آسام: جیل میں قید کارکن اکھل گوگوئی نے ایم ایل اے کے عہدے کا حلف لیا، اسمبلی میں ہراساں کیے جانے کا الزام

نئی دہلی، مئی 22: قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی عدالت کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد جیل میں قید سماجی کارکن اکھل گوگوئی نے جمعہ کے روز آسام اسمبلی میں رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف لیا۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق گوگوئی، جنھوں نے حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں سبساگر حلقہ میں کامیابی حاصل کی تھی، آسام کی تاریخ کے پہلے ایسے شخص ہیں جنھوں نے جیل میں رہتے ہوئے الیکشن میں جیت حاصل کی۔

45 سالہ گوگوئی دسمبر 2019 کے بعد سے جیل میں ہیں، جب انھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق فی الحال وہ گوہاٹی میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

دریں اثنا گوگوئی نے الزام عائد کیا کہ حلف برداری سے قبل انھیں سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ہراساں کیا گیا۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین کے ذریعے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں گوگوئی کو کسی نامعلوم شخص کے ذریعے ہراساں کیے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

گوگوئی نے ویڈیو میں کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’یہ آسام کے لوگوں کی توہین ہے۔ وہ یہ کیسے کرسکتے ہیں؟ میرا ٹیسٹ کیا گیا ہے لیکن کیا آپ کا کوویڈ ٹیسٹ کیا گیا ہے؟ وہ اسمبلی کے اندر کسی ایم ایل اے کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

دلت حقوق کے کارکن اور گجرات کے وڈگام سے آزاد ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے ایک منتخب نمائندے کے ساتھ ایسا سلوک کرنے پر آسام حکومت کی تنقید کی ہے۔

گوگوئی علاقائی پارٹی رائجور دل کے صدر ہیں لیکن انھوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ انھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سربھی راج کنواری کو 11،875 ووٹوں سے شکست دی۔

معلوم ہو کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے بعد گوگوئی کو 12 دسمبر 2019 کو احتیاطی حراست میں لیا گیا تھا۔ قومی تفتیشی ایجنسی نے کہا تھا کہ گوگوئی پر ’’قوم کے خلاف جنگ چھیڑنے‘‘، سازش اور فساد برپا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے تین دن بعد گوگوئی پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔

11 دسمبر 2019 کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت ترمیمی ایکٹ، بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی چھ اقلیتی مذہبی جماعتوں کے مہاجرین کو مذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرتا ہے۔ اس میں مسلمانوں کو نظر انداز کیے جانے پر اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا۔ کیوں کہ ناقدین کا خیال ہے کہ سی اے اے کو این آر سی کے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے حقوق چھیننے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

گوگوئی کو اکتوبر میں ضمانت مل گئی تھی اور گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپریل میں یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ تاہم تفتیشی ایجنسی کے ذریعہ گوگوئی کے خلاف درج ایک اور مقدمے میں ابھی انھیں ضمانت ملنا باقی ہے۔