عربی زبان وادب میں حصول ِ مہارت ۔چند نسخے

مدارس کے طلبا و طالبات کے لئے عربی زبان دانی میں روانی پیدا کرنا بہت آسان ہے

ابو سعد اعظمی 

فہمِ قرآن اور نصوصِ شرعیہ کی تفہیم کیلئے عام مسلمان کو بھی عربی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے
مسلمانوں کی عربی زبان و ادب سے محبت فطری ہے۔ عربی زبان کے امتیاز کے لیے یہ کافی ہے کہ اس زبان میں قرآن کریم کا نزول ہوا جس کی تلاوت سن کر فصحائے عرب بھی حیرت زدہ رہ گئے اور قرآن کریم کے بار بار چیلنج کے باوجود وہ اس جیسی ایک سورت بھی نہ پیش کرسکے۔ عربی زبان وادب کا ذوق جس قدر اعلیٰ ہوگا، قرآن کریم کی فصاحت وبلاغت اتنا ہی واضح ہوتی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شعراء عرب نے جب قرآن کریم کی آیات سنیں تو اس کے اسلوب سے دنگ رہ گئے اور شعر گوئی سے توبہ کرلی۔
فہم قرآن وحدیث کے لیے عربی زبان وادب کی ہمیشہ سے غیر معمولی اہمیت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے شروع سے ہی اس کے سیکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ اعجازِ قرآن کی وضاحت کے لیے باقاعدہ فن بلاغت وجود میں آیا اور قدیم علماء نے اس کی متعدد شاخیں متعین کر کے بلاغت کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا۔ ہندوستان میں مدارس کے قیام سے پہلے ہی سے عربی زبان وادب سیکھنے سکھانے کا انتظام چلا آرہا تھا۔ مدارس اسلامیہ کے قیام کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا اور اطفال و نونہالانِ ملت کو عربی سکھانے اور ان میں عربی ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے متعدد اہم درسی کتابیں تیار کی گئیں نیز طلبا کو زبان آشنا بنانے کے لیے عمدہ سے عمدہ کورسز تیار کیے گئے جن میں جاہلی ادب، معلقات، جمہرۃ خطب العرب، حماسۃ ابی تمام وغیرہ کے علاوہ شعر و ادب  کے منتخب شہ پارے پڑھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ دار العلوم ندوۃ العلماء کو عربی زبان وادب کے باب میں امتیازی حیثیت حاصل رہی۔ وہاں کے فارغین نے مدارس اور جامعات کا رخ کرکے جدید عربی زبان و ادب کے گیسو سنوارنے اور عربی صحافت کو فروغ دینے میں ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اکثر مدارس اسلامیہ کے طلبا کا حال یہ ہے کہ بالعموم آٹھ دس سال عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ عربی لکھنے اور بولنے سے قاصر ہوتے ہیں، اگرچہ ان مدارس کے بھی بعض طلبہ اپنی ذاتی صلاحیت ولیاقت اور وقت کے صحیح استعمال نیز اساتذہ کی رہنمائی میں عربی زبان وادب میں مہارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ایسے طلبہ کی تعداد کم ہے۔
متعدد مدارس کے فارغین جو جامعات کا رخ کرتے ہیں، عربی زبان بولنے اور لکھنے کی مشق نہ ہونے کی وجہ سے وہاں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص جو طالبات یونیورسٹیوں کا رخ کرتی ہیں ان میں سے اکثر اگر عربی زبان وادب کو بحیثیت موضوع منتخب کرتی ہیں تو مفوضہ مقالہ اور بعد میں تحقیقی مقالہ تیار کرنے میں انہیں کافی زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ مطالعہ کے باوجود وہ اپنے اندر اظہار بیان کی موزوں صلاحیت نہیں پاتیں جس سے مافی الضمیر کی ادائیگی میں انہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسی طالبات فہم نص کے باجود تحریری صلاحیتوں کے فقدان کا شکار ہوتی ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی طلبہ وطالبات کو پیش نظر رکھ کر چند امور کی نشان دہی کی جاتی ہے اگر وہ اس کا التزام کریں تو ان کی تحریری صلاحیت کافی بہتر ہو سکتی ہے۔
-1 مطالعہ کی عادت ڈالیں، اس لیے کہ تحریر میں پختگی ایک دو روز میں ممکن نہیں۔ اس کے لیے طویل مشق وممارست کی ضرورت ہے، اس کے مسلسل التزام سے ہی مہارت پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ جتنا وسیع ہوگا، زبان وبیان اور اظہار مدعا کی قدرت اسی قدر پختہ ہوتی جائے گی اور نئی نئی تعبیرات ذہن میں مستحضر ہوتی رہیں گی۔
-2 خلاصہ لکھنے کا اہتمام کریں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ جو کچھ بھی پڑھیں اس کا خلاصہ ایک دو صفحات میں قلم بند ضرور کریں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مضمون کے فہم میں مدد ملے گی بلکہ تحریری صلاحیت میں بھی نکھار پیدا ہوگا۔
-3 عربی اشعار اور نثری شہ پاروں کو زبانی یاد کرلیں۔ الفاظ کا ذخیرہ جس قدر وسیع ہوگا، مضمون قلم بند کرنے اور اسے ادبی رنگ وآہنگ عطا کرنے میں اتنی ہی سہولت ہوگی۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ اشعار یا نثری شہ پارہ ضرور یاد کریں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ادبی ذوق پروان چڑھے گا بلکہ خوبصورت تحریروں سے دلچسپی پیدا ہوگی۔
-4 ڈائری لکھنے کا التزام کریں۔ کسی بھی زبان میں تحریری صلاحیت کو پختہ کرنے کے لیے ڈائری نویسی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جو طلبا ڈائری نویسی کا اہتمام کرتے ہیں وہ ہفتہ عشرہ گزرنے کے بعد اپنی تحریر میں غیر معمولی فرق محسوس کرتے ہیں۔ جب طلبا ڈائری لکھنے کی ابتدا کرتے ہیں تو چند سطریں بھی لکھنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن مسلسل مشق والتزام سے افکار وتعبیرات خود بخود الفاظ کا پیکر اختیار کرتے جاتے ہیں اور کسی بھی موضوع سے متعلق اظہار خیال کی صلاحیت وہ اپنے اندر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
-5 پڑھنا، لکھنا، بولنا، سننا اور سمجھنا کسی بھی زبان میں مہارت کے یہ تدریجی مراحل ہوتے ہیں۔ مدارس میں عموماً نحو وصرف کا اس قدر التزام کرایا جاتا ہے کہ طلبہ بولنے کی ہمت یکجا نہیں کر پاتے، انہیں ہر جملہ میں نحوی وصرفی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ کے ساتھ ساتھ زبان کی سماعت کا بھی اہتمام کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ الفاظ کا صحیح تلفظ ذہن نشین ہوجاتا ہے بلکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اصحاب زبان کی گفتگو آہستہ آہستہ ہمیں پوری طرح سمجھ میں آنے لگتی ہے اور مسلسل اس کے التزام سے اندر سے خود بولنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے جامعات میں لینگویج لیب کا بھی قیام عمل میں آیا ہے نیز نیٹ پر ہر عمر کے افراد کے لیے ایسی تربیتی ویڈیوز بکثرت دستیاب ہیں۔ اگر الجزیزہ عربی کی سماعت، اس پر ہونے والے بحث ومباحثہ نیز انٹریوز اور تاریخی دستاویز وغیرہ سے متعلق ویڈیوز دیکھنے کا التزام کریں تو اس سے بھی یقیناً کافی فائدہ ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سے استفادہ کرکے زبان فہمی کا ملکہ نیز گفتگو اور تحریر دونوں میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔
-6 مطالعہ کے تدریجی مراحل ہوتے ہیں۔ کوشش کریں کہ آسان کتابوں سے مطالعہ کا آغاز کریں۔ متعدد اصحاب قلم نے ابن المقفع کی ”کلیلہ ودمنہ“ کو عربی ادب کا شاہ کار قرار دیا ہے۔ اس کا بار بار مطالعہ کریں۔ جاحظ کی ”کتاب البخلاء“ بھی دلچسپ کتاب ہے اور روز مرہ کی بہت سی تعبیرات اور معاشرتی زندگی کی عکاسی کی صلاحیت اس کے مطالعہ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ بدیع الزماں ہمدانی اور حریری کے مقامات اگرچہ معنی ومفہوم کے لحاظ سے بہت بلند نہیں ہیں لیکن ان کے مطالعہ سے مترادفات کا حصول اور زبان وبیان کا غیر معمولی ملکہ پیدا ہوتا ہے اور بہت سی نادر تعبیرات کا علم ہوجاتا ہے۔ معلقات کی ادبی اہمیت پر اظہار خیال کی ضرورت نہیں، عربی کا ہر طالب علم اس کی اہمیت سے واقف ہے۔ جمہرۃ خطب العرب، جمہرۃ اشعار العرب اور حماسۃ ابی تمام کا مطالعہ زبان وادب کی آبیاری میں حد درجہ معاون ہے۔
-7 جدید عربی ادب میں مصطفی لطفی منفلوطی کی نظرات، عبرات، ماجدولین، احمد امین کی حیاتی، ان کے مقالات کا مجموعہ فیض الخاطر نیز فجر الاسلام، ضحی الاسلام اور ظہر الاسلام، طہ حسین کی الایام، عقاد کی انا اور علی طنطاوی کی ذکریات وغیرہ کا مطالعہ زبان وفہم کا ذوق پیدا کرنے میں کافی معاون ہیں۔ ڈاکٹر محمد محمد شاکر کے مجموعہ مقالات نیز ان کی کتاب الطریق الیٰ ثقافتنا اور المتنبی من شعرہ وغیرہ کے مطالعہ سے فکر وفن کے جدید گوشوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ سید قطب شہید کی فی ظلال القرآن، التصویر الفنی فی القرآن، مشاہد القیامۃ فی القرآن نیز عائشہ بنت الشاطی کی الاعجاز البیانی فی القرآن کے مطالعہ سے بعض نئے افق روشن ہوتے ہیں۔
-8 اگر طالب علم کی سطح بالکل ابتدائی ہے تو مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ کی منثورات اور مولانا علی میاں ندویؒ کی مختارات سے مطالعہ کا آغاز کریں پھر کامل کیلانی کے مجموعۃ القصص العربیۃ اور نجیب کیلانی کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح مولانا علی میاں ندویؒ کی قصص النبیین کی آخری دو جلدیں، اذا ہبت ریح الایمان، الطریق الیٰ المدینۃ، ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین، الی الاسلام من جدید، رجال الفکر والدعوۃ اور روائع اقبال وغیرہ کا مطالعہ کریں۔ اپنی آسانی اور سہولت کے لیے وہ ان کتابوں کے اردو تراجم بھی سامنے رکھ سکتے ہیں۔ دونوں کے تقابلی مطالعہ سے ان کے اندر ترجمہ کی صلاحیت بھی پروان چڑھے گی نیز ترجمہ کے بعض اہم مسائل سے بھی واقفیت ہوجائے گی۔
-9 کسی بھی زبان میں مہارت اور پختگی حاصل کرنے کے لیے اس زبان کے ادبی سرمایہ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جدید عربی ادب میں ہیکل، عقاد، مازنی، خلیل جبران، میخائیل نعیمہ، نسیب عریضہ، نجیب محفوظ، طہ حسین، یحییٰ حقی، کرد علی، شکیب ارسلان، غسان کنفانی اور احلام مستغانمی وغیرہ کی جو ادبی حیثیت ہے اس سے ادب کا ہر طالب علم واقف ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے اور موجودہ صدی کے ابتدائی دو دہائی میں بہت سے اہم ناولز تیار کیے گئے ہیں جن کی فہرست بھی نیٹ پر دستیاب ہے۔ زبان میں پختگی اور تحریر میں برجستگی پیدا کرنے کے لیے ان کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ یاد رکھیں کہ مطالعہ جس قدر وسیع ہوگا، فکر جس قد ر واضح ہوگی، زبان وبیان میں اسی قدر سلاست و روانی پیدا ہوتی جائے گی اور اسلوب اسی قدرسادہ، آسان فہم اور سلیس ہوگا۔
-10 جدید تعبیرات اور ٹیکنکل اصطلاحات سے واقفیت کے لیے عربی رسائل وجرائد کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ اس میں عصر حاضر کے حساس موضوعات، بین الاقوامی سیاست، سائنسی ایجادات اور اقتصادیات کے اہم امور زیر بحث ہوتے ہیں۔ان کے مطالعہ سے تعبیرات واصطلاحات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور جدید فکر سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
-11 قرآن کریم عربی زبان وادب کا شاہ کار ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تلاوت قرآن کو بھی اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔ قرآن کریم کی بار بار تلاوت کریں، اس کے معنیٰ ومفہوم پر غور کریں، اس کی تعبیرات اور پیرایہ بیان پر توجہ دیں، اس کے اسالیب کی نقل کرنے کی کوشش کریں۔
تحریر سے متعلق دل میں خوف کی جو کیفیت چھائی ہوتی ہے، مسلسل مشق و ممارست سے اس خوف سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور اسلوب میں بھی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ بہترین قلم کار اچھے قاری بھی ہوتے ہوا کرتے ہیں۔ تحریری صلاحیت میں پختگی کے لیے مطالعہ کا التزام ضروری ہے۔ نئے نئے موضوعات کے مطالعہ سے علم کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مطالعہ کے دوران جملوں کی ساخت، اس کی تراکیب، الفاظ کا انتخاب اور عمدہ تعبیرات پر غور کریں اور ان کو اپنے جملوں میں استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ جو کچھ بھی تحریر کریں اس پر نظر ثانی ضرور کریں، تحریر اگرچہ انفرادی عمل ہے لیکن اگر آپ بطور اصلاح کسی اور کو اس میں شریک کر رہے ہیں تو اس سے بھی آپ کی تحریری نفاست میں اضافہ ہوگا۔ مختصر یہ کہ یہ ایک طویل، صبر آزما اور مسلسل عمل ہے۔ اگر ہم نے مذکورہ امور کا التزام کرلیا تو ہم میں یقینی طور سے زبان کا فہم پروان چڑھے گا اور ہماری تحریری صلاحیت ضرور پختہ ہو گی۔
***

 

***

 بہترین قلم کار اچھے قاری بھی ہوتے ہوا کرتے ہیں۔ تحریری صلاحیت میں پختگی کے لیے مطالعہ کا التزام ضروری ہے۔ نئے نئے موضوعات کے مطالعہ سے علم کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مطالعہ کے دوران جملوں کی ساخت، اس کی تراکیب، الفاظ کا انتخاب او ر عمدہ تعبیرات پر غور کریں اور ان کو اپنے جملوں میں استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ جو کچھ بھی تحریر کریں اس پر نظر ثانی ضرور کریں، تحریر اگرچہ انفرادی عمل ہے لیکن اگر آپ بطو ر اصلاح کسی اور کو اس میں شریک کررہے ہیں تو اس سے بھی آپ کی تحریری نفاست میں اضافہ ہوگا۔ مختصر یہ کہ یہ ایک طویل، صبر آزما اور مسلسل عمل ہے۔ اگر ہم نے مذکورہ امور کا التزام کرلیا تو ہم میں یقینی طور سے زبان کا فہم پروان چڑھے گا اور ہماری تحریری صلاحیت ضرور پختہ ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023