مذہبی تہواروں کے ذریعہ مذہبی منافرت کو عروج پر پہنچانےکی کوشش!
مساجد کے سامنے اشتعال انگیزنعرے،پتھراو اور فساد ۔نوراتری و رام نومی پر ملک بھر میں فرقہ ورانہ تشدد کے ایک جیسے واقعات
افروز عالم ساحل
دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی مذہب کا کوئی بھی تہوار لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کے لیے ہوتا ہے، لیکن رام نومی کے موقع سے ملک بھر میں پر تشدد ہنگاموں ک بعد اب ہنومان جینتی کے دن دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہندوستان کے تہوار اب لوگوں میں نفرت اور خوف بھرنے کا کام کر رہے ہیں۔
16 اپریل ہفتہ کی شام ہنومان جنم اتسو کے دوران دہلی کے جہانگیر پوری کے علاقے میں دو فرقوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا۔ یہ واقعہ شام پانچ بجے کے قریب کشال سنیما کے قریب ہوا، جس کے بعد وہاں موجود کئی گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، اس تشدد میں پولیس اہلکاروں سمیت کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ میڈیا کے بڑے حصے نے اس تشدد کی اصل وجہ ہنومان جنم اتسو کے موقع سے نکالی گئی ’شوبھا یاترا‘ پر پتھراؤ بتائی ہے۔ اس تشدد پر دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کے کیے گئے ٹویٹ سے یہی لگتا ہے کہ اس کی اصل جڑ جلوس پر مبینہ طور پر پتھراؤ ہی ہے۔
سی ایم کیجریوال نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے، ’دہلی کے جہانگیر پوری میں شوبھا یاترا میں پتھراؤ کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جو بھی مجرم ہیں ان پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر امن بنائے رکھیں۔‘
لیکن جہانگیر پوری کے مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ شوبھا یاترا میں شامل ہندو ہجوم نے جہانگیر پوری کی جامع مسجد میں گھس کر بھگوا پرچم لگانے کی کوشش کی۔ ایک ویڈیو میں مسجد کے احاطے میں ’جئے شری نام‘ لکھا ہوا بھگوا پرچم آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اروند کیجریوال اور میڈیا اسے ’شوبھا یاترا‘ بتا رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر موجود پوسٹر بتاتے ہیں کہ یہ ’وشال بھگوا یاترا‘ تھی اور اس کا اعلان ’انتر راشٹریہ ہندو پریشد اور راشٹریہ بجرنگ دل نے کیا تھا۔
جہانگیر پوری کے علاقے میں رہنے والے آزاد صحافی شنکر کمار سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ ’میں دہلی کے جہانگیر پوری کے اسی علاقے میں رہتا ہوں جہاں آج فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہ فسادات پوری طرح سے منصوبہ بند تھے، جسے وی ایچ پی، بی جے پی اور بجرنگ دل جیسی ہندوتوادی تنظیموں نے انجام دیا تھا۔ ہنومان جینتی کا جلوس انہوں نے ہندو اکثریتی علاقوں کے بجائے جان بوجھ کر مسلم اکثریتی علاقوں اور مسجدوں کے سامنے سے نکالا تاکہ فساد برپا کیا جا سکے۔ شوبھا یاترا کے دوران انہوں نے قابل اعتراض گانے بجائے، مسجد کے سامنے کھڑے ہو کر قابل اعتراض نعرے لگائے اور مسلم کمیونٹی کو گالیاں دے کر مشتعل کیا۔ اسی دوران مسلم کمیونٹی کی طرف سے اعتراض کرنے اور سڑک پر نکل کر مخالفت کرنے پر شوبھا یاترا کے اندر سے پتھر پھینکے گئے، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طرف سے سنگ باری شروع ہو گئی۔‘
شنکر کمار لکھتے ہیں کہ ’جن مسلم اکثریتی علاقوں سے شوبھا یاترا نکالی گئی وہاں زیادہ تر بہت ہی غریب مسلمان رہتے ہیں، جو سبزی بیچنے سے لے کر سلائی اور کوڑا چن کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں، ’اس واقعہ کو ٹھیک اسی طرح انجام دیا گیا جیسے نوراتری اور رام نومی کے موقع پر راجستھان، گجرات، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور یو پی وغیرہ میں انجام دیا گیا، یعنی مسلمانوں پر قابل اعتراض نعرے لگائے گئے اور انہیں گالیاں دی گئیں۔ جس طرح سے ملک میں ہندو تہواروں پر کچھ عرصے سے ہندوتوادی تنظیمیں شوبھا یاترائیں نکال کر فساد برپا کر رہی ہیں، اس سے سوال اٹھتا ہے کہ یہ شوبھا یاترائیں ہیں یا دنگا یاترائیں جو پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک رہی ہیں‘؟
دہلی کے علاوہ آندھرا پردیش اور اتر اکھنڈ میں بھی فرقہ تشدد بھڑکانے کی کوششیں کی گئیں۔ آندھرا پردیش کے ہولاگنڈہ میں ہنومان جینتی کے موقع پر ہندوتوادی تنظیموں نے جلوس نکالا تھا۔ یہاں بھی یہی الزام ہے کہ جب انہوں نے ایک مسجد کے قریب نعرے لگائے اور تیز آواز میں میوزک بجانا شروع کیا تو ان کے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا، جس کے بعد تشدد برپا ہوا۔ ایک خبر کے مطابق رپورٹ لکھے جانے تک 20 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ وہیں اتر اکھنڈ کے شہر روڑکی میں بھی جلوس پر پتھراؤ کا الزام ہے، جس کے نتیجے میں تشدد برپا ہوا۔ روڑکی کے بھگوان پور میں ہونے والے اس تشدد میں دس افراد زخمی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ دو کو آگ لگا دی گئی۔ ایک خبر کے مطابق اس واقعے کے نتیجے میں پوری ریاست کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
نوراتری اور رام نومی کے بہانے کہاں کہاں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد؟
نوراتری اور رام نومی تہوار کے موقع پر ملک کی مختلف ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے۔
ان واقعات کی وجہ سے ایک شخص ہلاک، درجنوں افراد زخمی اور درجنوں گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی جس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ ہفت روزہ دعوت نے کچھ خاص واقعات کی فہرست کو مرتب کیا ہے۔
گجرات :
کھمباٹ : گجرات کے ضلع آنند کے قصبہ کھمباٹ میں رام نومی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد ہوا، جس میں پولیس کے مطابق ایک نامعلوم شخص کی جان چلی گئی، وہیں ایک شدید طور پر زخمی بھی ہوا۔ مرنے والے شخص کی عمر تقریباً 65 سال ہے۔ خبروں کے مطابق شر پسندوں نے کئی دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ کارروائی کے نام پر یہاں کی ضلع انتظامیہ نے شکر پورہ علاقے میں جہاں تشدد برپا ہوا تھا وہاں بلڈوزر چلوا دیا ہے۔ ضلع آنند کے کلکٹر ایم وائی دکشنی کے مطابق، ’غیر قانونی قبضے‘ سمیت لکڑی اور کنکریٹ کی ’غیر قانونی تعمیرات‘ سڑکوں کے کنارے کھڑی جھاڑیوں پر بھی بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، کیونکہ رام نومی کے موقع پر جلوس پر پتھراؤ کرنے کے بعد شرپسند انہی جھاڑیوں میں چھپ گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ شر پسندوں نے جھاڑیوں کی آڑ میں چھپ کر جلوس پر حملہ کیا تھا۔ اسی لیے ہم نے شکر پورہ میں سڑک کے کنارے کی جھاڑیوں اور سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پورے علاقے کو کلیئر نہیں کر دیا جاتا۔
وہیں ضلع آنند کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجیت راجیان کا کہنا ہے کہ یہ تشدد قصبہ میں مسلمانوں کا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے ’سلیپر ماڈیول‘ کی سازش کا حصہ تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق پولیس نے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں متعدد ایف آئی آر درج کی ہیں اور 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، جن میں کچھ مولوی بھی شامل ہیں، جنہیں پولیس نے اس فرقہ وارانہ تشدد کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔۴
ہمت نگر : گجرات کے ضلع سابر کنٹھا میں واقع اس شہر میں بھی رام نومی کے جلوس کے بہانے فرقہ وارانہ تشدد ہوا۔ یہاں بھی یہی کہا گیا کہ کچھ شر پسندوں نے جلوس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے بعد یہ ہنگامہ برپا ہوا۔ شر پسندوں نے سڑک پر کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کئی مسجدوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
دوارکا : گجرات دیو بھومی دوارکا میں رام نومی کے دن سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں کچھ نوجوانوں کے ذریعہ بھگوا پرچم کو جلاتے ہوئے دکھایا گیا، اس کے بعد یہاں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں۔ دوارکا کے ایس پی نتیش پانڈے کے مطابق جھنڈا جلانے والے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
باردولی: رام نومی کے موقع سے گجرات کے ضلع سورت کے باردولی میں بھی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جہاں مسجدوں کے باہر رام نومی کے جلوسوں میں شامل لوگوں نے ہنگامہ کیا تھا۔
گجرات کے ان چاروں واقعات میں خاص طور پر ہندی اخباروں کی رپورٹنگ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان سب کے لیے صرف اور صرف مسلمان ذمہ دار تھے اور انہوں نے ہی منصوبہ بند طریقے سے رام نومی کے جلوسوں پر پتھراؤ کیا۔ کچھ اخبارات نے یہ بھی لکھا کہ ان مقامات پر تشدد ہوا جہاں کانگریس پارٹی نسبتاً زیادہ مضبوط ہے۔
مدھیہ پردیش :
کھرگون : مدھیہ پردیش کے شہر کھرگون میں رام نومی جلوس کے دوران دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے اور کم از کم دس مکانات کو آگ لگا دی گئی۔ یہاں بھی یہی کہانی دہرائی گئی کہ تشدد کا یہ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب لوگوں نے مبینہ طور پر رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کیا۔ تشدد کا واقعہ تالاب چوک کے علاقے میں پیش آیا۔ اس کے بعد شہر کے گوشالا مارگ، تابڑی چوک، سنجے نگر اور موتی پورہ علاقوں میں بھی کئی جھڑپیں ہوئیں۔ بتادیں کہ اس دن بی جے پی نیتا کپل مشرا کھرگون میں تھے، اور انہوں نے رام نومی کے جلوس میں حصہ لیا تھا۔ اس نے جلوس کی ایک تصویر اس کیپشن کے ساتھ شیئر کی تھی، "نہ موسیٰ نہ برہان، صرف جئے جئے شری رام”۔ سوشل میڈیا پر ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ یہی نعرے لگا رہے ہیں اور لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں جبکہ مدھیہ پردیش پولیس نے مشرا پر تشدد میں ملوث ہونے کا کوئی الزام نہیں لگایا ہے۔
سینڈوا : ضلع بڑوانی کے قصبہ سینڈوا میں بھی مبینہ طور پر رام نومی کے جلوس پر حملے کا الزام ہے۔ اس تشدد میں دو پولیس والوں سمیت سات افراد زخمی ہو گئے۔ یہاں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں بائیک جلانے کے الزام میں تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ رام نومی کے اگلے ہی روز ان میں سے ایک کے گھر کو انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیر قرار دے کر توڑ دیا۔ اور اب میڈیا کے ذریعہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ تینوں ملزمین قتل کی کوشش کے ایک مقدمے میں مارچ سے ہی جیل میں بند ہیں۔
مدھیہ پردیش میں رام نومی جلوس کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعہ کے ایک دن بعد ہی کھرگون کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کے پانچ علاقوں میں مکانوں اور دکانوں کو مسمار کرنے کی مہم شرو ع کر دی۔ یہ مکانات اور دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔ اب تک کم از کم 45 مکانوں اور دکانوں کو مسمار کیا جاچکا ہے، جن میں 16 مکانات اور 29 دکانیں شامل ہیں۔
جھارکھنڈ :
لوہردگا : جھارکھنڈ کے ضلع لوہردگا میں رام نومی جلوس کے ذریعہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں ایک شخص کی موت اور درجنوں شدید زخمی ہوئے۔ تشدد کے اس واقعہ کے بعد سے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور انٹرنیٹ سروس پر بھی پابندی عائد ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی طرح کی پوسٹ کرنے پر پابندی عائد ہے خلاف ورزی کرنے پر سخت کارروائی کرنے کی وارننگ دی گئی ہے۔
بوکارو: جھارکھنڈ کے ضلع بوکارو کے برمو علاقے میں بھی رام نومی جلوس کے دوران تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے علاوہ جھارکھنڈ کے مزید کچھ علاقوں میں تشدد کے واقعات دیکھے گئے۔ یہاں پی جے پی کا الزام ہے کہ حکومت کا مسلمانوں کے تشٹیکرن کی وجہ سے ایسا ہوا ہے اور ریاست میں ’سلیپر سیل‘ پہلے سے رام نومی جلوسوں پر حملے کی تیاری کر رہی تھی۔ حکومت کو اس کی جانچ کروانی چاہیے۔ ادھر حکومت نے لوہردگا معاملے میں ایس آئی ٹی جانچ کا حکم دے دیا ہے۔
بہار :
بہار کے اضلاع اورنگ آباد، نوادہ اور روسڑا میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے سامنے آئے۔ ایک خبر کے مطابق بہار حکومت نے رام نومی کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کا اعلان کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے روسڑا میں واقع گدری مسجد اور مدرسہ ضیا العلوم کے لیے 2.13 لاکھ روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اورنگ آباد میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے 25.20 لاکھ روپے اور نوادہ کے چھ متاثرہ کنبوں کے لیے 8.5 لاکھ روپے کی رقم مختص کی ہے۔
بہار سے ہی دو ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئے جن میں کچھ شر پسند مسجد کی مینار پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لگا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو ضلع مظفرپور کے گاؤں محمدپور کی بتائی جا رہی ہے۔ مظرپور کی ہی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں شر پسند عیدگاہ کی مینار پر بھگوا جھنڈا رہے ہیں۔ ایک ویڈیو ایسی بھی ہے جس میں جلوسی مسجد کے باہر کھڑے ہو کر ڈی جے پر ڈانس اور نعرے بازی کر رہے ہیں اور مسجد کے امام کھڑکی سے چھپ کر انہیں دیکھ رہے ہیں۔
مغربی بنگال :
مغربی بنگال کے ضلع ہاوڑہ کے شبپور علاقے میں وشو ہندو پریشد کی ریلی کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔ اس تشدد میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ کئی گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ تاہم پولیس نے صورتحال پر قابو پا لیا۔ ایسا ہی واقعہ بنکورا شہر میں بھی ہوا۔ یہاں رام نومی کے جلوس کے پر تشدد ہونے کے بعد تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ یہ تشدد شہر کے منچنتلا علاقے میں پیش آیا۔ تاہم بنگال کی پولیس نے اس سلسلے میں بی جے پی کے کم از کم 17 کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
کرناٹک :
کرناٹک کے اضلاع گلبرگہ، رائچور، کولار اور دھارواڑ کے کئی علاقوں میں بھی رام نومی جلوسوں کے دوران مساجد اور مسلمانوں کی دکانوں اور عمارتوں میں توڑ پھوڑ کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں بھی باقی ریاستوں کی طرح یہی الزام ہے کہ شوبھا یاترا پر مسلمانوں نے پتھراؤ کیا، جس سے مشتعل ہو کر یاترا میں شامل لوگوں نے تشدد کیا۔
گوا:
گوا کے شہر واسکو کے علاقہ بینا میں بھی رام نومی جلوس کی وجہ سے تشدد کا معاملہ سامنے آیا۔ یہاں بھی تشدد کا وہی طرز بتایا گیا۔ ہر جگہ کی طرح وہی الزام کہ جلوس پر مبینہ طور پر پتھراؤ کیا گیا جواب میں انہوں نے مقامی اسلام پورہ کی مسجد پر حملہ کیا، جبکہ مسلمان مسجد کے اندر افطار کر رہے تھے۔
اڑیسہ :
اڑیسہ کے ضلع کیونجھر کے قصبہ جوڈا میں رام نومی جلوس کے بہانے تشدد بھڑکایا گیا، جس میں کم از کم چھ افراد شدید طور پر زخمی ہوئے۔ یہاں بھی وہی پیٹرن نظر آیا، جو باقی ریاستوں میں نظر آیا۔ یہاں بھی وہی الزام کہ رام نومی کے جلوس پر مسلمانوں نے حملہ کیا۔ تاہم انتظامیہ نے اس واقعے کے فوراً بعد دفعہ 144 لگاتے ہوئے انٹرنیٹ سروس کو معطل کردیا۔
مہاراشٹرا :
ممبئی میں بھی رام نومی کے موقع سے فرقہ وارانہ تشدد کے دو واقعات رپورٹ ہوئے، پہلا واقعہ مانکھرد میں پیش آیا، جہاں تقریباً 25 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، وہیں دوسرا واقعہ مالوانی میں پیش آیا، جہاں پولیس کی اجازت کے بغیر جلوس نکالا گیا اور ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس معاملے میں ممبئی پولیس نے بی جے پی اور بجرنگ دل کے 25 کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
نئی دلی :
نئی دلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں نوراتری کے موقع پر کھانے میں گوشت دیے جانے پر یہاں کی اسٹوڈنٹس یونین اور بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کے درمیان تنازعہ نے تشدد کی شکل اختیار کرلی جس میں کم از کم 16 طلبہ زخمی ہوئے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022