اشوکا یونیورسٹی تنازعہ: 326 ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں لبرل سوچ کی حامل نہیں ہیں
نئی دہلی، اگست 21: 326 ماہرین تعلیم کے ایک گروپ نے اتوار کے روز کہا کہ اشوکا یونیورسٹی کا 2019 کے انتخابات میں انتخابی ہیرا پھیری کے بارے میں ماہر معاشیات سبیاساچی داس کی تحقیق سے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اپنے تمام دعووں کے باوجود، نجی یونیورسٹیاں لبرل سوچ کی بنیاد پر کام نہیں کرتی ہیں۔
داس نے اس ماہ کے شروع میں سونی پت کی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جب ان کے تحقیقی مقالے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ڈیموکریٹک بیک سلائیڈنگ‘‘ پر سوشل ردعمل سامنے آیا تھا۔ تحقیقی مقالے میں انھوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں انتخابی ہیرا پھیری کے امکان کو تلاش کیا تھا۔
یونیورسٹی نے خود کو اس تحقیقی مقالے سے یہ کہتے ہوئے بھی الگ کر لیا تھا کہ اس نے تنقیدی جائزے کا عمل مکمل نہیں کیا تھا اور اسے کسی تعلیمی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا تھا۔ وائس چانسلر سومک رائے چودھری نے کہا تھا کہ داس کی تحقیق کو بہت سے لوگوں نے یونیورسٹی کے خیالات کی عکاسی کے طور پر سمجھا ہے۔
اتوار کو 326 ماہرین تعلیم نے کہا کہ واقعات کی ترتیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو چیز داؤ پر لگی تھی وہ اس مقالے کی تعلیمی قابلیت نہیں تھی، بلکہ اس سے حکمران جماعت کو لاحق خطرہ تھا۔ ماہرین تعلیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس مقالے کا کوئی تفصیلی علمی کاؤنٹر نہیں ہے، صرف عوام میں ایڈ ہومینیم حملے ہیں۔‘‘
انھوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اشوکا یونیورسٹی کے کئی شعبوں نے بعد میں داس کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور ان کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
ماہرین تعلیم نے داس کی فوری بحالی اور یونیورسٹی میں تعلیمی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا۔
داس کی تحقیق 25 جولائی کو سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک پر شائع ہوئی تھی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ جن حلقوں میں بی جے پی اور حریف پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا وہ غیر متناسب طور پر سابقہ نے جیتے۔ یہ اثر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھا۔