یروشلم کو یاد ہے

شیخ علی طنطاویؒ  ترجمہ : محمد اکمل فلاحی

میرییٹ بہت دیر سے گھرمیں چکر لگارہی تھی، وہ اپنے شوہرکے لیے فکرمند اور بے چین تھی، اسے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ کسی مصیبت کا شکار نہ ہوجائے، اسے ایک پل چین نہ تھا، وہ اپنے دودھ پیتے بچے کو سینے سے لگا لیتی، اس سے کبھی سرگوشی کرتی اور کبھی زور زور سے دل کو بہلانے والی باتیں کرنے لگتی، پھر اس پر مایوسی چھا جاتی، اسے لگتا کہ اس کے جگر کا ٹکڑا یتیم ہوگیا ہے، اس کا اب کوئی باپ نہیں، یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھوں سے بچے کے چہرے پر آنسو ٹپکنے لگتے، جس سے وہ ڈر کر اٹھ جاتا اور رونے لگتا اور یوں محبت کے آنسو طفولت کے آنسوؤں میں جا ملتے۔
اس کا شوہر مسلمان دشمنوں کو بیت المقدس سے دفع کرنے کی مہم پر صبح سویرے نکلا تھا اور اب سورج غروب ہوا چاہتا ہے مگر وہ اب تک نہیں لوٹا، نہیں معلوم اسے کیا ہوا۔
میرییٹ ایک بہادر اور مضبوط دل لڑکی تھی، خوف نام کی چیز سے وہ ناآشنا تھی، حوادث سے ذرا بھی نہ گھبراتی، لیکن حطین کے واقعہ نے ہر فرنگی بہادر کے دل کو دہلا کر رکھ دیا اور ان کے ہر شہسوار کے دل سے کامیابی کی امید کو نکال پھینکا تھا؛ حطین کی جنگ نےان کی فوجوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور بہادروں کے دلوں کو ہراساں کرکے رکھ دیا تھا۔ ایسی حالت میں نازک جسم اور کم زور دل عورتوں کا کیا حال ہوا ہوگا؟
میرییٹ کا شوہر میدان کا شہسوار اور قوم کا ہیرو تھا، وہ اپنی بیوی سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، ان کی زندگی نعمت و آسائش میں ڈوبی ہوئی تھی، ان کا گھر ان کے لیے گویا جنت تھا۔ لیکن اسے اس کی محبت نے اپنے وطن کی محبت، صلیب سے تعلق اور ہمیشہ صلیبیوں کا جنگ جو معلّم اور ان کا ہیرو بنے رہنے سے پیچھے نہیں رکھا۔ وہ جب بھی تیروں کی سنسناہٹ سنتا دوڑ پڑتا، جنگ کا منادی جب آواز دیتا وہ سب سے پہلے لبیک کہتا۔
دروازہ کھلا اور میرییٹ کا دل دھڑکنے لگا اور اس کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگی، نہیں معلوم کہ آنے والا لمحہ خوش خبری لے کر آرہا ہے یا بری خبر، یکایک وہ دیکھتی ہے کہ اس کا شوہر صحیح سالم اس کی طرف بڑھ رہا ہے، وہ اپنے دونوں بازو اس کی طرف بڑھاتا ہے اور وہ خود کو اس کی باہوں میں ڈال دیتی ہے، اس سے فتح و نصرت کی باتیں کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: یسوع نے دشمنوں کو بھگادیا، ان کے بازوؤں کو توڑدیا وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ اے میری جان! مسیح کا اقتدار یروشلم میں ہمیشہ کے لیے مسند نشین ہوگیا ہے، میرییٹ! اگر تم انھیں دیکھتیں جب کہ دہشت نےان کی عقل کو اڑادیا تھا جس وقت انھوں نے صلیبی بہادروں اور صلیبی شہسواروں کو شہر کی فصیلوں پر سے کودتے ہوئے دیکھا انھوں نے ان کے خیموں کو تہس نہس کردیا اوروہ حواس باختہ الٹے پاؤں سرپٹ بھاگے۔ تو تمھیں اس بات کا یقین نہ ہوتا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے جنگ حطین میں ہمیں شکست دی تھی۔ وہ بدکی ہوئی بھیڑوں کی طرح بھاگے۔ اےکاش یروشلم کے یہ بہادر حطین میں ہوتے تو انھیں دکھادیتے کہ جنگ کیا چیز ہوتی ہے! سنو! صلیب مقدس ہے اور ناصری کا نام بلند ہے! اور یروشلم ہمیشہ کے لیے ہمارا ہے!
وہ فتح کے جشن میں شرکت کے لیے اس کے ساتھ بڑے چرچ گئی۔ وہ راستے میں اس سے ان وحشی کافروں (یعنی مسلمانوں) کے بارے میں باتیں کرتا رہا، وہ ان کے دین کی برائی کرتا اور ان کے گنوار پن کو بیان کرتا، وہ یہ بھی بتاتا کہ وہ اپنے دشمنوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کا خون پیتے ہیں، وہ اس کے سامنے ان کے بادشاہ (صلاح الدین) کی اسی طرح کی تصویر پیش کرتا جس طرح کی اس سے کاہنوں اور چرچ کے لوگوں نے بیان کی تھی، یہ سب سن کر اس کی پسلیاں اس بھیانک تصویر سے تھرتھرانے لگتیں، وہ اپنے بچے کو سینے سے لگالیتی، صلیبی نشان چومتی اور تمام عیسائی ولیوں، یسوع اور مریم سے مدد کی دعا کرتی کہ وہ سب اسے اس (صلاح الدین) تک نہ پہنچنے دیں اور اس کا ڈراؤنا چہرہ اسے کبھی نہ دکھائیں!
جشن ختم ہوگیا، لوگ چرچ سے واپس لوٹ گئے، وہ محسوس کررہی تھی کہ دنیا نے آرزوؤں اور تمناؤں کی باگ ڈور ان کے قدموں میں ڈال دی ہے، زمانے نے ان کی حکومت قبول کرلی ہے اور ان کی مرضی کے موافق ہوگیا ہے، وہ بستر پر دراز ہوگئی اور امیدوں کے محل تعمیر کرنے لگی۔ جب اس نے تصور میں دیکھا کہ پورا ملک صلیبیوں کا ہوگیا ہے اور اس کی گلی کوچوں میں نہ مسجد کا کوئی مینار باقی بچا ہے اور نہ اس کی فضا میں اذان کی آواز سنائی دے رہی ہے اور اس کا شوہر عہدوں پر فائز ہوکر اعلی ترین منصب پر پہنچ چکا ہے تو اپنی آنکھیں خوب صورت احساس کے ساتھ بند کرلیں اور اس کے ساتھ ہی خوابوں کی گود میں چلی گئی۔ لیکن یہ کیا، وہ گہری نیند میں بہت ڈراؤنا خواب دیکھنے لگتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ پورا شہر لرز رہا ہے، اس کے قلعے چور چور ہو رہے اور اس کی فصیلوں کے پتھر گر رہے ہیں، جیسے کسی کم زور چڑیا کا گھونسلا شکاری عقاب کے بازو کے ایک ہی وار سے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتا ہے۔
اس کے کانوں سے چیخ پکار کی آوازیں ٹکراتی ہیں، جن میں مردوں کی آوازیں بھی شامل تھیں، اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے، تووہ جھٹ سےاٹھ کر اپنے بچے کو اٹھالیتی ہے اور اپنے شوہر کے بستر کی طرف دیکھتی ہے مگر اسے اس کی جگہ پر نہیں پاتی ہے، وہ فوراً باہر نکل جاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ ماجرا کیا ہے، لوگ اسے بتاتے ہیں کہ صلاح الدین نے شہر کا چکر لگایا، کوہ زیتون پر ٹھہرا پھر شہر پر زلزلہ برپا کردینے والا حملہ کردیا، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ حملہ شہر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا جس طرح کسی پودے کو نرم زمین سے اکھاڑ پھینکا جائے، اس نے اس پر چھوٹے بڑے منجنیق برسائے اور بھڑکتی ہوئی آگ کی بمباری کی اور اس کی فوج طوفان کے مانند فصیلوں پرحملہ آور ہوگئی۔ نہ تو ہماری آگ انھیں جلا پارہی تھی اور نہ ہمارے فولادی ہتھیار انھیں کاٹ پا رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے ساری شیطان طاقتیں ان کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہی ہوں۔
میرییٹ کو اپنے شہر کی دفاعی قوت پربھروسا تھا؛ کیونکہ یروشلم وہ شہر تھا جو ایک دو برس سے نہیں بلکہ سو سال سے ان کے قبضے میں تھا اور اس میں ساٹھ ہزار چنے ہوئے صلیبی فوجی تھے، جن کا سالار مشہور جنگجو بالیان تھا اور جن کی باگ ڈور بڑے پادری کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اس اچانک حادثے نے میرییٹ کو دہلا کر رکھ دیا، اب اس کے دل میں وسوسے پیدا ہونے لگے۔
اس کے پاس برابر خبریں پہنچنے لگیں اور ہر خبر پہلی خبر سے کہیں زیادہ بری ہوتی۔ وہ منٹ منٹ پر شدید اور تیز حملے اور دفاعی ذخیروں کے برباد ہونے کے بارے میں نئی خبر سنتی، یہاں تک کہ فصیلوں پر سفید جھنڈوں کے بلند کیے جانے کی خبر پہنچ گئی اور اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی کہ صلاح الدین کی فتح کا اعلان ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ صلیبیوں کا معاہدہ ہوگیا ہے کہ جو بھی شہر سے جانا چاہے وہ چالیس دن کے اندر جاسکتا ہے اور جو رہنا چاہے وہ صلاح الدین کی حکومت کے تحت رہ سکتا ہے اور شہر کے دروازے اس کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
میرییٹ لوگوں کو آہ و زاری میں چھوڑ کر دیوانہ وار اپنے محبوب شوہر کی تلاش میں نکل جاتی ہے، وہ اندھیرے میں فصیلوں کے ارد گرد چکر لگاتی ہے، وہ کھلے ہوئے دروازوں سے فاتح فوجیوں کو قندیلیں اور ڈھول لیے ہوئے داخل ہوتے دیکھتی ہے تو اپنا ہاتھ اپنے بچے پر پھیلا لیتی اور دور چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ میدانِ جنگ پہنچ جاتی ہے، اس کے قدم صلیبیوں کے گرے ہوئےجھنڈوں پر پڑتے ہیں جو فوجیوں کی لاشوں میں لتھڑے ہوئے تھے، یہ منظر دیکھ کر اس کے دل پر دہشت چھا جاتی ہے اور وہ لوٹ جانے کا ارادہ کرلیتی ہے، لیکن پھر اپنے آپ پر قابو پاتی ہے اور ہمت کر کے چل پڑتی ہے، وہ اپنے شوہر کی تلاش میں نکلی تھی، وہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی جب تک اسے پا نہ لے یا اس کی کوئی خبر اسے مل جائے۔ اس کے ارد گرد بہت سی عورتیں اور مرد تھے جو اسی کی طرح اپنے قریبی رشتے داروں کو تلاش کر رہے تھے، وہ اپنے دوستوں اور خاندان کے مقتولین کے چہرے پہچاننے کی کوشش کرتی ہے، اسے تاریکی کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
اسے سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والی چیز لوگوں کا اس سے بے رخی برتنا تھا، بڑی مصیبت کی وجہ سے ہر ایک نفسا نفسی کےعالم میں تھا، گویا وہ حشر کا دن ہو جس میں ہر ایک نفسی نفسی میں تھا۔ وہ واپس لوٹی اس کے ذہن میں رات پیش آنے والے اس قصے کے مناظر گھوم رہے تھے، جس کا آغاز فتح، عظمت، محبت اور وصال سے ہوا تھا مگر اختتام کڑوی ناکامی، تباہ کن شکست اور طویل جدائی پر ہورہا تھا۔ میرییٹ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سو سال سے قائم یہ عظیم قلعہ پل بھر میں منہدم ہوجائے اور جسے بنانے میں پورے یورپ کا ہاتھ اور ساتھ رہا ہے اسے ایک آدمی گرادے! کیا ایک مسلمان حاکم صلیب کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں پر بھاری ہوسکتا ہے؟
وہ جس سے بھی ملتی اپنے شوہر کے بارے میں پوچھنے لگتی، مگر کوئی بھی نہیں رک کر اس کا جواب نہیں دیتا اور جب وہ کسی نرم دل آدمی سے ملتی اور اس سے پوچھتی تو اس کا جواب اس کے علاوہ کچھ نہ ہوتا کہ: ’’میں نہیں جانتا‘‘!
چاند بادلوں کے بیچ سے ہلکا ہلکا نمودار ہورہا تھا اور میدان میں پھیکی پھیکی اور مدھم مدھم روشنی بکھیر رہا تھا اس میں دنیا ایسی لگ رہی تھی جیسے وہ کسی بیمار اور دم توڑتے انسان کا چہرہ ہو، اسی بیچ اس نے لاشوں کے ایک ڈھیر کو دیکھا، جن کے اندر سے سنہری زرہیں ظاہر ہورہی تھیں اور ٹوٹے ہوئے نیزوں کے ٹکڑے اور تلواریں نظر آرہی تھیں، وہ دکھ میں ڈوب گئی، کیا یہ وہی سڑی ہوئی لاشیں ہیں جوصبح میدانِ جنگ میں لڑنے والے معزز سپاہی تھے اور صلیب کے قلعے اور ان کی چہار دیواری تھے، وہ دوبارہ اپنے شوہر کو تلاش کرنے اور چہروں کو غور سے دیکھنے لگی، اسی دوران اس کے پاس سے ایک عمر رسیدہ شخص کا گزر ہوا وہ اس کے شوہر کے مشفق سرپرستوں میں تھا، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے میدان سے باہر نکال لایا۔
حادثے نے اس کے ارادے کو چور چور کردیا تھا اور اسے ایسی عورت کی طرح بناکر چھوڑ دیا تھا جو کہ نیند میں چل رہی ہو، وہ اس کے اس کے ساتھ چل پڑی، راستے میں اس نے اس سے چپکے سے پوچھا: چچا جان! کیا آپ نے میرے شوہر کو دیکھا ہے؟
اس نے جواب نہیں دیا، اور بات کو دوسری طرف پھیر دیا، اس نے پھر پوچھا: چچا جان! یہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟ آپ کو کیا لگتا ہے، کیا وہ میرے بچے کو مجھ سے چھین لیں گے اور میری آنکھوں کے سامنے اس کا گوشت کھا جائیں گے؟
اس آدمی نے پہلو بدل کر کہا: اس طرح کی جھوٹی باتیں کس نے تم سے بتائیں؟ مسلمان تو شریف اور با اخلاق ہوتے ہیں اور ان کا بادشاہ (صلاح الدین) تو تمام بادشاہوں سے بہتر ہے۔
وہ مسلمانوں کی خوبیوں کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا اسے بتاتا جارہا تھا اور وہ حیرت کے مارے ہکا بکا تھی، اس کی باتیں نہ تو اسے سمجھ میں آرہی تھیں اورنہ وہ انھیں سچ مان رہی تھی۔ وہ دوبارہ کہنے لگا: اگر وہ ہمیں ذبح بھی کردیتے تو یہ ظلم نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے بارے میں انصاف کا فیصلہ ہی ہوتا؛ کیونکہ ہم جب یروشلم میں سوسال پہلے فاتحانہ داخل ہوئے تھے تو ہم نے انھیں گھروں، سڑکوں، مسجدوں غرض جہاں جہاں پایا قتل کیا، وہ ہم سے جان بچانے کی خاطر دیواروں کے اوپر سے کود جاتے، جن لوگوں کو ہم نے قتل کیا ان کی تعداد ستّر ہزار پہنچ گئی لیکن ہم میں سے کسی کے دل میں ذرا بھی رحم نہیں آیا اور کسی نے اس کی مذمّت تک نہ کی۔ بے شک ہم نے یہاں کے مسلمان شہریوں پر جو ظلم ڈھایا تھا اس کے لیے بڑی سے بڑی سزا بھی ناکافی ہے۔
صبیح ہوگئی تھی، لیکن میرییٹ کو رات کی صرف وہ آگ نظر آرہی تھی جو اس کے جگر کو جلا رہی تھی، اس کے اندر ایک نشتر سا تھا جو اسے چیر رہا تھا، وہ کافی پریشان ہوگئی تھی، اس لیے بھاگ کر اپنی سہیلیوں کے پاس آگئی، وہ سب جمع ہوکر آنے والی ہولناکیوں کا انتظار کررہی تھیں، اچانک وہ دیکھتی ہیں کہ یروشلم ایک زبردست آواز سے گونج رہا ہے جسے سن کر مسلمانوں اورعیسائیوں کے الگ الگ حلقے بن گئے ہیں؛ وہ لوگ ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا لگا رہے ہیں اور یہ لوگ گریہ و زاری کررہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ فاتحین کی فوجوں کا ایک آدمی قبّۂ صخرہ پر چڑھ جاتا ہے اور اس سنہری صلیب کو اس پر سے اتار دیتا ہے جو تقریباً سو سال تک اس پر لگی تھی اور جس کے بارے میں وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تاقیامت باقی رہے گی۔
شہرمیں مسلمان جوکچھ کررہے تھے اس کے بارے میں ان عورتوں تک خبریں پہنچ گئیں، لوگوں کو تعجب ہورہا تھا، وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھیں کہ مسلمانوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور کوئی مال نہیں چھینا، جو جانا چاہ رہا تھا اس نے جو چاہا اپنے ساتھ لے لیا اور نکل گیا، عیسائی اپنا فاضل مال ومتاع بازاروں میں بیچ رہے ہیں اور مسلمان ان سے اس کی قیمت کے مطابق خرید رہے ہیں، وہ بے خوف وخطر اور مطمئن چل پھر رہے ہیں، انھوں نے بھلائی، انسانیت اور لطف وکرم کےسوا کچھ بھی نہیں دیکھا اور انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمان تو تہذیب وتمدن والے ہیں، وہ نہ تو اجڈ اور گنوار ہیں اور نہ انسانوں کا گوشت کھانے والے درندے ہیں۔ حرم پاک رکھی ہوئی عیسائیوں کی چیزوں کو انھوں نے نکال دیا اور حرم کو اس کی پہلی حالت میں لوٹادیا، وہ منبر بھی لے آئے جسے حرم میں رکھنے کے لیے نور الدین زنگی نے بنوایا تھا، اسے حرم میں رکھا اور اس پر کھڑے ہوکر ان کے خطیب نےخطبہ دیا۔
ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے حرم میں جو کچھ دیکھا اور سنا ان سے بیان کرنے لگا، وہ بتارہا تھا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو کسی نے مجھے روکا اور نہ میرے بارے میں مجھ سے پوچھا، پھر میں مسلمانوں کے ساتھ گھل مل گیا، میں نے دیکھا کہ وہ سب زمین پربیٹھتے ہیں، ان کی مجلسوں میں کوئی تفریق نہیں ہوتی اور ان کا امیر کوئی امتیازی حیثیت نہیں رکھتا، ان کے اعضاء وجوارح پر خشوع طاری رہتا ہے، ان کے جسم پر سکون چھایا رہتا ہے اور وہ سب اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں، مجھے تعجب ہوا کہ یہ لوگ جو جنگوں میں بہادری کے زبردست جوہر دکھاتے ہیں وہ مسجد میں کس طرح عاجزی وانکساری کی تصویر بن جاتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک یہ صحیح معنوں میں مسلمان بن کر رہیں گے وہ کبھی مغلوب نہیں ہوسکتے چاہے دنیا کے سارے ممالک ان کے خلاف متحد کیوں نہ ہوجائیں، کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان کی طاقت تمام طاقتوں سےبڑی طاقت ہے؛ انھیں کوئی چیز ڈرا نہیں سکتی کیونکہ لوگوں کو موت سےڈرایا جاتا ہے اور وہ اس سے ڈرجاتے ہیں اور یہ تو ایسے لوگ ہیں جو موت سے محبت کرتے ہیں اور مرنا پسند کرتے ہیں۔ میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں، میں نے ان کی زبان میں گفتگو کی ہے، ان کے ساتھ گھل مل کر رہ چکا ہوں، ان کے دین اور طریقوں سے بخوبی واقف ہوں۔ سو سالوں سے قائم صلیب کو آج انھوں نے اتاردیا ہے اب وہ دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آسکتی ہے، اس گنبد پر صرف محمد کا پرچم ہی بلند رہے گا۔
میرییٹ نے دیکھا کہ اس کی قوم کے کچھ لوگوں نےاسلامی جھنڈے تلے رہنے کو ترجیح دے دی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے یہاں سے کوچ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس نے بھی کوچ کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن مسلمانوں کو ناپسند کرنے کی وجہ سے نہیں؛ کیونکہ سچائی کے سورج نے اوہام کی ظلمتوں کا پردہ چاک کردیا تھا اور ان کے بارے میں جو کچھ اس نے سنا تھا حقیقت نے اسے جھٹلادیا تھا، لیکن اب اسے وطن کی یاد ستارہی تھی اور وہ تنہا اس شہرمیں نہیں رہ سکتی تھی۔
قافلہ چل پڑا اور وہ بھی چل پڑی، وہ اپنے خیالات میں غرق تھی، اسے اپنے شوہر کا خیال آیا اس نے تصور کیا کہ وہ اس کے ساتھ ہے اور صلیبی جھنڈے تلے ظفر مند قافلے کے ساتھ چل رہا ہے، یہ سوچ کر وہ رو پڑی، اس کے رونے سے اس کے آس پاس کی عورتوں کی ہچکیاں بندھ گئیں، وہ اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے قیدیوں اور مقتولین پر رو رہی تھیں۔ پھر اچانک مسلمان فوجیوں نے انھیں ٹھہرنے کو کہا، بس وہ ڈر کے مارے چپ ہوگئیں اور ٹھہر گئیں اب انھیں اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تھا، یکایک انھیں مسلمانوں کی ایک جماعت ایک ٹیلے پر نظر آئی، ان کے درمیان ایک سردار اپنے گھوڑے پر سوار تھا، میرییٹ کا دل یہ سن کر دھک دھک کرنے لگا کہ: یہی سلطان ہے۔
کیا یہی وہ سلطان ہے، کیا یہی وہ ڈراؤنا صلاح الدین ہے، کیا یہی انسانوں کا گوشت کھاتا اور ان کا خون پیتا ہے! وہ غور سے اس کی طرف دیکھنےلگی، اسے نہ تو چیر پھاڑ کھانے والے درندوں کی علامتیں نظر آتیں اور نہ دانت اور نہ پنجے؛ اسے ہیبت وجلال اور نورانیت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دیتا۔ اس نے قریب آکر ان کی مزاج پرسی کی؟
ایک عورت نے کہا: ہمارے آدمیوں اور شوہروں کو قیدی بنالیا گیا ہے۔
پھر وہ سب بلک بلک کر رونے لگیں، سلطان بھی ان پر ترس کھاکر روپڑا اور ان کے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ، ساتھ ہی انھیں سواریاں، کھانا اور مال عطا کیا۔
میرییٹ نے جب قیدیوں کے جھرمٹ میں اپنے شوہر کو صحیح سالم دیکھا تو سارا غم بھول گئی۔ اب
میرییٹ دل سےاس محسن آدمی کی معترف ہوگئی، اس نے اس کے اندر انسانیت، حق اور شرافت جیسی وہ خوبیاں دیکھیں جنھیں اپنی قوم کے لوگوں میں نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اس کی اور اس کی قوم کی کسی ایک ایسی برائی کو یاد کرنا چاہا جس سے وہ ان کے تئیں اپنی دشمنی کو جواز دے سکے لیکن وہ کسی طرح کی کوئی برائی نہ پاسکی۔ وہ اس کے اور اس بڑے پادری کے درمیان موازنہ کرنے لگی جو معبدوں کے سارے خزانوں کو اپنے ساتھ لے کر قافلے کے ساتھ نکلا تھا، اس نے اس مال میں سے کسی کو کچھ نہیں دیا،سلطان کی عظمت کو دیکھ کر اس کے دل میں ایک تمنا سی اٹھی کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتی، لیکن وہ اس آرزو کا اظہار نہ کرسکی اور اسے اپنے دل میں دبالیا۔
یہ انسانی قافلہ متضاد قسم کے انسانی رویوں کے ساتھ چلا جارہا تھا؛ اس میں ماؤں کی ممتا اور ان کا ایثار بھی تھا، مال داروں کی خود غرضی اور ان کی سنگ دلی بھی تھی، صبر اور بے چینی بھی تھی، سچائی اور جھوٹ بھی تھا اور اس میں وہ پادری بھی تھا جس کا یہ تصور تھا کہ وہ مسیح کا خلیفہ ہے جوضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبت ہے، مگر پھر بھی وہ اللہ کے مال پر تنہا قابض ہے اور فقیروں اور محتاجوں سے بے رخی برتتا ہے۔
یہ قافلہ سنسان اور خوفناک راستوں پر چلتا رہا، اسلامی شہروں سے دور اس کی منزل طرابلس تھا، جہاں صلیبیوں کی حکومت تھی، وہ قافلہ طویل مشقت کے بعد تھکن سے چور وہاں پہنچا، بڑی تعداد بھوک کی تاب نہ لاکر راستے میں مرچکی تھی، جبکہ قافلے میں بہت سے مال دار بھی تھے، ان کے ساتھ سونا چاندی کا ڈھیر تھا، اس میں بڑا پادری بھی تھا جو اللہ کے مال میں سے سو ہزار دینار ساتھ لادے ہوئے تھا۔ طرابلس پہنچ کر ان کی امیدیں مٹی میں مل گئیں، وہاں کے صلیبی حاکم نے شہر کے دروازے بند کردیے اور قافلے کو واپس لوٹنے کا حکم دیا پھر اپنے فوجیوں کو بھیجا، اور انھوں نے ان کا سب کچھ لوٹ لیا، قافلے کے بہادر مرد ان سے مقابلے کے لیے اٹھے مگر وہ سب ان پر پل پڑے اور انھیں قتل کرڈالا، مرنے والوں میں میرییٹ کا بہادر شوہر بھی تھا۔ اب میرییت کی آنکھوں کے سامنے صرف اندھیرا تھا، مایوسی کا مہیب اندھیرا۔
جو لوگ بچ گئے تھے وہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں بھٹکتی ہوئی کشتی کے مانند بھٹک گئے اور زیادہ تر لوگ واپس مسلمانوں کی دنیا کی طرف لوٹ گئے تھے جو امن، مروّت اور شرافت کی دنیا تھی؛ میرییٹ بھٹکنے والوں کے ساتھ تھی، وہ ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی، حالانکہ اب اس کی حس مرچکی تھی اور اس کا احساس مٹ چکا تھا، کسی چیز کے بارے میں سوچنا اس کے لیے اب ممکن نہ تھا، ان کے قیام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ قیام کرتی اوران کے کوچ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ کوچ کرتی، جب لوگ اسے کھانا دیتے وہ کھالیتی اور جب بھول جاتے تو خاموش رہتی، گویا اس کی عقل اپنا توازن کھوچکی ہو یا اسے جنون لاحق ہوگیا ہو، یہاں تک کہ وہ انطاکیہ کی فصیلوں تک پہنچ گئے، مگر وہاں کے لوگوں نے بھی انھیں اندر آنے سے روک دیا!
اب ان کے سامنے مسلمانوں کی دنیا کی طرف لوٹ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جہاں امن سکون اور انصاف کا پرچم لہرارہا تھا اور انسانیت کا ہر طرف بول بالا تھا۔
میرییٹ اپنی جگہ حواس باختہ پڑی رہی گویا وہ نہ تو دیکھ رہی ہو اور نہ اسے کچھ یاد آرہا ہو، وہ اسی حالت میں تھی کہ انطاکیہ کا ایک نوجوان جو اس کا ہم مذہب تھا اس کے پاس آیا، اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے تسلی دینے لگا، وہ اس پر بھروسا کرکے اس کے ساتھ چل پڑی وہ اسے سمندر کے ساحل کی طرف لے گیا اور ایک جگہ رکنے کو کہا وہ وہیں شدید تھکاوٹ کی وجہ سے سوگئی۔
پھر اس کے آس پاس ہونے والے شور نے اسے جگادیا؛ اس نے ایک آدمی کی آواز سنی جو اپنےساتھی سے کہہ رہا تھا کہ: تم اس کے تنہا مالک نہیں ہو، یہ بڑی خوب صورت عورت ہے، جو ہمارے ہاتھ لگی ہے۔
اس پر اس کے ساتھی نے کہا: لیکن یہ تو بس میرا شکار ہے۔ کیونکہ اسے میں نے شکار کیا ہے۔
ان کی تکرار سے وہ سمجھ گئی کہ یہ تکرار اسی کے سلسلےمیں ہورہی ہے اور اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرنے کے بارے میں ہورہی ہے۔
اس کی یادداشت واپس آگئی اور ماضی کی تمام باتیں اسے یاد آنے لگیں، اسے یاد آیا کہ اس نے اپنے شوہر اور محافظ کو کھودیا ہے، اور اب وہ شیطانوں کے بیچ تنہا بے یار و مددگار ہے۔ اس نے غصے سے کہا: کیا یہی تمھاری مروّت اورانسانیت ہے؟ کیا یہی تمھارا دین ہے اے یورپ والو!
یہ سن کر دونوں ہنسنے اور قہقہے لگانے لگے، پھر اس کا غضب اور بھڑک اٹھا اور ان سے چیخ کر کہا: کس زبان میں مَیں تم سے بات کروں؟ کیا دین کی زبان میں، مجھے تو لگتا ہے تمھارا کوئی مذہب ہی نہیں ہے؟ یا انسانیت کی زبان میں، جبکہ تم بنی آدم کے بھیس میں درندے ہو؟ یا مروّت کی زبان میں جبکہ تم نے اسے کھودیا ہے؟ تباہی ہے تمھارے لیے، تمھیں شرم نہیں آتی کہ یہ مسلمان تمھاری عورتوں پر تم سے کہیں زیادہ مہربان اور تمھاری عزت وآبرو کے محافظ ہیں اور سیدنا مسیح کی وصیتوں پرعمل کرنے کے معاملے میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں؟ نہیں خدا کی قسم؛ تم لوگ نہ تو مسیح کے ہو اور نہ تو محمد کے، تم تو شیطان کے ہو! یہ مسلمان ہی وہ لوگ ہیں جومسیح اورمحمد دونوں ہی کے پیروکار ہیں، یہی لوگ حسن اخلاق کے مالک، عزت و شرف کے حامل اور انسانیت کے اصل جوہر ہیں۔ تم لوگ کبھی بھی ان پرغالب نہیں آسکتے، تم ان کی مقدس سرزمین ان کے ہاتھوں سے کبھی نہیں چھین سکتے۔ ہرگز نہیں؛ یہی لوگ اس کے حقدار ہیں، کیونکہ وہ مسیح کے اصولوں کے تم سے زیادہ پابند ہیں، وہ انسانیت میں تم سے زیادہ مضبوط ہیں۔ مستقبل انھی کا ہے، ان کے لیے عظمت وسربلندی اور فتح و کامرانی ہے اور تمھارے لیے لعنت، ناکامی و نامرادی اور ذلت و رسوائی ہے۔