غزالہ اطہر، حیدرآباد
اس بے پایاں کائنات میں اللہ تعالی نے بے شمار مخلوقات کی تخلیق فرمائی ہے اور اسی جگہ انسان کو پیدا کر کے اسے بہترین مقام دیا۔ انہیں دو جنسوں مرد اور عورت کی حیثیت میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مرد کو الگ ذمہ داریاں تفویض کی گئیں اور اسے قوی بنا کر عورت کا نگراں کار بنایا گیا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی۔ بالکل اسی طرح عورت کو ہمیشہ سے آدھی دنیا کہا گیا ہے (پچھلے زمانے میں بھی یہ کہا جاتا رہا ہے) یہی وجہ ہے کہ اسے کسی بھی سماج کے لیے نظر انداز کرنا آسان نہیں رہا بلکہ یہ بات عیاں ہے کہ عورت انسانی حیات کی گاڑی کا لازمی حصہ ہے۔
مرد نے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، کہیں باپ کی شکل میں، کہیں بھائی، شوہر، بیٹے اور کسی دوسرے محرم رشتے کی شکل میں… لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر خیر کے ساتھ شر ہے۔ جہاں معاشرے میں اچھائی پنپتی نظر آتی ہے، وہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ برائیاں بھی پھیلتی ہیں۔ مردوں کی اسی صنف میں سے کچھ نے اسی عورت کو وہ اہمیت و حیثیت نہیں دی، جس کی واقعتاً وہ مستحق تھی۔
ہمارے معاشروں نے عورت کے وقار کو تباہ کیا۔ اسے عزت نہیں بخشی، بلکہ اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس کی ذات کو مجروح کیا گیا اور اس کی توہین کی گئی۔ عورت کی کوکھ سے ہی جنم لے کر اس کو دکھ پہنچایا گیا، کچلا، مسلا گیا اور دھتکار دیا گیا۔ اس طرح سوسائٹی میں عورت کے خلاف جرائم بڑھنے لگے۔
ایسے میں، جہاں اس کے محافظ نے اسے سامانِ ذلت فراہم کیا، وہاں معاشرے کی عورت کے لیے یہ مقام خوف بن گیا کہ اس کے تحفظ کی ذمہ داری، جو معاشرے پہ عائد تھی، وہ ادھوری رہ گئی اور یہ خطرے میں پڑ گئی۔
ان ہی ذمہ داریوں کا اعادہ کرنے کے لیے بالخصوص کچھ دن منائے جاتے ہیں، اور بالعموم ہر فرد پہ اس کا خیال رکھنا لازم ہے۔ مثلاً International Girl Child Day کے عنوان سے 11 اکتوبر کو منایا جانے والا یہ دن اقوام متحدہ کی جانب سے دسمبر 2011کو ایک resolution کے declaration کے ذریعے طے کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد عورتوں کے حقوق کی شناخت کروانا اور خواتین میں دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہے۔
اس resolution میں مندرجہ ذیل باتوں کو شامل کیا گیا:
خواتین کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنا۔
عورت کے empowerment (تفویض اختیار) پر توجہ دینا۔
ان کو معاشرے میں صحتمندانہ تعلقات میں بسائے رکھنا۔
تعلیم اور معاملات زندگی میں یکساں مواقع فراہم کرنا۔
ان میں معاشی و معاشرتی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرنا۔
دیگر یہ کہ:
ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، جیسے مشکل حالات میں خود کو سنبھالنا اور مارشل آرٹ، کراٹے کی تربیت کروانا، تاکہ ناگفتہ بہ حالات میں وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنا سکیں۔
لڑکیوں کو اوائل عمری ہی سے بتانا کہ ان کی حدود کیا ہیں اور کن لوگوں سے کہاں تک گفتگو کرنی ہے اور کون سے رشتے ہیں جن سے قریب ہوا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں "گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ” (کس کا انہیں چھونا صحیح ہے اور کس کا غلط ہے) کی تعلیم دینا تاکہ آسان الفاظ میں انہیں یہ بتایا جا سکے کہ کون ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور کون ان کا محافظ ہے۔
اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات بہت واضح ہیں، جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل پیش کی گئی تھیں۔
احترام انسانیت اور انسانی حقوق کے تاریخی چارٹر خطبۂ حجۃ الوداع میں محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔‘‘
جب کہ اسلام سے قبل میراث کے بارے میں اہل عرب کا یہ نظریہ تھا کہ جائیداد کا وارث اور حق دار صرف اور صرف مرد ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ مرد اسلحہ اٹھاتا ہے اور جنگ کرتا ہے، جب کہ عورتیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے محروم قرار دی گئی تھیں، لہٰذا وہ وارث بننے یا ورثہ کی حقدار نہیں ہوسکتیں۔
پھر اسلام کا عظیم الشان دور آیا، جو سسکتی انسانیت کے لیے روشنی کا استعارہ بن گیا۔ اس مثالی دین نے مرد و زن کو وہ احکام اور تعلیمات فراہم کیں جو دونوں کی جسمانی اور حیاتیاتی ضروریات کے مطابق تھیں۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ لوگ جو عورتوں پر ظلم ڈھاتے تھے، ان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے اپنی خواتین کو رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ عمل بنا دیا۔
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اسے ایک بہترین انسان، بہترین ماں اور بہترین بیوی، بیٹی اور بہن بنائے۔ اس کا دائرہ عمل گھر ہے، اس لیے خاص توجہ کے ساتھ ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکے۔ مزید براں، وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے، اس کے اخلاق کو سنوارنے والے، اور اس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لیے ضروری ہے۔
علاوہ ازیں، اگر کوئی عورت غیرمعمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہے تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے، بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں۔ بلکہ زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام علوم کا حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
حدود سے آگے بڑھ جانے سے فتنوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے احترام انسانیت کو باقی رکھا، وہ ہمیشہ معاشرے کی بقاء اور تعمیر کی وجہ بنے ہیں۔ تعمیر ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور تعمیر و ترقی زندہ معاشروں کی مثال ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024