عالم نقوی؛ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

قرآن کریم پر گہری نظر رکھنے والا ایک بے باک صحافی

ڈاکٹر خلیل تماندار، انٹاریو، کینیڈا

آسمان صحافت کا ایک تابناک ستارہ عالم نقوی جمعہ کی صبح چار اکتوبر 2024 کل نفس ذائقة الموت کے مصداق غروب ہوگیا۔ مرحوم سے راقم السطور کا مختلف اخبارات میں مضامین کی اشاعت کے تئیں و پرسنل سطح پر خط و کتابت کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تھا لیکن حسن اتفاق کہ براہ راست ملاقات کی سعادت 2009ء میں حج کے موقع پر حرم مکی شریف میں ناچیز کے مطب (حرم کلینک) پر ہوئی تھی جس کی تفصیلات عالم نقوی صاحب کے اپنے الفاظ میں آگے آرہی ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے بلند اخلاق و خلوص نے ایسا مسحور کیا کہ حرم مکی کے سترہ برس کے طویل قیام اور کینیڈا میں ماضی قریب کے دس برسوں سے مستقل سکونت اختیار کرنے کے باوجود بھی الحمدللہ آپ سے باقاعدہ روابط رہے۔
رہے نام اللہ کا:
تقریباً دو تین برسوں سے موصوف کی علالت کی خبر مستقل پہنچ رہی تھی، بیماری کے ابتدائی ایام میں آپ سے فون پر بسا اوقات گفت و شنید بھی ہوجایا کرتی تھی لیکن پچھلے ایک برس سے زائد عرصے سے موصوف ٹیلیفون پر بھی گفتگو کرنے سے قاصر تھے، البتہ آپ کے بچوں سے وقتاً فوقتاً موصوف کی خیریت کا علم ہو جایا کرتا تھا لیکن بہت دنوں سے ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا۔ آخر وہ وقت موعود آ ہی پہنچا جب بیک وقت ممبئی، دہلی، لکھنئو و علی گڑھ سے سوشل میڈیا پر اس نامور صحافی عالم نقوی کے چاہنے والوں کی گونج سنائی دی کہ قرآن کریم پر گہری نظر رکھنے والے، ہمدرد و غم گسار ملت اور ایک بے باک صحافی عالم نقوی دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے انا للہ و انا الیہ راجعون
تعلیم اور پس منظر:
آپ کی تاریخ پیدائش 26 فروری 1949ء اور آبائی وطن نصیر آباد نزد رائے بریلی ہے لیکن لکھنو آپ کی جائے پیدائش ہے اور لکھنو سے ہی آپ نے بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا رخ کیا جہاں انہوں نے انتہائی دلجمعی اور محنت شاقہ سے نفسیات کے سبجیکٹ میں نہ صرف نمایاں کامیابی حاصل کی بلکہ گولڈ میڈل کے بھی مستحق قرار دیے گئے۔ اپنی ایک تصنیف "اذان” کے انتساب میں رقم طراز ہیں کہ آپ کے والد مرحوم سید محمد کاظم نقوی انہیں بطور ایک خطیب دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ والدہ عالیہ خاتون کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے بارہ سال کی عمر کے ایک یتیم بچے کو کبھی بھی باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا بلکہ اسے ناگفتہ بہ حالات سے مردانہ وار لڑنے کے لائق بھی بنا دیا۔ اسی طرح اپنی پہلی زوجہ محترمہ مرحومہ گل زرینہ کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ دور رہتے ہوئے بھی جسے خط لکھ لکھ کر ہم لکھنا سیکھ گئے، سچ ہے قریبی روابط سے عقیدت، محبت اور احترام جیسے جذبات و احساسات کو آپ نے کس قدر دلنشیں انداز میں اپنی تصنیف کے انتساب میں سمو کر تاریخ کا ایک اہم باب بنا دیا۔
ماہر نفسیات اور نباض قوم و ملت:
عالم نقوی کی خواہش تھی کہ وہ نفسیات میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی خدمات انجام دیں لیکن قادر مطلق نے آپ کا انتخاب قوم و ملت کے تئیں فن صحافت کے لیے کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مرحوم ایک ماہر نفسیات کے ساتھ ساتھ میدان صحافت سے وابستگی اور شب و روز ملت کے مسائل اور ان کا سد باب جیسے موضوعات کی تگ و دو میں ایک نباض قوم کی بھی حیثیت رکھتے تھے۔ اس بات کا اندازہ وہ حضرات بخوبی کر سکتے ہیں جو گزشتہ تین چار دہائیوں سے متعدد اخبارات جیسے عزائم، قومی آواز، انقلاب، اردو ٹائمز اور اودھ نامہ میں آپ کے مستقل شائع شدہ رشحات قلم بشکل ایڈیٹوریل (اداریے) کالمز و مضامین سے مانوس ہی نہیں بلکہ استفادہ بھی کر چکے ہیں۔
عالم نقوی کی حرم کلینک ملاقات کی غرض سے آمد:
2009ء میں ایام حج کے دوران محترم عالم نقوی صاحب حرم کلینک میں تشریف لائے تھے، جس کی تفصیلات خود ان کے الفاظ میں جو انہوں نے ناچیز کی حرم مکی میں تحریر کردہ تصنیف "نقوش حرم” پر تاثرات کی شکل میں ارسال کیے تھے ملاحظہ فرمائیں:
"بالغ نظر مصنف قلندر طبیب اور حاذق معالج ڈاکٹر خلیل الدین تماندار: اگرچہ پہلی بار ہماری ملاقات نومبر 2009ء میں ایام حج کے دوران مکہ مکرمہ میں ہوئی لیکن ہم انہیں اس سے قبل بھی ایک بالغ نظر ادیب اور وسیع التحقیق مصنف کی حیثیت سے جانتے تھے کہ ان کے وقیع مضامین ہم روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی میں عرصہ دراز سے پڑھ رہے تھے جو خصوصیت سے وہ ہمارے ہی نام بھیجا کرتے تھے۔ ہم 2002ء سے2011 ء تک اس اخبار کے ایکزیکیوٹیو ایڈیٹر رہے تھے، 07 اگست 2009ء کا ایک لفافہ ہمارے پاس پتہ نہیں کیسے محفوظ رہ گیا ہے، جس پر لکھا ہے "الی السعادة السید عالم نقوی المحترم” اور جب نومبر 2009 ء میں پہلی بار بالمشافہ ملے تو اس طرح جیسے اپنے کسی بچھڑے ہوئے عزیز ترین دوست سے مل رہے ہوں ، مولانا ضیاءالدین اصلاحی (سابق ناظم مدرسة الاصلاح سرائے میر، یو پی ہند، سابق صدر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ
ہند) کے لفظوں میں، اس ملاقات کو جو بلا شبہ حج کی برکتوں میں سے ایک برکت تھی ملاقات مسیحا و خضر سے بہتر کہوں تو شاید بے جا نہ ہو” جیسے الفاظ میں اپنا شفقت نامہ ارسال فرمایا.
قحط الرجال میں ایک رجل امین!
برادر معظم مرحوم امین الدین شجاع الدین (سابق رئیس التحریر تعمیر حیات فکری ترجمان دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو) کے انتقال سے قبل تحریر کردہ تیسری تصنیف "روبرو” جس پر مقدمہ موجودہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور پیش لفظ سابق جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ کا درج ہے، اسی تصنیف "روبرو” میں عالم نقوی کے تاثرات بعنوان ” قحط الرجال میں ایک رجل امین!” ملاحظہ فرمائیں:
” امین الدین شجاع الدین صاحب کو پڑھ کر بے ساختہ دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں، قحط الرجال کے اس عہد میں ان کا دم غنیمت ہے ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے۔
ان کی پہلی کتاب نقوش فکر و عمل دو سال قبل پڑھی تھی۔ ہم اسی وقت سے ان کی منزلت علمی کے معترف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اور اللہ تبارک و تعالی بھی اسی کو یہ سعادت بخشتا ہے جو اس کے حصول کے لیے ویسی ہی جدوجہد کرتا ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ ان کی تیسری کتاب ہے 2009ء میں "نقوش فکر و عمل” اور 2011 ء میں "ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم” شائع ہوئیں اور اب مختلف زعمائے ملت کے انٹرویوز پر مشتمل یہ کتاب آپ کے روبرو ہے، اس میں شامل اکابرین کے انٹرویوز پڑھ کے بار بار مختار مسعود یاد آئے جنہوں نے اپنی معرکة الآراء کتاب ” آواز دوست” میں لکھا ہے”قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی، مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط — حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال –ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا اور دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا، ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا —زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں”
لاکھوں میں نمایاں کرنے والی صفت:
طبعی شرافت و انکساری، سادگی و متانت، دوسروں کو سمجھنے اور حوصلہ دینے کی غیر معمولی صلاحیت جیسی بیش بہا صفات عالم نقوی کو ممتاز کرتی ہیں لیکن خصوصاً قرآن کریم سے شغف اور تدبر آپ کو لاکھوں میں ایک کی طرح نمایاں کر دیتی ہے اور یہی وہ وصف اور فکر ہے جو آپ کے قلب و ذہن پر ہمہ وقت حاوی رہتا تھا اور ملت اسلامیہ میں اتحاد کیسے قائم کیا جائے، قوم کی زبوں حالی کا خاتمہ کس طرح ہو، اہل ایمان کی بازیابی کیسے حاصل کی جائے جیسی اہم گتھیوں کو سلجھانے کے لیے آپ قران کریم سے درس و نصیحت حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اسی خوبی نے مرحوم کو اوروں سے ممتاز کر دیا ہے۔
مکہ مکرمہ کے اہم و تاریخی مقامات:
اللہ کے فضل و کرم سے مکہ مکرمہ میں 1997ء تا 2014ء تک کے اس طویل قیام کے دوران عالم اسلام کی کئی مشاہیر اور ارباب علم و ہنر جنہیں ناچیز نے ظہرو عصر کے درمیانی وقفے میں مکہ مکرمہ کے اہم تاریخی مقامات مثلا "جبل ابو قبیس، جبل کعبہ، مولود النبیؐ ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، مسجد خیف، مسجد مشعر الحرام، مسجد نمرہ، مسجد جن، مسجد عائشہؓ (مسجد عمرہ) جبل ثور، جبل نور (غار حرا) شعب ابی طالب، کسوة ( غلاف کعبہ بنانے کی فیکٹری) رابطہ عالم اسلامی کی شاندار جدید عمارت اور متحف حرمین (حرمین شریفین میوزیم ) وغیرہ کو اپنے ساتھ مہمانان کرام کو لے جانے اور تمام تفصیلات بتانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جناب عالم نقوی اور ان کی اہلیہ محترمہ نشاط نقوی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ عالم نقوی نے ان تمام تاریخی مقامات کو جس انہماک و اشتیاق سے دیکھا اور اہم نوٹس کو محفوظ کیا تھا اس سے موصوف کی اسلامی تاریخ میں غیر معمولی دلچسپی اور ذوق و شوق کا بھی پتہ چلتا ہے۔
صبر جمیل :
سچ ہے بقول جون ایلیا
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
لیکن اس دنیائے دنی میں وقتی طور پر رہنے والے مستقل طور پر سفر آخرت پر جانے والوں کے حق میں دعا تو کر سکتے ہیں اور ثواب جاریہ کا سبب بھی بن سکتے ہیں
اللہ پاک عالم نقوی مرحوم پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرمائے اور ان کے پس ماندگان میں ان کی اہلیہ محترمہ نشاط نقوی، دو بیٹیاں ایلیا عالم و سمانا عالم اور دو بیٹے عالی رضا و میثم شبیب نقوی کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024