اخلاقیات سے عاری نظام تعلیم کو فوری ترک کرنے کی ضرورت
تعلیم میں اخلاقیات پر خصوصی توجہ سے نیک و صالح اور تعمیری سماج کا قیام ممکن
شہاب فضل، لکھنؤ
حکومت اپنی تعلیمی پالیسیوں، فیصلوں اور طرز عمل میں اخلاقی اصولوں سے کام لے
اخلاقی قدروں سے لبریز رہنما مختلف شعبوں میں ایک مفید تبدیلی کے نقیب بن سکتے ہیں
’’لوور کے جی کی فیس حیدرآباد میں دو اعشاریہ تین لاکھ سے بڑھ کر تین اعشاریہ سات لاکھ ہوچکی ہے ، ہماری توجہ مکانات کی قیمتوں پر رہتی ہے مگر اصل مہنگائی تو تعلیم کے شعبہ میں آئی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں اسکول کی فیس نو گنا اور کالج کی فیس بیس گنا بڑھ گئی ہے۔ تعلیم کا خرچ برداشت کرنا اب آسان نہیں رہ گیا ہے‘‘۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ پوسٹ پچھلے دنوں ایک سرمایہ کار اور ’’اے جونیئر وی سی‘‘ کے بانی اویرل بھٹناگر نے کی، جس پر ایک بحث چھڑ گئی اور یہ کہا گیا کہ یہ رجحان ملک گیر سطح پر ہے اور تعلیم اب ایک کاروبار ہے۔
ایک اندازےکے مطابق ملک میں ایک متوسط طبقہ کے کنبہ کی ستر فیصد آمدنی غذا، صحت اور تعلیم پر خرچ ہوتی ہے۔ تعلیم اور صحت پر حکومت کی جانب سے خاطر خواہ بجٹ نہ دیے جانے کے باعث صورت حال تشویشناک ہوچکی ہے مگر حکومت کی سطح پر نہ اس کا اعتراف کیا جارہا ہے نہ ہی عوامی سطح پر کوئی دباؤ ڈالا جا رہا ہے ، کیونکہ حکومت و عوام دونوں کی توجہ کہیں اور ہے۔
ملک کی آزادی کے 76 برس بعد بھی بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کا خیال لوگوں کو پریشان کردیتا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر تو کبھی دیگر ذرائع سے اپنی پریشانی کا اظہار کر ہی دیتے ہیں۔ کیا یہی حقیقی آزادی ہے؟ یا حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد ابھی جاری ہے؟
تعلیم کا مقصد ایک ایسا انسان بنانا ہے جو اعلیٰ انسانی قدروں سے مزین ہو، سائنسی رویے کا حامل ہو، توہمات اور فرسودہ رسومات سے بچتا ہو اور سماج کے لیے فلاح و بہبود اور مثبت ترقی کا وسیلہ بنے۔ یہیں سے تعلیم میں اخلاقیات کی بحث کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، وہ اخلاقیات جو انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھاتی ہے، رفاہی مزاج،خدمت خلق اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور اپنی ذات سے آگے بڑھ کر ترقی کے ثمرات سے دوسروں کو بھی فیض یاب کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔
سماجی کارکن اور انسٹیٹیوٹ آف سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کے بانی محمد خالد کے بقول ایسی تعلیم جو اخلاقی قدروں سے بے نیاز کردے فرد اور معاشرے کا نقصان کرتی ہے اور بدقسمتی سے موجودہ تعلیمی نظام کی خامیوں اور اخلاقیات کو کتابوں تک محدود کردینے کے باعث مادی حصولیابیوں پر ہی لوگوں کا زیادہ دھیان رہتا ہے اور اسی میں انہیں فوری فائدہ نظر آتا ہے،جس سے آئے دن ہمیں اخلاقی زوال کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اخلاقیات کے پس پشت چلے جانے کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہوگی کہ بہار کے ضلع مغربی چمپارن میں ایک جی این ایم ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی طالبات نے ادارے کے انچارج پرنسپل کے خلاف دفتر میں شراب پینے اور نشہ کی حالت میں مساج کرانے کی ریاست کے وزیر اعلیٰ سے شکایت کی اور پرنسپل کے خلاف انکوائری رپورٹ کے باوجود اعلیٰ حکام کی جانب سے قصوروار پرنسپل کے خلاف کارروائی میں تاخیر کی جارہی ہے۔ یہ سماجی انحطاط اور حکومتی نظام کی سرد مہری کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
اخلاقیات کی تعلیم کی اہمیت اور عملی اقدامات
قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی 2020) میں مورل ایجوکیشن یعنی اخلاقی تعلیم کی بات تو کی گئی ہے مگر اس میں بنیادی توجہ قدیم ثقافتی و مذہبی روایات کو نظام تعلیم اور نصاب میں شامل کرنے پر دی گئی ہے۔ کہنے کے لیے تو طالب علم کو ایک بہتر فرد بنانے کی وکالت کی گئی ہے مگر اس کا میکینزم کیا ہوگا اس کی صراحت نہیں کی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بنیادی ڈھانچہ اور سہولیات کی بدتر حالت اور خاطر خواہ تعداد میں اساتذہ کی عدم تعیناتی کے باعث یہ نظام تمام دعوؤں اور رہنما دستاویزات کے باوجود عملی طور سے ناکام نظام کا تمغہ حاصل کررہا ہے۔
اخلاقی اقدار و اصول ایسے تصورات ہیں جو لوگوں کے عمل، فیصلوں اور دوسروں کے ساتھ تعامل کو متاثر کرتے ہیں اور دوسروں کا ادب و احترام سکھاتے ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے حال ہی میں یونیورسٹیوں کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ پوسٹ گریجویٹ سطح کے ایڈوانس کورس میں انسانی اقدار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر مبنی ایک فاؤنڈیشن کورس شامل کیا جائے، کیوں کہ نصاب میں اخلاقی اصولوں اور نظریات کو شامل کر کے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جاسکتی ہے جو تعلیمی لحاظ سے مضبوط اور اخلاقی طور پر راست باز ہو۔
اخلاقی تعلیم ایمانداری، نیکوکاری اور ہمدردی جیسی اقدار کو فروغ دیتی ہے، جو فرد کی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ طلباء کو سکھاتی ہے کہ مختلف نقطہ ہائے نظر کا احترام کیا جائے، ثقافتی تنوع کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور کلاس روم کے اندر اور باہر باہمی تعلقات استوار کیے جائیں۔
اخلاقی اقدار سے روشناس طلباء سماجی مسائل سے زیادہ واقف ہوتے ہیں اور ان کے اندر دوسروں کے تئیں فرض شناسی کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ درحقیقت تعلیمی ادارے مستقبل کے ایسے رہنما تیار کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو دیانت داری کے ساتھ رہنمائی کریں اور عظیم تر بھلائی کو ترجیح دیں۔ اخلاقی قدروں سے لبریز رہنما سیاست، کاروبار اور سماجی سرگرمیوں سمیت مختلف شعبوں میں ایک مفید تبدیلی کے نقیب بن سکتے ہیں۔
ان تمام ممکنہ فوائد کے باوجود بھارتی تعلیمی نظام میں اخلاقی تصورات کو شامل کرنے کی راہ میں کئی چیلنجز ہیں، جن میں واضح اور متعین فریم ورک کی کمی، اساتذہ کی تربیت، ثقافتی اور مذہبی حسیات اور طلباء میں اخلاقیات کو پرکھنے کے پیمانے شامل ہیں۔حالانکہ این ای پی 2020 میں حکومت نے تعلیم کو طلباء میں تنقیدی فکر کی جلا اور مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ سماجی، اخلاقی اور جذباتی صلاحیتوں کی نشو و نما کے لیے بھی استعمال کرنے کی بات کہی ہے مگر اس کے نفاذ کی صورت کیا ہوگی یہ دیکھنا باقی ہے۔
بھارتی نظام تعلیم کی صورت حال تضادات کی شکار نظر آتی ہے۔ دستاویزات میں بہت سی دلفریب اور خوش کن باتیں ہیں مگر طلباء کے سروے، تعلیم سے حاصل شدہ نتائج کے جائزے اور ہمارے ارد گرد کثرت سے پیش آنے والے مجرمانہ واقعات بلند و بانگ دعوؤں کی نفی کرتے ہیں ۔
تعلیم میں اخلاقیات اور اسلام
اسلام کے لیے تعلیم ایک انتہا نہیں اور اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ دنیاوی زندگی کے بعد آخرت میں اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ دنیاوی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنے والا نظام اس زندگی اور اس کی خوشی کو اپنا آخری مقصد سمجھتا ہے۔ اس کا تعلق صرف اور صرف مادّی بہبود سے ہے۔ اس کے برعکس اسلامی دنیا کے نظریے میں مذہبی اور سیکولر یا دنیاوی تعلیم کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔
اسلامی تعلیمی نظام کا ہدف طلباء و طالبات کو اس انداز میں تربیت دینا ہے کہ اپنے ماحول کے بارے میں ذہنی رویے اور ہر قسم کے علم تک رسائی کے لحاظ سے وہ اسلام کی روحانی اور اخلاقی اقدار کے مطابق ہوں۔ اسلامی تعلیم کا مقصد ایک صالح معاشرے میں ایک صالح انسان کی پرورش ہے۔ فرد اور معاشرہ کے اس پہلو کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اخلاقی بگاڑ و فساد کے مناظر عام ہوچکے ہیں اور انسانی و سائنسی علوم کو تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اخلاقی اقدار سے رہنمائی حاصل نہ کرنے کا نتیجہ آج یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بدعنوانی اور جرائم کا ارتکاب کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اسلامی نظام میں حصول علم کا مقصد محض ایک فکری تجسس کو پورا کرنا نہیں بلکہ تعقل پسند اور صالح افراد کو اپنے کنبے اور پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے تربیت دینا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم انفرادی فضیلت کی ضرورت اور معاشرے کے تقاضوں کے درمیان ایک توازن قائم کرتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات کا سرچشمہ قرآن اور حدیث ہیں اور اسلامی اخلاقیات عقلی طریقوں کے ساتھ ساتھ وحی پر مبنی ہے۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ تمام مذاہب میں کچھ انسانی قدریں مشترک ہیں جو لوگوں کو بھائی چارہ اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں انسانوں کے ذریعہ سنجیدگی سے اپنائے جانے پر زندگی اور معاشرہ مہذب بنتا ہے ۔
تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کو نیکی اور بدی کی کشمکش میں نیکی کرنے اور برائی پر فتح حاصل کرنے میں مدد کرے۔ اخلاقیات پر مبنی تعلیم انسان کی ضرورت ہے جو اسے اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر انسانیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! مجھے مفید علم سکھا اور وہ علم عطا فرما جو مجھے نفع دے۔
اسلام میں اخلاقیات کے دائرہ کار میں ایک اللہ پر یقین اور انفرادی و سماجی طرز عمل، فیصلہ سازی، فکری مشاغل، کھانے کی عادتوں، گفتگو اور انسانی زندگی کے دیگر تمام پہلووں میں قرآن و سنت سے رہنمائی شامل ہے۔ قرآن و حدیث میں اخلاقی اصولوں ، ضابطہ اخلاق اور اخلاقیات پر بار بار زور دیا گیا ہے۔اخوت و بھائی چارہ، راست بازی، انصاف کا خیال ، صداقت و اخلاص کا مظاہرہ اور دوسروں کی بھلائی اسلامی اخلاقیات کا اہم جزو ہیں ۔ لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا عدل و انصاف کی اولین شرط ہے اور پوری کائنات انصاف اور توازن کے تصور پر قائم ہے۔ قرآن مجید میں انصاف کے حوالے سے بار بار آگاہ کیا گیا ہے۔ کہا گیا: ’’بے شک اللہ عدل و انصاف ، حسن سلوک اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے اخلاق اور ظلم سے روکتا کرتا ہے‘‘۔اسی طرح ایک جگہ کہا گیا
’’اے ایمان والو! انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ، اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ وہ تمہارے یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ ۔۔۔۔۔اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم کج روی اختیار کرو گے یا انصاف کرنے سے انکار کرو گے تو جان رکھو کہ یقیناً اللہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے‘‘۔
اخلاقیات کو متاثر کرنے والے عوامل
ماحول، تجربہ، تعلیم، لالچ، خوف اور دباؤ وہ اہم عوامل ہیں جو بڑی حد تک ہماری اخلاقیات کا تعین کرتے ہیں۔ اس میں گھر کا ماحول، اسکول، ملازمت کی جگہیں، میڈیا، ثقافتی پس منظر، مذہبی پس منظر، سماجی اور سیاسی ماحول اثر انداز ہوتے ہیں۔ گھر کا ماحول ابتدائی ایام میں اخلاقی تعلیم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے اخلاقی امور و مسائل کے بارے میں جن کا وہ روز مرہ کی زندگی میں سامنا کرتے ہیں اپنے والدین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اگر والدین اپنی اقدار کے بارے میں واضح نہیں ہیں، تو بچے دوسرے ذرائع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
مادیت اور محض دنیا کمانے کے تصور پر مبنی تعلیمی نظام سے بہترین انجینئر، قابل ڈاکٹر اور ماہر فلسفی پیدا ہوسکتے ہیں لیکن یہ نوجوان نسل میں صالح اور اخلاقی حس پیدا کرنے میں ناکام رہیں گے جس کے بغیر دیگر صلاحیتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اساتذہ کو سچ بولنے اور ایمانداری کی خوبی پر زور دینا چاہیے۔ انسانی صفات جیسے کہ بھائی چارہ اور انصاف وغیرہ کی اقدار کی تربیت تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہونا چاہیے۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا مادیت پر مبنی تعلیمی نظام کے باعث اخلاقیات کا فقدان ہر پیشے میں نظر آتا ہے اور غیر اخلاقی طرز عمل اور جرائم پڑھے لکھے ذہنوں سے سرزد ہورہے ہیں۔ اخلاقیات کے بغیر تعلیم یافتہ ذہن تعلیم یافتہ مجرم اور معاشرے کے لیے بہت خطرناک بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل سائبر کرائم میں وہ لوگ ملوث ہیں جو ٹکنالوجی کے ماہر ہیں لیکن اخلاقیات سے عاری ہیں۔ رشوت خوری، گمراہ کن اشتہارات، اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ اور ان کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، لالچی ڈاکٹروں کے ذریعہ مریضوں کا غلط علاج اور غیر ضروری ادویات اور سرجری، وکلاء کے ذریعہ جھوٹ کی پیروی، بے قصوروں کو سنگین الزامات میں پھنسانا وغیرہ اخلاقیات سے عاری تعلیم کا ہی نتیجہ ہیں۔ تعلیم کی روشنی سے جرائم کم ہونے چاہئیں اور معاشرہ کی بھلائی کے خواہاں افراد کی تعداد بڑھنی چاہیے مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے اور پڑھے لکھے مجرموں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج کے بچے اپنی اقدار کسی بھی دوسرے ذریعہ سے زیادہ ٹیلی ویژن، فلموں اور آن لائن پلیٹ فارموں سے سیکھ رہے ہیں، جہاں اخلاقیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، چنانچہ عصمت دری، منشیات کے بے محابا استعمال اور تشدد وقانون شکنی کے واقعات کی باڑ ھ سی آگئی ہے ۔
اخلاقیات سے عاری نظام کو فوری ترک کرنے کی ضرورت
ہمیں تعلیم کے حوالے سے متوازن نقطہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرہ کے تمام لوگوں کے لیے سودمند ہو۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں اخلاقیات پر مبنی نصاب تعلیم کو اپنانا چاہیے اور اس میں تمام مذاہب کے اخلاقی اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی اپنی پالیسیوں، فیصلوں اور طرز عمل میں اخلاقی اصولوں سے کام لینا ہوگا تاکہ یہ پالیسیاں اور طرز عمل سماج کے ہر طبقہ کے لیے سود مند ہوں۔ تعلیم و صحت کو اخلاقیات کی عینک سے دیکھنا چاہیے اور ان کی نج کاری کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ اپنی سرپرستی میں ان کی اصلاح کرے تاکہ گلا کاٹ مقابلہ میں انسان پھنس کر نہ رہ جائے ۔ اخلاقیات سے عاری نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو فوری طور سے ترک کرنا ہوگا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی اصلاح ہنگامی اور فوری بنیادوں پر ہونا چاہیے اور اخلاقیات کو محض نصاب تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ادارہ جاتی عمل کا لازمی حصہ بنانا ہوگا تاکہ تعلیم سے وابستہ ہر عمل میں اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ برقرار رہے۔ تعلیم کے متوازن نظام کے لیے تعلیم اور اخلاقی اقدار کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ باضمیر تعلیم یافتہ نوجوان سامنے آئیں جن کے اندر اخلاقیات اور اخلاقی اصولوں کا احساس اور پاس و لحاظ ہو اور جو عالمی انسانی معاشرے کے لائق وارث بن سکیں اور انسانیت کی درست رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024