’’یو پی نفرت انگیز سیاست کا مرکز بن چکا ہے‘‘: 100 سے زیادہ سابق آئی اے ایس افسران نے آدتیہ ناتھ کو کھلا خط لکھ کر ’’لوجہاد‘‘ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، دسمبر 30: دی نیشنل ہیرالڈ کی خبر کے مطابق 100 سے زائد سابق سرکاری ملازمین نے منگل کے روز اترپردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی حکومت کے  ’’غیرقانونی اور مظالم‘‘ سے متعلق نیا مذہبی تبدیلی کے قانون واپس لیں، جو ایک سازشی من گھڑت اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کا استعمال خاص طور پر مسلمان مردوں اور خواتین‘‘ کو شکار کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، جو اپنی پسند کی آزادی کا استعمال کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ ’’لو جہاد’’ ہندوتوا تنظیموں کے ذریعے استعمال کی جانے والی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے تحت وہ  مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے نام پر مسلمان بنانے کا الزام لگاتے ہیں۔

اترپردیش حکومت کے ذریعے ایک آرڈیننس لانے کے بعد حال ہی میں اس اصطلاح کو قانون کا حصہ بنادیا گیا، جس میں زبردستی مذہبی تبدیلیوں پر سزا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون کی منظوری کے ایک ماہ کے اندر ریاستی حکومت نے مسلمان مردوں کو نشانہ بناتے ہوئے گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھا دیا ہے۔

سابق بیوروکریٹس نے کہا کہ اترپردیش ’’نفرت، تفرقہ اور تعصب کی سیاست کا مرکز بن گیا ہے‘‘اور ہندوتوا گروپ ’’بے گناہ ہندوستانی شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کررہے ہیں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری ادارے بھی ’’اب فرقہ ورانہ زہر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘

خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن، سابق سکریٹری خارجہ نروپما راؤ اور وزیر اعظم کے سابق مشیر ٹی کے اے نیّر شامل ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ان جیسے قوانین کی مدد سے اتر پردیش حکومت خود کو ایک آمرانہ حکومت میں تبدیل کر چکی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ ’’آپ قوم کے لیے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے خلاف بناکر اس سے بڑا خطرہ نہیں بنا سکتے، یہ تنازعہ ملک کے دشمنوں کی مدد کر سکتا ہے۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غیرقانونی آرڈیننس کو جلد ہی واپس لیا جائے اور ان ہندوستانیوں کو، جنھیں اس کے غیر آئینی نفاذ کا سامنا کرنا پڑا، مناسب معاوضہ دیا جائے۔‘‘