یوگی آدتیہ ناتھ کو تغذیہ کی کمی دور کرنے سے زیادہ آبادی پر کنٹرول کی فکر

دوبچے پیدا کرنے کا قانون خواتین کے ساتھ زیادتی ہوگی

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

ایک ہو تو راحت، دو ہوں تو مصیبت اور تین ہوجائیں تو آفت۔ آپ اگر سوچ رہے ہیں کہ یہ ہندوستانی سیاست کے ’امر اکبر انٹونی‘ کی بات ہو رہی ہے تو وہ اندازہ غلط ہے۔ اس میں شک نہیں جب یہ تینوں ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ’ہونی کو انہونی اور انہونی کو ہونی‘ کر دیتے ہیں۔ ایسا حقیقت کی دنیا میں تو نہیں ہوتا مگر ذرائع ابلاغ میں تو ہو ہی جاتا ہے۔ جیسے بغیر کسی محنت ومشقت کے اتر پردیش میں اچانک راتوں رات دس اسمارٹ سٹی نمودار ہو گئے اور وہاں کے باشندوں کو اس کی اطلاع اخبار سے ملی۔ اسے پڑھ کر بھکتوں نے راحت کا سانس لیا، مخالفین کے لیے یہ خبر مصیبت بن گئی اور عام لوگ اس نئی آفت سے بچنے کے لیے فکر مند ہوگئے۔ خیر وہ پہلا جملہ ان تینوں طبقات کے بارے میں بھی نہیں ہے بلکہ یہ بات آج کل اتر پردیش میں بچوں کی بابت زبان زدِ عام ہوگئی ہے۔ ایسے میں اگر کسی کو فیض احمد فیض کا مشہور شعر یاد آتا ہے تو یہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
یو پی میں جن بچوں کو راحت سے لے کر آفت تک کے لقب سے نوازا جا رہا ہے وہ بڑی مصیبت میں ہیں۔ بچوں کی فلاح وبہبود کی خاطر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق اتر پردیش میں ان کی زندگی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوسکتی ہے۔ ملک بھر میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات یو پی میں سب سے زیادہ سے ہے۔ یو پی میں روزانہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً سات سو بچے لقمۂ اجل ہوجاتے ہیں اس طرح سال بھر کے اندر ریاست کے تقریباً تین لاکھ اسی ہزار بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی غذائیت کی کمی واسہال وغیرہ کا شکار ہوکر فوت ہو جاتے ہیں۔ یوگی جی ان بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے تو کچھ کرنا نہیں چاہتے جو صحت، تغذیہ اور تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں ہاں ان کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے ایسے میں اٹھارہ سال سے کم عمر 85.3 ملین بچوں کا تباہی کے دہانے پر کھڑا ہونا حیرت کی بات نہیں ہے۔
اکتوبر 2013 کے اندر آر ایس ایس کی قومی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہندوؤں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی آبادی میں اضافے کے لیے کم از کم تین بچے تو ضرور پیدا کریں۔ اس کے بعد بی جے پی رکن پارلیمان ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی نے ہندوؤں سے چار چار بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ظاہر ہے آر ایس ایس کو اپنی شاکھا میں جتنے بچوں کی ضرورت ہے بی جے پی کو اس سے زیادہ رائے دہندگان درکار ہیں۔ ایسے میں وشوا ہندو پریشد کے سابق صدر ڈاکٹر پروین توگڑیا نے بریلی میں وشوا ہندو پریشد کے پچاسویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "چار بچوں کی بات کرنے پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا ہو رہا ہے؟ جب مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تو لوگ کیوں چپ رہتے ہیں۔ مسلمان چار شادیاں اور دس بچے پیدا کرتے ہیں، اگر دو بچوں کی بات کرنی ہے تو قانون بنایا جائے، جو لوگ زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔” حیرت کی بات ہے کہ توگڑیا کے مطالبے پر جب قانون بن رہا ہے تو وی ایچ پی اس کی مخالف ہے۔
مہاراشٹر کے مالیگاؤں دھماکہ کی اہم ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے سن 2018 میں ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرکے امیت شاہ کا اس طرح دل جیتا کہ انہیں بی جے پی نے بھوپال سے ٹکٹ دے کر رکن پارلیمان بنادیا جبکہ وہ ہنوز ملزم ہے۔ اس پر انتیس ستمبر 2008 کو مالیگاؤں میں ایک موٹر سائیکل کے اندر بم لگا کر دھماکہ کرنے کا الزام ہے۔ اس دھماکے میں آٹھ لوگوں کی موت اور اسی لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں سادھوی پرگیہ کو 2008 میں گرفتار ہوئیں تقریباً نو سال جیل میں رکھنے کے بعد اپریل 2017 میں ضمانت دی گئی۔ ہیمنت کرکرے کی ناگہانی موت کو اپنی بددعا کا نتیجہ بتانے والی پرگیہ خود کو گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی مداح بتاتی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں قومی سلامتی کا رکن بنایا گیا اور بعد میں رسوا کر کے ہٹایا بھی دیا گیا۔ اسی سادھوی نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ ملک کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ملک کے مفاد میں زیادہ بچے پیدا کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کی پرورش ہماری‘‘۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس عورت نے خود شادی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہو وہ بھلا دوسروں کے بچوں کی پرورش کیسے کرسکتی ہے؟ ہاں ان کی مدد سے دھماکے ضرور کرواسکتی ہے۔ سادھوی پرگیہ نے جوش میں آکر ہندوؤں کو للکارا تھا کہ ’’یہ بھگوا آپ کو پکار رہا ہے کہ ابھی ملک کو آپ کے بچوں کی ضرورت ہے اس لیے زیادہ بچے پیدا کرو۔ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے، آپ کو اس پر غور کرنا ہوگا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اگر آپ لوگ کئی پرگیہ سنگھ کھڑی کر دو اور اگر ان میں سے ایک کو سازش کے تحت جیل میں ڈال کر مار دیا جائے گا تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ یہ بات تو درست ہے کہ پرگیہ ٹھاکر کے جیل میں مرجانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پھر ایسے بیان کون دے گا جسے وزیر اعظم کبھی دل سے معاف نہ کریں مگر اس کے خلاف کوئی اقدام بھی نہ کریں۔ آر ایس ایس کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ناپختہ جذباتی لوگوں کے بیانات سے سنگھ کا کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اپنے سربراہ موہن بھاگوت کی زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کا کیا کریں گے؟
انیس اگست 2017 کو آگرہ میں منعقدہ ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ دوسرے مذہب والے جب اتنے بچے پیدا کر رہے ہیں تو کیا آپ کو کسی قانون نے روک رکھا ہے؟ یہ درست بات ہے کہ اس میں کوئی قانونی پابندی نہیں ہے لیکن اسی طرح کی پابندی شادی کرنے پر بھی نہیں ہے۔ ایسے میں آر ایس ایس اپنے پرچارکوں کو شادی کی اجازت کیوں نہیں دیتا اور پرچارک خود شادی کرکے بچے پیدا نہ کرے تو اس کی ترغیب کیونکر موثر ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی قانون ہندوؤں کو بچے پیدا کرنے پر پابندی نہیں لگاتا اور اس طرح کے فیصلے خاندانی صورت حال اور ملک کے مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے لینا چاہیے۔ وی ایچ پی نے ہندوؤں سے کئی بچے پیدا کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ صرف ایک شادی شدہ جوڑے کا نہیں ہو سکتا ہے، جب ملک کی بات آتی ہے تو یہ معاملہ اجتماعی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ یوگی جی نے یہ قانون بنا کر ان سارے لوگوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے لیکن ان کا کچھ نہیں بگڑا اس لیے کہ ان سب نے نہ شادی کی اور نہ بچے پیدا کیے۔ مصیبت تو ان لوگوں کے لیے کھڑی ہو گئی جنہوں نے دیش بھکتی کے نشے میں ان بال برہمچاریوں کی بات مان کر دو سے زیادہ بچے پیدا کر دیے۔ اب ان بیچاروں کو نہ تو سرکاری نوکری ملے گی اور نہ ترقی ہوگی بلکہ ان بچوں کو پالنے کی خاطر سرکاری سہولتوں تک سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ دیش بھکت اب سنگھ کی کسی بات پر کیسے اعتبار کریں گے؟
یوگی حکومت نے نئی آبادی پالیسی فی الحال ایک مسودہ ہے جس پر رائے لی جا رہی ہے سمجھدار لوگ اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کررہے ہیں کیونکہ مثل مشہور ہے بھینس کے آگے بین بجاو بھینس کھڑی پورائے۔ آج کل قوانین دلائل کی بنیاد پر نہیں تعداد کے سہارے منظور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے مجوزہ قانون گزٹ شائع ہونے کے ایک سال بعد نافذ العمل ہونے کے قابل ہوجائے گا لیکن اس وقت سے پہلے اگر یوگی جی اقتدار سے باہر ہو گئے تو اگلی حکومت اسے کچرے کی ٹوکری دکھا دے گی اور 2022 سے 2030 تک کے لئے نئی آبادی پالیسی نافذ کرنے کا خواب ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ اس قانون کے حوالے کیا جانے والا یہ دعویٰ صد فیصد درست ہے کہ اس میں تمام طبقات کا خیال رکھا گیا ہے۔ مثلاً قانون نافذ ہوتے وقت حمل ہونا اور حمل میں جڑواں بچے ہونے کی صورت میں یہ قانون نافذ نہیں ہوگا۔ دو بچے معذور ہونے پر تیسرے بچے کو سہولتوں سے محروم نہ کرنا وغیرہ۔ اس مسودے کے مطابق تیسرے بچے کو گود لینے پر پابندی سے استثنیٰ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے مسودے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر کثرت ازدواج کا لحاظ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ سے اس کی توقع خود ان کو بھی نہیں رہی ہوگی۔ مسودے کے اندر ان جوڑوں کے لیے خصوصی دفعات شامل کی گئیں ہیں جن کو مذہبی یا پرسنل لاء کے تحت ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے مطابق اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادیاں کرے اور جب تک اس کی تمام بیویوں کے دو سے زیادہ بچے نہ ہوں تو وہ سہولتوں سے محروم نہیں ہو گا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان چار نکاح کرے اور ہر بیوی کے دو دو بچے ہوں تو سرکاری مراعات حاصل کرسکے گا۔ اس مسودے کے اندر مردوں کو تو ایک سے زیادہ بیویوں سے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر ہی مصیبت آتی ہے لیکن اگر عورت ایک سے زیادہ شادیاں کرتی ہے اور مختلف شوہروں سے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر سہولیات محروم ہو جائے گی۔ ایسے میں کسی تین بچوں کی طلاق شدہ خاتون یا بیوہ سے کوئی نکاح نہیں کرے گا۔ دو بچوں کی ماں سے شادی کرنے والا اپنا بچہ پیدا کرنے سے گریز کرے گا اور غیر مسلم تو دوسری شادی بھی نہیں کر سکے گا۔
تین طلاق کا قانون بنا کر مسلم خواتین سے ہمدردی جتانے والوں کے ذریعہ وضع کردہ یہ قانون ہر زاویہ سے عورتوں کے ساتھ نا انصافی کا موجب بنے گا۔ ایک تو دو سے زیادہ بچوں کا باپ بلدیاتی انتخاب لڑنے کی خاطر اپنی بیوی کو چھوڑ دے گا اور ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ اس طرح کے قانون سے ایک طرف تو بچی کا اسقاطِ حمل کا امکان بڑھ جائے گا جس سے ماں کی جان اور صحت کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ خواتین کو بے یارو مددگار چھوڑ کر سیاسی رہنما اپنی کرسی بچانے کی فکر کریں گے۔ یوگی جی کو توقع رہی ہوگی کہ مسلمان اس قانون کا نام سنتے ہی زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے میدان میں اتر جائیں گے اور وہ ہندو رائے دہندگان سے کہہ سکیں گے کہ یہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کو سبق سکھا دیا۔ ان کے اکثریت میں آکر تم پر راج کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا اس لیے اب احسان مندی کا تقاضہ ہے کہ ہماری ساری کوتاہیوں کو بھول کر ہمیں دوبارہ اقتدار سے نواز دو۔
اس مسئلہ پر این ڈی اے میں شامل وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا کہنا کہ صرف قوانین ہی آبادی میں ہونے والے اضافے پر قابو پانے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ ان کے مطابق یہ بات بہت سارے تحقیقی کام کے بعد معلوم ہوئی ہے کہ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوں تو نسل نو کی شرح مؤثر طریقے سے کم ہو جاتی ہے۔ بہار نے لڑکیوں کے درمیان تعلیم کو فروغ دے کر اس کا تجربہ کیا ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2040 کے بعد ریاست کی آبادی میں منفی اضافہ ہو گا۔ اتر پردیش میں حزب اختلاف اس کو امن وامان کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتا ہے۔ یوپی میں حزب اختلاف کے لیڈر رام گووند چودھری کا کہنا ہے کہ ’’اگر کسی کی دو بیٹیاں ہیں تو کیا وہ ایک بیٹے کی امید میں تیسرے بچے کی خواہش نہیں کرے گا۔ آبادی پر قابو پانے کا قانون پہلے ہی موجود ہے۔‘‘ اس کے نتیجے میں اسقاط حمل کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گا اور بیٹے کے خواہشمند لوگ دوسری بیٹی کا حمل گرا دیں گے۔ اس بابت قرآن کا فرمان واضح ہے: ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘۔
یہ قانون بے شمار مسائل کو جنم دے گا لیکن یوگی جی سے انتخاب جیتنے کی فکر نت نئی حماقتیں کروا رہی ہے۔ یوگی جی کے اس منصوبے کو مسلم رہنماوں نے اپنی دانشمندی سے خاک میں ملا دیا۔ اس کی مخالفت کرنے کے بجائے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان شفیق الرحمن برق نے اس بل کو ’’انتخابی پروپیگنڈا‘‘ قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا ’’وہ (بی جے پی) ہر چیز کو ایک سیاسی زاویہ سے دیکھتی ہے۔ وہ صرف انتخابات جیتنا چاہتی ہے اور عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ چوں کہ اسمبلی انتخابات وہ ہار ہے ہیں، لہذا انہیں اس کی فکر ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم ان کو جیتنے نہیں دیں گے۔‘‘ کانگریس کے رہنما سلمان خورشید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت سے پوچھا کہ وہ اس قانون کو بنانے سے قبل یہ بتائے کہ اس کے وزرا کے کتنے ’’جائز اور ناجائز بچے‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہا ’’سیاست دانوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ان کے کتنے بچے ہیں۔ میں بھی یہ بتاؤں گا کہ میرے کتنے بچے ہیں اور پھر اس پر تبادلۂ خیال کیا جانا چاہیے۔‘‘ اس طرح یوگی جی کے اس کی مدد سے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کے ارادوں پر خاک پڑ گئی۔ بی جے پی کے اس کھیل کو اب مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی سمجھ چکے ہیں اس لیے وہ آسانی سے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔
سلمان خورشید کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اتر پردیش میں کل 397 ارکان میں سے 304 بی جے پی کے ہیں۔ ان میں 152 کے دو سے زیادہ بچے ہیں یعنی اگر اسمبلی کے لیے بھی یہ قانون بن جائے تو بی جےپی کے پچاس فیصد ارکان اسمبلی کالعدم قرار پائیں گے۔ ویسے ایک بی جے پی رکن کے آٹھ بچے بھی ہیں اور ایک صاحب سات بچوں کے باپ ہیں۔ آٹھ ایسے ہیں جنہوں نے چھ چھ بچوں کو جنم دیا ہے جبکہ پندرہ کے پانچ چوالیس کے چار اور تراسی کے تین اور صرف ایک سو تین ارکان اسمبلی کے دو بچے ہیں ۔ مجموعی طور پر باون فیصد ارکان اسمبلی کے دو سے زیادہ بچے ہیں۔سماجوادی پارٹی انچاس میں سے پچپن فیصد یعنی ستائیس کے دو یا اس سے کم بچے ہیں۔ دیگر جماعتوں کی بھی کم وبیش یہی صورتحال ہے۔ ایوان پارلیمان میں جملہ ایک سو چھیاسی ارکان کے دو سے زیادہ بچے ہیں ۔ان میں سے ایک سو پانچ کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ ایوان میں آبادی کو کم کرنے کا نجی بل گورکھپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان روی کشن نے پیش کیا۔ وہ خود چار بچوں کے باپ ہیں۔ چونکہ 1970 سے کوئی نجی بل پارلیمان نے منظور نہیں کیا اس لیے مذکورہ مسودے کا حشر جاننا مشکل نہیں ہے۔
ایک زمانے سے سنگھ پریوار ہندو عوام کے اندر خوف ودہشت پھیلا کر اپنی سیاسی دکان چمکانے کی خاطر یہ پروپیگنڈا کرتا رہا ہے کہ 2035ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 92.5 کروڑ ہو جائے گی جبکہ ہندوؤں کی آبادی صرف 90.2 کروڑ تک ہی پہنچ سکے گی۔ 2040ء تک ہندو تہوار منائے جانے بند ہو جائیں گے، بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور غیر مسلموں کا قتل عام ہو گا اور 2050ء کے آتے آتے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 189 کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا۔ ہندو انتہاپسند پہلے یہ پروپیگنڈہ ڈھکے چھپے انداز میں گمنام پمفلٹس کے ذریعے یا کبھی انٹرنیٹ پر بلاگز لکھ کر کیا کرتے تھے لیکن اب سوشل میڈیا پر یہ کام کھلم کھلا ہونے لگا ہے۔ اس طرح کا اشتعال انگیز شگوفہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ نام نہاد مہذب یورپ کے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بھی چھوڑا جاتا ہے۔ وہاںیہ کہا جاتا ہے کہ جس تیزی سے مسلمانوں کی آبادی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ ایک دن یورپ کی جگہ ’یوربیا‘ بن جائے گا۔ مغرب میں پھلنے پھولنے والے اسلاموفوبیا کی ایک وجہ اس قسم کی نفرت انگیزی بھی ہے۔
ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو 1961میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 10.7 فیصد تھی جبکہ ہندو 83.4 فیصد تھے۔ 2001میں مسلمان بڑھ کر 13.4فیصد ہو گئے اور ہندو کم ہو کر 80.5فیصد ہی رہ گئے۔ 2011کی رائے شماری کے مطابق اگر مسلمان بڑھ کر 14.2فیصد ہو گئے ہیں تو ہندوؤں کی آبادی ضرور گھٹ کر 80فیصد سے نیچے جا سکتی ہے۔ انہی اعداد وشمار کے حوالے سے ہندوتوا بریگیڈ کے کارندے ہندو سماج کو ڈرا اور اکسا کر مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح کے اندر گزشتہ دس سال میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ 1991ء سے 2001ء کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں انتیس فیصد اضافہ ہوا، جبکہ 2001ء سے 2011ء کی دہائی میں یہ اضافہ صرف چوبیس فیصد رہا یعنی پانچ فیصد کی کمی آگئی حالانکہ اٹھارہ فیصد کے قومی اوسط سے یہ اب بھی زیادہ ہے۔
سرکاری خاندان صحت قومی سروے کے اعداد وشمار کا جائزہ مذکورہ پروپیگنڈے کا پول کھول دیتا ہے۔ اس طرح کے تین سروے 1991-92، 1998-99اور 2005-06میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی مدد سے پندرہ سالوں میں تولیدی شرح، خاندانی منصوبہ بندی اور اسقاطِ حمل کے رجحان کا بہ آسانی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ 1991-92کے دوران ہندو خواتین کی تولیدی شرح 3.3 اور مسلمانوں کی 4.41 تھی۔ 1998-99میں ہندو خواتین یہ شرح 2.78 اور مسلمانوں میں 3.59درج کی گئی، 2005-06میں ہندوؤں میں 2.59جبکہ مسلمانوں میں 3.4 رہ گئی، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی نسل شرح میں ان پندرہ سالوں کے دوران مسلسل کمی آئی ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر دنیش سنگھ نے اعداد وشمار پر مشتمل جو ماڈل تیار کروایا تھا اس کے مطابق گزشتہ ستر سالوں کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف چار فیصد ہوا ہے اور اگر پچھلے چھ سو سال کا جائزہ لیا جائے تو ان آبادی چالیس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ پائی ہے۔ہندوستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی نئی کتاب میں آبادی کے حوالے سے کئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ قریشی نے لکھا ہے ’’ساٹھ برسوں میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً چار فیصد تک کم ہوئی ہے جو دوسرے مذاہب میں تقسیم ہوگئی۔ مسلمانوں میں تھوڑا اضافہ ہوا ہے لیکن اگر ساٹھ برس میں چار فیصد آبادی بڑھی تو اس حساب سے آبادی کو چالیس فیصد بڑھنے میں چھ سو برس لگیں گے تب جاکر مسلمان ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہو پائیں گے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے نہ اپنائے جائیں۔ یعنی جو لوگ روزانہ یہ خوف دکھاتے ہیں کہ جلد ہی مسلمانوں کا ملک پر قبضہ ہوجائے گا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ ملک کے ہندو عوام اپنے آس پاس رہنے والے مسلمانوں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اس لیے ان کا اس طرح کے بے سروپا پروپگنڈے کا شکار ہونا اب مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ہندو عوام یہ جان گئے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کا چال، چرتر اور چہرہ یکسر بدل جاتا ہے۔ سرکار بنانے سے قبل وہ کہتے ہیں کہ تیس روپیہ لیٹر پٹرول دیں گے اور بعد میں فی لیٹر 30 روپیہ ٹیکس لگا کر اسے سو روپیہ سے مہنگا کر دیتے ہیں۔ آبادی کا معاملہ بھی وہ اسی طرح کے دوغلے پن کا شکار ہے۔
***

یوگی جی کو توقع رہی ہوگی کہ مسلمان اس قانون کا نام سنتے ہی زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے میدان میں اتر جائیں گے اور وہ ہندو رائے دہندگان سے کہہ سکیں گے کہ یہ دیکھو ہم نے مسلمانوں کو سبق سکھا دیا۔ ان کے اکثریت میں آکر تم پر راج کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا اس لیے اب احسان مندی کا تقاضہ ہے کہ ہماری ساری کوتاہیوں کو بھول کر ہمیں دوبارہ اقتدار سے نواز دو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021