم: مسلمان عورت ۔علم وفضل کے میدان میں
( ٥ ) باب پنجم :مسلمان عورت۔ دینی سماجی اور سیاسی خدمت
( ٦ ) باب ششم : دورِ حاضر میں مسلمان خواتین کی ملازمت کا مسئلہ
ان ابواب میں قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ کے مستند ماخذ کی روشنی میں تعلیم، معاشرت، معیشت، سیاست اور دعوت و تبلیغ کے میدانوں میں مسلمان عورت کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
مولانا عمریؒ دیباچہ (طبعِ اول صفحہ نمبر ٧) میں لکھتے ہیں ’’موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یا بالقصد پیدا کی جاتی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی ہے اور اس کی تگ ودو پر اتنی پابندیاں عائد کردی ہیں کہ وہ زندگی کی دوڑ میں لازماً پیچھے رہ جاتی ہے اور ہمیشہ مرد کی دست نگر رہتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے ہی سب سے پہلے مساواتِ مردوزن کا علم بلند کیا۔ اس نے کہا کہ خدا کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں اور ان کی کامیابی و ناکامی کے اصول بھی ایک ہیں۔ لیکن وہ موجودہ دور کے اس تصورِ مساوات کو غلط سمجھتاہے کہ دونوں کو ایک میدان میں کام کی اجازت ہونی چاہیے اس کے بغیر ان کے درمیان مساوات قائم نہیں ہو سکتی‘‘
مولانا عمریؒ کا اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ان اعتراضات کا مدلل اور تشفی بخش جواب دیا جائے جو موجودہ دور میں اسلام میں عورت کے مقام کے تعلق سے کیے جاتے ہیں اور بعض مسلمان خواتین بھی اسی اندیشے میں گھری رہتی ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی اور یہی اندیشے مسلمان خواتین و نو عمر لڑکیوں کے ذہن میں دشمنانِ اسلام بار بار پیدا کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت ان خیالات کے بالکل برعکس ہے اور وہ یہ ہے کہ الله رب العزت کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں اور ان کی کامیابی و ناکامی کے اصول بھی ایک ہی ہیں۔ جہاں اسلام میں مرد کو قوام کی حیثیت دی جاتی ہے وہی عورت کو شہزادیوں اور ملکہ کی طرح کا پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہ انہیں معاشی پریشانیوں سے بے فکر رکھا گیا۔ ان کی ضروریات کا سامان مہیا کرانے کی ذمہ داری ان کے سرپرستوں کو دی گئی ہے خواہ وہ بھائی باپ یا شوہر اور بیٹے کی حیثیت سے ہوں مگر وہی عورت کی ذمہ داری اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ گھر کو بہترین طریقے سے سنوار کر رکھے باپ بھائی اور شوہر کی عزت کا خیال رکھے اور اولاد کی بہترین تربیت کرے۔ اگر خواہش رکھے تو معاشی، سیاسی و تعلیمی میدان میں اپنے ہنر اور قابلیت کے جوہر دکھائے۔
اسلام نے اس تصور کو ہی ختم کردیا کہ مرد اس لیے باعزت اور سربلند ہے کہ وہ مرد ہے اور عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے کمتر اور ذلیل ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُم بِاَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ (النحل :۹۷) جو بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کروائیں گے، اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔
عورت کا میدان کار
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْ تِکُنَّ اور اپنے گھروں میں سکون سے رہو۔ (سورۃ الاحزاب :۳۳)
مطلب یہ ہے کہ عورت کا دائرہ عمل گھر ہونا چاہیے اور گھر سے باہر کی دنیا مرد کے لیے ہے۔ اس آیت میں خواتین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس پر دو اعتراضات کیے جاتے ہیں جس کا مدلل جواب مولانا عمریؒ نے دیا ہے۔
پہلا اعتراض یہ کہ عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالنے سے وہ معاشی جدوجہد نہیں کر سکے گی اور اس پہلو سے معاشرے میں اس کی حیثیت مستقل کمزور رہے گی۔
اسلام نے عورت کو معاشی جدوجہد سے باز نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے کچھ حدود متعین کیے ہیں۔ عورت ان حدود کے اندر کوئی بھی ذریعۂ معاش اختیار کر سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خانگی مصروفیات کی وجہ سے عورت کی معاشی جدوجہد پر اثر پڑسکتا ہے وہ مرد کی طرح اپنا وقت اور توانائی اس کے لیے صرف نہیں کرسکتی اس کا حل اسلام نے یہ نکالا ہے کہ وہ مرد کو اس امر کا پابند بناتا ہے کہ عورت کو معاشی ضمانت فراہم کرے اور اسکی کفالت کا بوجھ اٹھائے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالنے سے وہ اس کی چہار دیواری میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندگی کے اور گوشوں میں نہ تو اس کی صلاحیتوں کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اورنہ وہ خود فائدہ پہچانے کے موقف میں ہوتی ہے۔
اسلام کا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے کہ امورِ خانہ داری کے سوا سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اسے باہر کی دنیا کو آباد کرنے کی فکر میں اپنا گھر نہیں اجاڑنا چاہیے ۔ ہاں وہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد معاشی جدوجہد بھی کر سکتی ہے اور اپنے حالات، ذوق و رجحان کے لحاظ سے زندگی کے دوسرے میدانوں میں دلچسپی بھی لے سکتی ہے۔
مرد و عورت کا دائرہ عمل الگ ہونے کی دو وجوہات:
(۱) عفت و عصمت کی حفاظت (۲) صلاحیتوں کا فرق
عفت و عصمت:
یہ بظاہر ایک اخلاقی قدر ہے لیکن اس سے پورے معاشرے کا رخ متعین ہوتا ہے۔ مرد وعورت جب ایک میدان میں کام کریں گے تو ان کے لیے باعفت زندگی گزارنا مشکل ہوگا۔ مرد وزن کی باہمی درسگاہیں، بازاروں میں بے تکلفی اور آزادی کے ساتھ لین دین اور کاروبار خلوت وجلوت میں بغیر کسی روک ٹوک کے ملنا ان معاملات سے انسان جنسی بے راہ روی کا شکار ہوسکتا ہے۔ اور جہاں اختلاطِ مردوزن عام ہے وہاں اس کے بھیانک نتائج بھی سامنے آئے ہیں اور اس کی اصلاح دشوار ترین ہوگئی ہے یہاں تک کہ اسے ایک سماجی بیماری کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا ہے۔
صلاحیتوں کا فرق :
عورت اور مرد دونوں کی صلاحیتیں اور قوتیں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت جسمانی طور پر مرد سے کمزور ہے اور اس کے ساتھ ایسے عوارض بھی لگے ہوئے ہیں جو اسے مسلسل اور سخت محنت سے باز رکھتے ہیں اس لیے فطرت اور عدل کا تقاضہ ہے کہ عورت پر مرد سے کم بوجھ ڈالا جائے۔
’’عورت کی یہ ہرگز خیر خواہی نہیں ہے کہ اسے اس کے فطری دائرہ کار سے نکال کر غیر فطری دائرے میں پہنچادیا جائے۔ اس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے‘‘۔(صفحہ ١٨)
عورت کے لیے عزت وشرف کا مقام اس کا گھر ہے بازار نہیں۔ گھر کی اہمیت بازار اور دفتر سے کم نہیں ہے۔ عورت گھر میں جو خدمات انجام دیتی ہے وہ ان تمام کاموں سے بہتر ہے جو وہ گھر سے باہر انجام دیتی ہے۔ عورت گھر کو راحت کدہ اور سکون کا مرکز بناتی ہے۔ اولاد کی تعلیم وتربیت جو کہ انتہائی مشکل اور اہم کام ہے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھا کر جنت کو اپنے لیے لازم کرلیتی ہے اور بہترین اولاد معاشرے میں باعث شرف ہوتی ہے۔ اولاد کی بہترین تربیت خاندان والوں اور محلہ داروں کی صحیح رہنمائی کرکے بہترین معاشرہ قائم کرسکتی ہے۔
در حقیقت گھر کی تعمیر کے بغیر معاشرے کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔ اسی وجہ سے اسلام نے عورت کو اس کی تعمیر کے لیے بالکل فارغ کردیا ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ کچھ عورتوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کیا کہ مرد تو فضیلت والے اعمال اور جہاد کا ثواب حاصل کرتے ہیں، ہم کیا کریں کہ ہمیں بھی وہ ثواب ملے، جو راہِ خدا میں جہاد کرنے والوں کو ملتاہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’تم میں سے جو عورت گھر میں بیٹھی رہے گی وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا ثواب پائے گی‘‘۔ (صفحہ:۲۲)
مسلمان عورت گھر اور خاندان میں
افراد سے گھر اور گھر سے خاندان وجود میں آتاہے۔ خاندان سماج اورمعاشرے کو مستحکم، مضبوط اور پُرامن بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہوتا ہے۔ خاندان پر ہی سماج اور معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود کا انحصار ہوتا ہے۔ خاندان سماج کا پہلا ادارہ ہے۔
گھر اور خاندان میں عورت کی تین نمایاں حیثیتیں ہیں:ماں، بیوی، اور بیٹی۔ اس کی ایک حیثیت بہن کی بھی ہے۔ اسلام نے ان تمام حیثیتوں سے اسے اتنا برتر اور اونچا مقام عطا کیا ہے کہ اسلام کے حدود میں رہتے ہوئے کوئی اس سے اس کا یہ مقام رفیع چھین نہیں سکتا۔ اسلام ایسی فضا پیدا کرتا ہے کہ عورت، جس حیثیت میں بھی رہے عزت و احترام کے ساتھ رہے ۔ جب تک یہ فضا باقی ہے اس کے اعزاز و اکرام میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ ( صفحہ ۲۳)
ماں:
اسلام میں خدا اور رسول کے بعد سب سے اونچا درجہ ماں کا ہے ۔ اسلام نے ماں اور باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ (لقمان:۱۴)
ترجمہ: ہم نے انسان کو تاکید کی کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا دودھ چھوٹا۔ ہم نے حکم دیا کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی شکر بجا لا۔ میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت سے والدین کی عظمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے ماں کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے اس سے حسنِ سلوک کی تلقین کی اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے حکم کے ساتھ والدین کا شکر ادا کرنے کی تلقین بھی کی۔ اور احادیثِ رسول میں والدین کی نافرمانی کو علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت قرار دیا ہے اور ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو گناہوں کی مغفرت اور حصولِ جنت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
بیوی کے حقوق: اسلام کے نزدیک عورت کا مستقل وجود ہے۔ نکاح کی وجہ نہ تو اس کی شخصیت شوہر کی شخصیت میں گم ہو جاتی ہے اور نہ وہ اس کی محکوم اور غلام ہوتی ہے۔ شادی کے بعد جہاں وہ کچھ نئی ذمہ داریاں سنبھالتی ہے، وہیں بعض نئے حقوق کی مالک بھی ہوتی ہے۔ زوجین کا تعلق اصلاً الفت و محبت کا تعلق ہے اگر محبت کی جگہ نفرت و عداوت لے لیں تو یہ اس فطرت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔
بیٹی اور بہن :دورِ جاہلیت میں لڑکے بہت بڑا سرمایہ سمجھے جاتے تھے۔ اور ان کے وجود پر فخر کیا جاتا تھا اور لڑکیاں اہلِ عرب کے لیے ایک بوجھ تھی۔ اسلام لڑکیوں کے بارے میں جاہلیت کے بالکل برعکس تعلیم دیتا ہے اور نظرئیے پیش کرتا ہے۔
اللہ کی مرضی ہے کہ وہ جسے چاہے لڑکے دیتا ہے اور جسے چاہے لڑکیاں اور جسے چاہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے اور جسے چاہے اولاد سے محروم رکھتاہے۔ یہ سب کچھ خدا کی قدرت کے مظاہرے ہیں۔ ان میں سے کوئی صورت نہ باعثِ افتخار ہے اور نہ ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کے تین لڑکیاں یا تین بہنیں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
احادیث میں دو، تین لڑکیوں بلکہ ایک لڑکی کی پرورش پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ وﷲ، الله کا نظام خواتین کے متعلق کتنا بہترین ہے کہ جس میں بیٹی، بحیثیتِ بیٹی اور بہن رحمت اور جنت کی ضمانت ہے۔ بحیثیتِ بیوی شوہر کے لیے نصف ایمان ہے۔ اور جب عورت ماں کے درجہ کو پہنچے تو جنت ہی اس کے قدموں کے نیچے ہے۔
’’موجودہ دور میں عورت کی ترقی کا بڑا چرچا ہے، لیکن اس ’ترقی‘ کے لیے اسے بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ اس نے گھر اجاڑا اور بازاروں کو رونق دی۔ گھر اور خاندان کے کھنڈرات پر اس ترقی کا محل تعمیر ہوا۔ اس کے بالکل برعکس مسلمان خواتین نے خانگی ذمہ داریوں کو سنبھالتے اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا اپنا عہد وپیمان پورا کیا اور اس سے اپنا روحانی تعلق مستحکم رکھا۔ اس کے ساتھ علمی، سماجی اور سیاسی سطح پر اپنے نقوش چھوڑے۔ اسلامی تاریخ عورتوں اور مردوں نے مل کر بنائی ہے۔ اگر اس سے عورتوں کا حصہ نکال دیا جائے تو وہ ادھوری اور ناقص رہ جائے گی۔‘‘( صفحہ :۴۵)
چھٹی صدی عیسوی میں ہر طرف جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ہر طرف فتنہ اور خونریزی کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اس دوران حضرت محمد (ﷺ) کو نبوت کے نور سے منور اور سرفراز کیا جاتا ہے اور آپ کو نبوت ملنے کے بعد اس پر فتن دور میں رسول اللہ (ﷺ) پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک خاتون ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری تھیں جنہوں نے اپنا سارا مال اور دولت اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں خرچ کر دیا تھا۔ اور جب اسلام کی دعوت عام لوگوں تک پہنچی تو مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی اسلام قبول کیا۔ اسلام کی خاطر کئی قربانیاں دیں اپنا گھر چھوڑا عزیز واقارب سے دوری برداشت کی طرح طرح کے مصائب و آلام سے گزریں لیکن آزمائشوں کے طوفان میں پہاڑ کی طرح جمی رہیں۔ اسلام کی راہ میں پہلی شہادت کی سعادت بھی ایک خاتون حضرت سمیہؓ نے حاصل کی۔ مسلمان خواتین کی استقامت اور ثابت قدمی نے اسلام کے سخت ترین مخالفین کو اپنی جگہ سے ہلادیا اور وہ اسلام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے اور قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔
ذوق عبادت
قبول اسلام کے بعد خدا سے بندے کے تعلق کا ذکر کیا جاتا ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق کی اہم کڑی عبادت ہے۔ عبادت دین کی جان اور خدا سے بندے کے تعلق کا اظہار ہے۔ دورِ اول کے مردوں کی طرح خواتین میں بھی عبادت کا بڑا ذوق تھا۔نمازِ باجماعت میں ذوق و شوق سے شرکت کرتی خواہ وہ فجر و عشاء کی نماز ہو مگر شرکت لازمی کرتی۔ ذکر و تسبیح کا خاص اہتمام کرتی تھیں۔ قرن اولی کی خواتین نفل روزوں کی کثرت سے پابندی کرتی تھیں۔
اور انفاق کے غیر معمولی جذبہ کی حامل تھیں۔ گھر پر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتیں اگرچہ سائل کو دینے کے بعد ان کے گھر کچھ باقی نہ رہتا۔ امہات المومنین عبادات کے معاملے میں بہت نمایاں تھیں۔ بعض صحابیات و امہات المومنین اس قدر عبادت کرتی تھی کہ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں میانہ روی اور اعتدال کی تاکید فرمائی۔
مسلمان عورت علم و فضل کے میدان میں
اسلام نے علم دین کی بڑی فضیلت بیان کی، اس کے سیکھنے اور سکھانے کی انتہائی ترغیب دی اور اس کی ہر طرح ہمت افزائی فرمائی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت جلد علمِ دین کا ہر سو چرچا ہونے لگا اور بڑی بڑی علمی شخصیتیں ابھریں۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ صحابیات میں حضرت عائشہؓ کا علمی مقام سب سے اونچا تھا۔ صحابہ کرام میں بھی معدودے چند ہی کو یہ مقام حاصل رہا ہے۔ ان کے علم وفضل وبصیرت کا اس دور کے اساطینِ علم نے اعتراف کیا ہے۔ ( صفحہ ۷۷)
مسلمان عورت ۔ دینی، سماجی، سیاسی خدمات
دورِ اول کی خواتین معاشرے سے بے تعلق نہیں تھیں۔ وہ معاشرے کے مسائل میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ انہوں نے دعوت وتبلیغ، معاشرتی خدمات اور سیاسی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتیں دکھ درد میں کام آتیں محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتیں اور ان کی جو خدمت ممکن ہوتی انجام دیتی تھیں۔ اور قرن اولی کی خواتین سماجی خدمت اور اس کی فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ لیتی رہی ہیں۔جس کی مثال یوں ملتی ہے کہ دورِ رسالت میں مسجد نبوی میں منبر نہیں تھا، ایک خاتون نے رسول اللہ (ﷺ) کی اجازت سے اپنے بڑھئی غلام کے ذریعے منبر بنوایا۔ اور زبیدہ بنت جعفر نے اپنے دور میں دس میل لمبی نہر کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ مکہ والوں کو آسانی سے پانی مل سکے۔
دورِ اول کی خواتین کبھی سیاست سے غیر متعلق نہیں رہیں انہوں نے اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں، خلفا وامراء کو نصیحتیں اور مشورے دیے۔ اور حسبِ حال سیاسی خدمات سرانجام دیں۔ قرن اولی کی خواتین جہاد میں شرکت کرتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور ضرورت پڑنے پر دشمن پر حملہ آور بھی ہوتی تھیں۔ معترضین نے اسلام اور حقوقِ نسواں کے متعلق جو اعتراض کیے کہ اسلام عورت کو چہار دیواری میں قید رکھتا ہے۔ انہیں آزادی سے جینے اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا حق نہیں دیتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان خواتین دین و اخلاق، سیرت وکردار، علم و سیاست، اور تہذیب و معاشرت ہر میدان میں نمایاں رہیں اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔
مسلمان خواتین اور مسئلہ ملازمت
مولانا عمریؒ نے باب ششم میں دورِ حاضر میں مسلم خواتین کی ملازمت کا مسئلہ کے نام سے مضمون ایک سوالنامہ کے جواب میں تحریر کیا ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ کلام درج ذیل ہے۔
موجودہ دور میں جو سماجی تبدیلیاں آئی ہیں اور ضروریاتِ زندگی کا دائرہ جس طرح وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے اس میں یہ ضروری سمجھا جانے لگا ہے کہ مرد کے ساتھ عورت بھی معاشی جدوجہد میں شریک ہو۔ آج کی عورت خود بھی معاشی طور پر خود کفیل ہونا چاہتی ہے اور خاوند یا کسی دوسرے فرد پر انحصار کرنا نہیں چاہتی ۔ اسے اس کے مواقع بھی حاصل ہیں۔ آج بہت سی مسلمان خواتین خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین بھی اسی طرح سوچتی ہیں اور عملاً معیشت کے میدان میں حصہ لے رہی ہیں۔
خواتین کے کسبِ معاش کے متعلق شریعتِ اسلامی کا نظریہ
اسلام نے عورت کو معاش کی فکر سے بڑی حد تک بے نیاز رکھا ہے لیکن اس کی معاشی جدوجہد کو ناپسندیدہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ رزق کو قرآن کریم میں اللہ کا فضل گیا ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہ(الجمعہ:۱۰)
ترجمہ: پس جب نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
عورت کو بھی اللہ کا فضل تلاش کرنے کا حق ہے۔ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے خواتین کے معاشی پہلو میں ایک اہم مثال حضرت خدیجہؓ کی تجارت ہے ۔ خواتین شرعی حدود میں رہتے ہوئے ملازمت یا تجارت کرسکتی ہیں اور اس کے تین اہم اصول ہے۔
(١) مرد ہو یا عورت وہ ایسی ملازمت اختیار نہیں کرسکتے، جو شرعی نقطہ سے ناجائز ہو جیسے بینک کی ملازمت، یا شراب اور جوئے کا کاروبار، یا اسی نوعیت کے دوسرے کام جن کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
( ٢ ) عورت کو اس کے ولی یا شوہر کی اجازت حاصل ہو۔
( ٣ ) عورت اور مرد کا اختلاط نہ ہو۔ ( صفحہ ١٢٢)
***
***
’مسلمان عورت‘ ایک بہت ہی حساس موضوع ہے۔ دشمنان اسلام اس موضوع کے ذریعے اسلام کو بدنام کرتے ہیں لہذا اس تعلق سے صحیح اسلامی نظریہ کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ زیر مطالعہ کتاب اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ مولانا عمریؒ نے اس کتاب میں مسلمان عورت سے متعلق اسلام کے نظریات اور تعلیمات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023