عام آدمی پارٹی کے پانچوں مسلم اميدواروں کی ريکارڈ کاميابی

سماج کے ذی اثر افراد سے بات چيت پر مبنی ہفت روزہ دعوت کی گراؤنڈ رپورٹ

افروز عالم ساحل

دہلی اسمبلی اليکشن ميں عام آدمی پارٹی نے پھر سے يکطرفہ جيت حاصل کرکے سب کو چونکا ديا ہے۔ ساتھ ہی يہ بحث بھی چھيڑ دی ہے کہ ملک ميں اب نفرت کی سياست ناکام ہوچکی ہے۔ ملک کی عوام اسے نئی سياست کا آغاز مانتی ہے۔ وہ يہ يقين رکھتے ہيں کہ ملک ميں ہميشہ سيکولر سياست کا بول بالا رہے گا اور انتخابات ترقی کے نام پر لڑے اور جيتے جائيں گے۔ ليکن سيکولر سياست کے نام پر ترقی اور اپنی نمائندگی کی تعداد ميں دہلی کا مسلمان ايک بار پھر سے ٹھگا ہوا نظر آرہا ہے۔

اس بار کے دہلی اسمبلی اليکشن ميں 70 سيٹوں پر کل 672 اميدوار ميدان ميں تھے۔ ان ميں مسلم اميدواروں کی تعداد صرف 50 تھی، جس ميں کانگريس کے 6 اور عام آدمی پارٹی کے 5 مسلم اميدوار شامل ہيں۔ باقی کے 39 اميدوار ديگر سياسی جماعتوں يا آزاد اميدوار کے طور پر اپنی قسمت کی آزمائش کر رہے تھے۔ ان 50 ميں سے صرف 5 اميدوار ہی کامياب ہو پائے۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چيت ميں ويلفئر پارٹی آف انڈيا کے قومی صدر ڈاکٹر قاسم رسول الياس نے بتايا کہ ’دہلی کے لوگوں نے نفرت کے ايجنڈے کے مقابلے ميں ترقی کے ايجنڈے کو، جو بنيادی ضرورتوں پر مشتمل ہے توجہ دی ہے۔ اس سے يہ ثابت ہوگيا کہ بہت دنوں تک نفرت کے ايجنڈے کے تحت لوگوں کو آپ بيوقوف نہيں بنا سکتے ہيں۔ دہلی ميں بی جے پی کا جو حشر ہوا اس سے اس کو يہ سمجھ آجانی چاہيے کہ جذباتی اور نفرت آميز ايشوز کی بنياد پر بی جے پی آئندہ بھی اليکشن نہيں جيت سکے گي‘

يہ پوچھنے پر کہ کيا کبھی دہلی ميں مسلمانوں کی نمائندگی پانچ سيٹوں سے آگے بھی بڑھ سکے گي؟ اس پر ڈاکٹر الياس کہتے ہيں ’ہر اليکشن ميں يہ فیکٹر کام کرتا ہے کہ اگر ووٹ تقسيم ہوا تو بی جے پی آجائے گی اور اس ڈر سے مسلم قيادت کسی سياسی پارٹی سے بارگين نہيں کر پاتی ہے۔ جبکہ ہونا تو يہ چاہيے کہ دہلی ميں کم از کم 10 سيٹوں پر مسلم اميدواروں کو ٹکٹ ملنا چاہيے، ليکن انہيں ٹکٹ ان ہی سيٹوں پر ملتا ہے جہاں مسلمان اکثريت ميں ہيں۔ ميں سمجھتا ہوں کہ يہ ٹرينڈ بدلنا چاہيے اور اگلے اليکشن ميں مسلم قيادت کو ہر حال ميں بارگين کرنا چاہيے۔

ويلفیر پارٹی آف انڈيا نے دہلی کے اليکشن ميں حصہ کيوں نہيں ليا؟ اس پر ڈاکٹر قاسم رسول الياس نے کہا کہ ہم يہ سمجھتے ہيں کہ اگر ہم حصہ ليں گے تو سوائے ووٹ کاٹنے کے کچھ نہيں کر سکيں گے۔ اس ليے اس وقت اليکشن کی اہميت کے پس منظر ميں ہم نے حصہ نہيں ليا۔ دہلی کا يہ اليکشن صرف دہلی کا نہيں بلکہ پورے ملک کے ليے ايک ٹرينڈ سيٹ کرنے والا اليکشن تھا۔

دہلی کی سياست ميں مسلمانوں کی نمائندگی کے سوال پر آل انڈيا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر نويد حامد کہتے ہيں ’ تعداد سے بات نہيں بنتی، بات بنتی ہے عزم سے۔ کسی قوم کا اس وقت تک مفاد محفوظ نہيں ہوسکتا جب تک اس کے ذريعے منتخب نمائندے استحکام اور پورے جرأت کے ساتھ اپنے قوم کی نمائندگی نہ کريں۔ نمائندگی مسلمانوں کے نام پر حاصل کرنا اورمنتخب ہونے کے بعد مسلمانوں کی نمائندگی کرنا يہ دونوں الگ الگ بات ہے۔ جيسے دہلی ميں کانگريس حکومت ميں مسلمانوں کے ايک مشہور نمائندے ہارون يوسف تھے جو کہ 18 سال وزير رہے۔ ليکن اپنے دور ميں اپنے اسمبلی حلقہ ميں اردو ميڈيم اسکولوں ميں اس دور ميں 20-15 سالوں سے اساتذہ کی جو کمی تھی اس پر اساتذہ کی بحالی تک نہيں کرا پائے۔‘

نويد حامد کہتے ہيں ’صرف مسلمان نمائندے کا سوال نہيں ہے۔ اگر کوئی سياسی پارٹی کسی طبقے يا علاقے کا ووٹ حاصل کر رہی ہے تو اس پارٹی کی از خود ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ اس طبقے يا علاقے کی ضروريات اور ان کے مفادات پر بات کرے۔ ميں سمجھتا ہوں کہ عام آدمی پارٹی کو حکومت ميں پھر سے لانے کے ليے مسلمانوں نے پوری ايمانداری سے اپنا تعاون پيش کيا ہے تو حکومت دہلی کی بھی يہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی پوری ايمانداری سے ان کے مسائل پر توجہ دے۔

وہ مزيد کہتے ہيں ’موجودہ سياسی دور ميں تمام سياسی پارٹياں مسلمانوں ميں انہی کو ٹکٹ ديتی ہيں جو بلڈر ہو، بڑا کاروباری ہو يعنی جو پيسہ دل کھول کر خرچ کر سکتا ہو، اس ليے ايسے منتخب نمائندوں سے زيادہ اميد نہيں رکھنی چاہيے۔‘

ايڈوکيٹ معاذ ملک کہتے ہيں، ’اس پورے اليکشن ميں مسلمانوں کا رول سب سے اہم رہا ہے۔ دہلی ميں جہاں مسلمانوں کی آبادی زيادہ ہے وہاں عآپ کے اميدواروں کی جيت کا مارجن بھی زيادہ ہے۔ دہلی کے مسلمانوں نے اس بار نہ صرف چپ چاپ کانگريس کو مسترد ديا، بلکہ اس نے کہيں بھی اميدوار کی ذات يا مذہب نہيں ديکھا۔ ايک دو سيٹوں کو چھوڑ کر يہاں کے مسلمانوں نے آنکھ بند کرکے کيجريوال کی پارٹی کو يکطرفہ ووٹ ديا۔‘

سماجی کارکن و کالم نگار آصف اقبال نے بتايا کہ عام آدمی پارٹی نے اس اليکشن زبردست جيت حاصل کی ہے ليکن يہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کے ايشوز پر اس پارٹی کے صدر يا ان کے ديگر ليڈران نے کھل کراظہارخيال نہيں کيا۔ جب کہ سب سے زيادہ ووٹ انہيں مسلمانوں کے ہی ملے ہيں. ان کے پانچوں مسلم اميدوار ريکارڈ ووٹوں سے منتخب ہوئے ہيں۔

مسلمانوں کی نمائندگی کے سوال پر آصف اقبال کہتے ہيںن’’تمام سياسی پارٹيوں کو جب لگتا ہے کہ کسی خاص علاقے سے مسلم اميدوار کے علاوہ کوئی دوسرا اميدوار نہيں جيت پائے گا تو مجبوری ميں انہيں کسی مسلم اميدوار کو ہی ٹکٹ دينا پڑتا ہے۔ پھر اسے دکھا کر باقی کے علاقوں ميں بھی ووٹ بٹور ليتے ہيں۔ مسلم علاقوں ميں تو ان کے ترقياتی ايجنڈے کا بھی کوئی مطلب نہيں ہوتا۔ جن علاقوں سے عام آدمی پارٹی کے مسلم اميدوار منتخب ہوئے ہيں ان علاقوں ميں جا کر ديکھ ليجيے۔ کيجريوال کے ترقياتی ايجنڈے کا سچ خود بخود سامنے آجائے گا۔’ وہ مزيد کہتے ہيں ’کسی بھی سياسی پارٹی کو مسلمانوں کے ترقی يا فلاح بہبود سے کوئی دلچسپی نہيں ہے ان کو صرف ان کے ووٹوں سے مطلب ہے۔ اگر کيجريوال يا ان کی پارٹی کو مسلمانوں سے دلچسپی ہوتی تو اس وقت جو پورے دہلی ميں مظاہرے چل رہے ہيں، کہيں نہ کہيں ان پر کھل کر بات کی جاتی۔ يا کم از کم جيت کے بعد کسی نہ کسی طرح سے ان مسئلوں پر اپنی رائے رکھتے، ليکن انہوں نے اس چيز کو سرے سے نظر انداز کر ديا۔‘

واضح رہے کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق دہلی کے 1.6 کروڑ کی آبادی ميں 12.78 فیصد مسلمان ہيں۔ ليکن جب ووٹر کی تعداد کی بات کی جائے تو يہ اعداد وشمار 18 فیصد کے آس پاس آتا ہے۔ يہ 18 فیصد مسلم رائے دہندگان دہلی کی 5 سيٹوں پرقابض ہونے کا دم تو رکھتے ہی ہيں، وہيں 5 سيٹوں پرکسی کا کھيل بنا يا بگاڑ سکتے ہيں۔ اس کے علاوہ درجنوں سيٹوں پر ان کے ووٹ کافی معنی رکھتے ہيں۔

اليکشن کميشن آف انڈيا کے اعداد و شمار کے مطابق عام آدمی پارٹی نے 53.57فیصد ووٹ حاصل کيے، بی جے پی کو 38 اعشاريہ 51فیصد ملے جبکہ کانگريس پارٹی کے حصے ميں پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ آئے۔ غورطلب ہے کہ دہلی کی تقريباً آبادی دو کروڑ ہے ان ميں سے مجموعی طور پر ايک کروڑ 47لاکھ 86 ہزار 382ووٹر ہيں۔ اليکشن کميشن کے مطابق اس اليکشن ميں 62.62 فیصد مرد اور62.55فیصد خواتين ووٹروں نے اپنےووٹ کا استعمال کيا۔

يہاں يہ بات بھی غور کرنے والی ہے کہ سال 2013 تک دہلی کا مسلمان کانگريس کو ووٹ ديتا ہوا آيا ہے۔ ليکن 2015 ميں يہ ووٹر کانگريس سے ٹوٹ کر عام آدمی پارٹی کے حق ميں چلے گئے۔ ايسے ميں اروند کيجريوال کو مسلمانوں کا يہ احسان ہميشہ ياد رکھنا چاہيے۔ حالانکہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت ميں مسلم علاقوں ميں کوئی خاص ترقی کے کام انجام نہيں ديے، ان کے اسکول مسلمانوں کے علاقوں ميں نہيں پہونچ سکے، محلہ کلينک بھی دوسرے علاقوں کے مقابلے ميں نہيں کے برابر ہی رہے۔ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھی، شاہين باغ اور شہريت ترميمی قانون کو مسترد کرنے کے سلسلے ميں کوئی سرگرمی نہيں دکھائی۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے ان کو دہلی کی قيادت سونپی اس ليے اب اس اليکشن کے بعد انہيں مسلمانوں کی طرف توجہ دينا چاہيے۔ ورنہ مسلمان کوئی دوسرامتبادل تلاش کر لے گا۔

کون کہاں سے جيتا؟

عام آدمی پارٹی نے اس اليکشن ميں اپنے 5مسلم اميدوار ميدان ميں اتارے تھے اور سب کے سب کامياب رہے۔ 2013 ميں دہلی ميں 5مسلم اميدواروں نے جيت حاصل کی تھی، جن ميں 4 کانگريس اور ايک اميدوار کا تعلق نيتيش کمار کی پارٹی سے تھا۔ حالانکہ اس جيت کے بعد وہ اميدوار بھی کانگريس ميں شامل ہوگيا۔ وہيں 2015ميں صرف 4مسلم اميدوار ہی کامياب ہو سکے۔ يہ چاروں مسلم رکن اسمبلی عام آدمی پارٹی سے تھے۔
اوکھلا اسمبلی حلقہ سے عام آدمی پارٹی کے اميدوار امانت اللہ خان کو ايک لاکھ تيس ہزار ووٹ ملے۔ بی جے پی کے اميدوار برہم سنگھ يہاں 71827 ووٹوں سے ہار گئے۔ پچھلے اليکشن ميں وہ 64532 ووٹوں سے ہارے تھے۔ کانگريس کے تجربہ کار ليڈر پرويز ہاشمی جو اوکھلا سيٹ سے تين بار رکن اسمبلی رہ چکے ہيں، محض پانچ ہزار ووٹوں پر ہی سمٹ گئے۔ ان کی ضمانت بھی نہيں بچ پائی۔ حالاںکہ يہاں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ پہلے کی نسبت 10 فیصد کم ہوا تھا۔ اس کے باوجود شکست اور فتح کا مارجن آخری بار کے مقابلے ميں کہيں زيادہ تھا۔

بليماران سيٹ پر کانگريس کے تجربہ کار ليڈر ہارون يوسف کے مقابلے پھر سے کيجريوال حکومت کے وزير عمران حسين کو اتارا گيا تھا۔ ليکن ہارون يوسف محض 4802ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ پچھلی بار عمران نے يہاں 33877ووٹوں سے کاميابی حاصل کی تھی، اس بار جيت کا مارجن 36172تھا۔ دہلی ميں سب سے زيادہ ووٹنگ اسی بليماران سيٹ پر ہوئی تھی، يہاں 71.6 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا۔

مٹيا محل سيٹ سے عام آدمی پارٹی نے شعيب اقبال کو اتارا۔ يہ وہی شعيب اقبال ہيں جو گذشتہ اليکشن ميں عآپ کے محمد عاصم سے 26096 ووٹوں سے ہارے تھے۔ اس جيت کے بعد عاصم کيجريوال حکومت ميں وزير بنے، ليکن ايک بلڈر سے رشوت کے الزام ميں پارٹی نے ان سے دوری بنا لی۔ اور اس بار شعيب اقبال کو ہی پارٹی ميں شامل کرکے ميدان ميں اتار ديا۔ حالاںکہ شعيب اقبال سياست کے ميدان ميں کافی تجربہ کار ہيں۔ پانچ بار اليکشن جيت چکے ہيں۔ اس بار انہوں نے 50241ووٹوں کی مارجن سے اپنی جيت درج کی۔

سليم پور سيٹ پر عآپ نے اپنے رکن اسمبلی محمد اشراق عرف بھورے کا ٹکٹ کاٹ کر عبد الرحمن کو ميدان ميں اتارا۔ کانگريس نے يہاں سے چودھری متين احمد کو ٹکٹ ديا تھا۔ باوجود اس کے عآپ کے عبد الرحمن نے 36,920 ووٹوں کے مارجن سے جيت حاصل کی۔

مصطفی آباد سيٹ سے عام آدمی پارٹی نے حاجی يونس کو ميدان ميں اتارا۔ حاجی يونس کو پچھلی بار بی جے پی کے جگديش پردھان نے 6631 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ ليکن اس بار حاجی يونس نے اپنی پچھلی ہار کا بدلہ چکتا کر ليا ہے۔ انہوں نے اس بار 20,704 ووٹوں کی مارجن سے جيتے ہيں۔
***