ہمنتا بسوا سرما کا کہنا ہے کہ مُکروہ میں آسام پولیس کی فائرنگ اپنے دفاع میں کی گئی تھی

نئی دہلی، دسمبر 25: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہفتہ کو اسمبلی میں کہا کہ گذشتہ ماہ آسام پولیس کی فائرنگ، جس میں ریاست کی میگھالیہ کے ساتھ سرحد پر واقع ایک گاؤں میں چھ افراد کی موت ہوئی تھی، اپنے دفاع میں کی گئی تھی۔

آسام پولیس کی فائرنگ میں 22 نومبر کو میگھالیہ کے پانچ باشندوں اور آسام فاریسٹ گارڈ کے ایک اہلکار کی موت ہو گئی تھی۔ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ سنگما نے دعویٰ کیا تھا کہ فائرنگ ان کی ریاست کے مغربی جینتیا ہلز ضلع کے مکروہ گاؤں میں ہوئی۔ سنگما نے کہا تھا کہ آسام پولیس اور آسام فاریسٹ گارڈ کے اہلکاروں نے ان کی ریاست سے لکڑی لے جانے والے ٹرک کو مکروہ میں حراست میں لینے سے پہلے اس کا پیچھا کیا۔

تاہم آسام میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ گاؤں ان کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے اور فائرنگ میں صرف چار افراد ہلاک ہوئے۔

ہفتہ کے روز آسام اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سرما نے، جو ریاست کی وزارت داخلہ بھی رکھتے ہیں، کہا کہ آسام کے جنگلات کے ایک اہلکار کو ’’میگھالیہ کے شرپسندوں نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا‘‘۔

انھوں نے مزید کہا ’’…اس کے بعد پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جو کہ اپنے دفاع اور سرکاری املاک کے تحفظ کے لیے کی گئی تھی۔‘‘

سرما کے یہ تبصرے شوٹنگ کے ایک دن بعد دیے گئے ان کے بیانات کے برعکس ہیں، جب انھوں نے کہا تھا کہ پولیس کی کارروائی غیر ضروری اور بلا اشتعال تھی۔

تاہم ہفتہ کے روز مغربی کاربی انگلونگ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سرما نے کہا کہ میگھالیہ کے دیہاتیوں نے آسام کے اہلکاروں کو ’’گھیر لیا اور حملہ کیا‘‘ اور تین لکڑی کے اسمگلروں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

دونوں ریاستوں کے درمیان علاقائی تنازعات اس وقت شروع ہوئے تھے جب 21 جنوری 1972 کو آسام تنظیم نو قانون 1971 کے تحت میگھالیہ کو آسام سے الگ کر دیا گیا تھا۔ میگھالیہ کی جانب سے اس قانون کو چیلنج کرنے کے بعد تنازعات پیدا ہوئے۔