آئی آئی ٹی کانپور تحقیقاتی کمیٹی نے کہا کہ فیض کی نظم گانے کی جگہ اور وقت مناسب نہیں تھا

نئی دہلی، 17 مارچ: انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) کانپور کیمپس میں گذشتہ سال شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران طلبا کی جانب سے فیض احمد فیض کی نظم گانے پر تنازعہ کے بعد انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض کی نظم پڑھنے کا وقت اور جگہ مناسب نہیں تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیٹی نے اس احتجاج میں پانچ طلبا اور چھ اساتذہ کے کردار پر کہا کہ یہ مناسب نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے ان اساتذہ اور طلبہ کی کاؤنسلنگ کی بھی تجویز دی۔

واضح رہے کہ 17 دسمبر 2019 کو آئی آئی ٹی کانپور کے طلبا کے ایک گروپ نے اجتماعی طور پر کیمپس میں فیض کی ‘ہم دیکھیں گے’ گائی تھی، جس کے بعد ایک فیکلٹی ممبر کی شکایت کی بنیاد پر اس نظم کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی کہ آیا یہ نظم ہندو مخالف ہے۔

آئی آئی ٹی کے طلبا پر الزام لگایا گیا کہ دہلی میں جامعہ ملیہ یونی ورسٹی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر دہلی پولیس کی طرف سے کی جانے والی وحشیانہ کاروائی کے خلاف اجتماعی طور پر فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ گائی تھی، جو شکایت کنندہ کے مطابق ہندو مخالف ہے۔

آئی آئی ٹی کانپور کے عارضی استاذ وشیمنت شرما نے یہ شکایت درج کروائی تھی کہ فیض کی اس نظم سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

اس تنازعہ کے بعد IIT انتظامیہ نے کمیٹی کو اس بات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

کمیٹی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر منندر اگروال نے کہا ’’کمیٹی نے گذشتہ ہفتے ہی رپورٹ پیش کی۔ کمیٹی نے محسوس کیا کہ جس وقت اور جگہ پر فیض کی نظم پڑھی گئی وہ مناسب نہیں تھا اور یہ کہ جس شخص نے نظم پڑھی تھی اس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور ایک نوٹ لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ اسے افسوس ہے کہ اس کی وجہ سے کسی کے احساسات کو ٹھیس پہنچی۔ اس لیے اب یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ کمیٹی کو یہ کیسے لگا کہ نظم گانے کا وقت اور جگہ مناسب نہیں تھی؟ انھوں نے کہا ’’ماحول بہت ہنگامہ خیز تھا۔ اس وقت مختلف نظریات اور ثقافت کے لوگ موجود تھے، جو ناراض تھے۔ کسی کو بھی ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہیے جس سے دوسرے لوگ مشتعل ہوں۔ عام حالت یا دنوں میں بہت سارے کام میں بھی کرتا ہوں جو مجھے پریشان کن حالات میں نہیں کرنے چاہیے۔‘‘