آسام: کربی اینگلونگ ضلع میں تقریباً 70 خاندانوں کو بے دخل کیا گیا، مقامی لوگوں نے کیا احتجاج

نئی دہلی، جنوری 31: آسام کے کربی اینگلونگ ضلع کے لہوریجان علاقے میں اتوار کو تقریباً 70 خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں نے احتجاج کیا۔ پولیس نے کہا کہ انھوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پشپا راج سنگھ نے بتایا کہ ’’کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن ایک پولیس اہلکار شدید زخمی ہوا۔‘‘ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے پتھراؤ کے بعد مقامی لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے ’’ہلکی طاقت‘‘ کا استعمال کیا۔

بے دخلی کی مہم اتوار کو کربی اینگلونگ اوٹونومس کونسل کے حکم پر شروع ہوئی، جس کے پاس علاقے میں زمینی محصولات کے معاملات بشمول مبینہ تجاوزات کو بے دخل کرنے کے انتظامی اختیارات ہیں۔

کونسل نے بلیجن سی گاؤں سے تقریباً 100 خاندانوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کی وجہ سے 34 گھرانوں کو اس مہم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔

یہ علاقہ ناگالینڈ اور آسام کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ باشندے بنگالی بولنے والے مسلمانوں اور ناگاؤں پر مشتمل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ 30 سال سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس تمام ضروری دستاویزات ہیں۔

گاؤں کے چیئرپرسن کے آئے نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’ہم نے کونسل سے کچھ وقت کی درخواست کی تھی، لیکن انھوں نے بہرحال زبردستی بے دخلی کی۔ اب ہمارے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

گاؤں کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ خان بستی کے رہائشیوں کا 80 فیصد حصہ ناگا برادری سے ہے جو کہ بلیجن سی کا حصہ ہے۔ رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ زمین حاجی منی گل خان کی اولاد سے خریدی تھی، جنہوں نے 1910 میں گاؤں قائم کیا۔

ناگا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر کیگوے ہن تیپ نے کہا ’’دیہاتی یہ دعویٰ نہیں کر رہے ہیں کہ یہ مخصوص علاقہ متنازعہ ہے یا یہ ناگالینڈ کا ہے۔ یہ زمین آسام کی ہے، لیکن وہاں رہنے والے ناگاؤں نے یہ زمین پیسوں سے خریدی ہے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی ہیں، وہ بل ادا کرتے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔‘‘

ناگا اسٹوڈنٹس فیڈریشن، ناگاؤں کی ایک طلبہ تنظیم، نے بھی کونسل کو خط لکھ کر ان سے بے دخلی نہ کرنے کو کہا تھا۔

جنوری میں ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیپھیو ریو نے بھی اپنے آسام کے ہم منصب ہمنتا بسوا سرما کو خط لکھا تھا، جس میں ان پر زور دیا تھا کہ ’’کربی اینگلونگ کے ناگا باشندوں کی جان و مال کی حفاظت سماجی انصاف اور دونوں ریاستوں کے درمیان اچھی ہمسائیگی کے رشتوں کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے۔ ‘‘

پیر کے روز کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ممبر تلی رام رونگھانگ نے کہا کہ انھوں نے بےدخلی مہم پر ایک جائزہ اجلاس منعقد کیا تھا۔ انھوں نے ٹویٹر پر کہا ’’بے دخلی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ علاقے سے تمام غیر قانونی آباد کاروں کو ہٹا نہیں دیا جاتا۔ بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن کو ایک انچ بھی گھیرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

لہوریجن کے علاقے سے بے دخلی کی یہ تیسری مہم ہے۔ پہلے دو کوششیں دسمبر میں کی گئی تھیں۔

آسام حکومت ان لوگوں کی اراضی کو خالی کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بے دخلی مہم چلا رہی ہے جن کو اس نے ’’تجاوزات‘‘ کا نام دیا ہے۔ جن لوگوں کو بے دخل کیا گیا ہے یا خالی کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے ان میں سے بہت سے غریب مسلمان ہیں جنھوں نے پہلے سیلاب اور کٹاؤ میں زمین کھو دی تھی۔

ان میں سے ایک مہم کے دوران 23 ستمبر کو آسام کے درنگ ضلع کے سپاجھر علاقے میں پولیس کی فائرنگ میں ایک 12 سالہ بچے سمیت دو شہری مارے گئے۔ یہ اس ہفتے بڑے پیمانے پر بے دخلی کی دوسری مہم تھی۔

نومبر میں آسام حکومت نے ہوجائی ضلع کے لمڈنگ ریزرو جنگل میں بھی بے دخلی مہم چلائی تھی۔