ہند۔چین تعلقات:’ہمیں سے محبت ہمیں سے لڑائی‘

منجدھار میں پھنسی خارجہ پالیسی ۔دونوں ملکوں کے تعلقات ٹیڑھی کھیر کی مانند۔۔!

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

زرعی قوانین کی واپسی کے بعد راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنے میں تقریباً تین سو پچاس دن لگے اور تب تک سات سو کسان شہید ہو چکے تھے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مظالم اور ناانصافی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر کسانوں نے اس تحریک میں فتح حاصل کی۔ حزب اختلاف کے رہنما کایہ بیان توقع کے عین مطابق تھا لیکن دوسرے دن انہوں نے ٹویٹ کردیا :’’ اب حکومت کو سرحد پر چین کے قبضے کی سچائی بھی تسلیم کرلینی چاہیے ۔‘‘ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی نے موقع دیکھ کر چوکا مار دیا لیکن ان سے قبل اس موضوع پر یعنی اسی گیند پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایوان بالا میں رکن سبرامنیم سوامی چھکا مار چکے ہیں۔ یہ شاٹ اتنا کس کے مارا گیا تھا کہ گیند باونڈری نہیں بلکہ اسٹیڈیم یعنی ملک کی سرحد کے باہر جاگری۔ دس نومبرکو جب دونوں ممالک کے درمیان چودھویں دور کی فوجی مذاکرات بھی بے نتیجہ رہی تو سوامی نے لکھا ‘‘ کیا مودی سرکار کو چین سے بے عزتی کروانے کی عادت پڑ گئی ہے اس لیے مزے لے رہی ہے؟ اسٹاک ہوم سنڈروم؟ اس سنڈروم میں یرغمال بنائے جانے والوں کو اپنے اغواکاروں سے محبت ہوجاتی ہے یعنی:
ہمیں سے محبت ہمیں سے لڑائی ، ارے مار ڈالا دہائی دہائی
ابھی ناسمجھ ہو اٹھاو نہ خنجر ، کہیں مڑ نہ جائے تمہاری کلائی
لیڈر فلم کے لیے شکیل بدایونی کا تحریر کردہ یہ نغمہ موجودہ ہند چینی تعلقات پر من و عن صادق آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی جی اپنے دوست شی جن پنگ کو لال لال آنکھیں دکھانا تو دور ان کے خلاف لب کشائی بھی نہیں کرتے۔ایسے میں ہتھیار اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں آج کل ان کی نمائش انتخابی جلسوں میں کرتے پھرتے ہیں۔ اس دگرگوں صورتحال میں سبرامنیم سوامی کو سوال کرنا پڑتا ہے کہ چین کی طرف سے ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کے بعد 1993 میں ہندوستان کے کس علاقے پر باہمی اتفاق ہوا؟ وہاں بات چیت کرنے کے لیے کیا ہے ؟ ایک بار تو ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اب تک منعقد ہونے والی چودہ میٹنگوں میں چینیوں کے ذریعہ ذلت کا سامان کیا جا چکا ہے؟ سبرامنیم سوامی کو وزیر خزانہ نہیں بنائے جانے کا قلق ہے اس لیے اقتصادی پالیسیوں کے حوالہ سے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا جائز ہے ۔ان کے مطابق موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی سے ملک کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اس لیے وہ زرعی قوانین کی واپسی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں مگر چین سے متعلق ان کا بیان ناقابلِ یقین ہے۔
سوامی تو خیر ناراض لوگوں میں سے ہیں لیکن وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ چین نے لداخ میں معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی سرگرمیاں انجام دی ہیں جن پر ہندوستان کو اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات خراب دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ بیجنگ نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کچھ ایسی سرگرمیوں کا ارتکاب کیا ہے جس کے لیے اس کے پاس ابھی تک ’’قابل اعتماد وضاحت‘‘ نہیں ہے۔ جئے شنکر نے مزید کہا کہ چین کی قیادت کو جواب دینا چاہیے کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار کسی نجی مجلس میں نہیں بلکہ سنگاپور میں بلومبرگ نیو اکنامک فورم کی جانب سے منعقدہ ’’بڑے پیمانے پر طاقت کا مقابلہ: ایک ابھرتا ہوا ورلڈ آرڈر‘‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم میں کیا۔ ایک سوال کے جواب میں جے شنکر بولے ’’مجھے نہیں لگتا کہ چین کو اس بابت کوئی شک وشبہ ہے کہ آیا ہمارے تعلقات متاثر ہوئے ہیں، ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور کیا بد انتظامی ہوئی ہے، میں نے اپنے ہم منصب وانگ یی سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ میں بہت واضح بات کرتا ہوں، لہٰذا صاف گوئی کی کوئی کمی نہیں ہے،اگر وہ اسے سننا چاہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ سنیں گے۔‘‘
مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے کشیدگی ہے۔ پندرہ جون 2020 کو وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔ان میں ہندوستان کے بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے لیکن اب چین نے اروناچل پردیش میں نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق چین نے ریاست اروناچل پردیش کے پاس ہندوستانی علاقے میں اپنا ایک گاؤں بسا دیا ہے۔ اس بابت وزارت خارجہ اور وزارت دفاع میں اختلاف ہے۔ اول الذکر نے اسے غیر قانونی تعمیرات قرار دیا ہے جبکہ وزارت دفاع کے مطابق یہ گاؤں چین کے علاقے میں ہے۔ ماضی میں جب وادیٔ گلوان کے اندر چینی فوج نے در اندازی کی تھی تو وزیر اعظم نے اس کا انکار کر دیا تھا اور پھر اوٹ پٹانگ دلائل دے کر حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس بار یہی حرکت چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت سے سرزد ہوگئی۔ انہوں اس بات کو پوری طرح مسترد کر دیا کہ چین نے بھارتی علاقے میں گاوں تعمیر کیا ہے۔ان کے مطابق اس دعویٰ میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
جنرل بپن راوت نے تو آگے بڑھ کرچین کے اقدام کا یہ جواز پیش کردیا کہ لائن آف ایکچوؤل کنٹرول پر چینی گاؤں کی تعمیرات کا مسئلہ تو درست ہے۔ جنرل راوت کے مطابق چین یہ گاؤں اس لیے تعمیر کر رہا ہے تاکہ وہ ایل اے سی پر حالیہ کشیدگی کے بعد ممکنہ طور پر اپنے شہریوں کو یا پھر مستقبل میں اپنی فوج کو، سرحدی علاقوں میں بسا سکے لیکن چینیوں کے ہندوستانی علاقے میں آ کر ایک نیا گاؤں بسانے کا نیا تنازعہ درست نہیں ہے۔ دوسری جانب پینٹاگون کی رپورٹ میں صاف طور پر کہا گیا کہ چین نے ارونا چل پردیش کی سرحد پر ہندوستان کے علاقہ میں تمام طرح کی جدید سہولیات سے آراستہ تقریباً سو مکانات پر مشتمل ایک نئی بستی بسائی ہے۔ حالیہ برسوں سے چین سرحد پر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی لا رہا ہے۔ ایسے میں جنرل راوت اگر اس سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں امریکا کے خلاف غلط خبریں پھیلانے پر اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے لیکن وہ جرأت تو ابھی تک نہیں کی گئی ۔
اس کے برعکس وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی نے یہ اعلان کر دیا کہ چین گزشتہ کئی برسوں سے ان سرحدی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں انجام دیتا رہا ہے جن پر اس نے دہائیوں سے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ہندوستان نے نہ تو اپنی سرزمین پر ایسے غیر قانونی قبضے کو قبول کیا ہے اور نہ چین کے بلا جواز دعووں کو تسلیم کیا ہے۔ یعنی بلاواسطہ یہ بات کہی گئی کہ یہ قبضہ ابھی حال میں نہیں بلکہ ماضی میں ہوا تھا ۔اس کے باوجود کیا حکومت ہندکااس طرح کے معاملات میں صرف سفارتی ذرائع سے اپنا شدید احتجاج درج کرکے سلامتی پر اثر انداز ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھنا کافی ہے؟ قومی خود مختاری، سالمیت اور علاقائی تحفظ کے لیےیہ علامتی اقدامات تو پہلے بھی ہوتے رہےہیں اب مودی جی کی لال آنکھوں سے کیا فرق پڑا؟ حکومت ہند اس قبضےکو غیر قانونی سمجھتی ہے تو اسےختم کرنے لینے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے عوام کو واقف کرایا جانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر اگرجنرل راوت کی بات کو درست مان لیاجائے کہ چین نے اپنے علاقہ میں کوئی گاوں بسایا ہے تو اس پر ہندوستانی وزارت خارجہ کو اعتراض بے محل لگتاہے؟
قومی سلامتی کے حوالے سے حکومت کی پہلے تو کئی ماہ تک خاموشی اورپھرتضاد بیانی نے صورت حال کومزید پیچیدہ کردیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاکر حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے مودی سرکار پر چین کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا سنگین الزام لگادیا۔ کانگریس نے وزير اعظم سے اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑکروضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’’ہماری قومی سلامتی سے ناقابل معافی سمجھوتہ کیا گیا ہے، کیونکہ حکومت ہند کے پاس اس حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور مسٹر چھپن انچ تو کافی خوفزدہ ہیں۔‘‘ راہل گاندھی نے سرحدوں کی حفاظت پر مامور اپنی جانیں جوکھم میں ڈالنے والے فوجیوں کے تئیں فکرمندی کا اظہار کر کے حکومت پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا۔ وطن ِ عزیز میں نہتے اور کمزور لوگوں پر حملہ کر کے اپنی دیش بھکتی(قوم پرستی) ثابت کرنے والوں کو سرحد پر جاکر چین سے لوہا لینا چاہیے تاکہ ملک کی سرحد محفوظ ہو۔
این ڈی ٹی وی نے اس بار جب اروناچل پردیش کے اندر بسائے جانے والے گاوں کی تصاویر تاریخ کے ساتھ موازنہ کرکے شائع کیں توکانگریس کو پھر سے ہلّہ بولنے کا موقع مل گیا۔ اس نے اسے مودی حکومت کا ’قومی سیکیورٹی‘ کے ساتھ کھلی مداہنت قرار دیا۔ ایک پریس کانفرنس میں کانگریس ترجمان گورو ولبھ نے کہا کہ ’’وزیر اعظم اور وزیر دفاع نے ان مسلح افواج کی بہادری اور ہمت کو کم کر دیا ہے جنہوں نے ہمت اور قربانی کے ساتھ چینی دراندازی اور جارحیت کا سامنا کیا تھا‘‘۔گورو نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ پردے کے پیچھے نہ چھپیں اور لوگوں کو جواب دیں۔ نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے ترجمان نے چینی فوجی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے والی نئی سیٹلائٹ تصاویر شیئر کیں جن میں گزشتہ ایک سال کے اندر بھوٹانی علاقہ میں چینی گاؤں کی مبینہ تعمیر کو دیکھاجا سکتاہے۔ ان کے مطابق نئے گاؤں تقریباً سو اسکوائر کلومیٹر یعنی پچیس ہزار ایکڑ کے علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ مئی 2020 سے نومبر 2021 کے درمیان ہندوستانی فوج اور سفارتکاری کو لداخ میں الجھا کرگفت و شنید کے دوران یہ کام نمٹا لیا گیا۔
اس معاملے میں گورو ولبھ نے سرکار سے کئی تیکھے سوال کیے مثلاً ’’چین نے ایل اے سی کے اندر ہندوستان کے علاقے کو ڈیپسانگ میدانوں میں وائی جنکشن تک کیوں قبضہ کر لیا؟ چین نے ایل اے سی کے اندر ہندوستان کے علاقے پر گوگرا اور ہاٹ اسپرنگس میں وائی جنکشن تک قبضہ کیوں کیا؟ چین آخر ہندوستانی علاقے میں کیسے داخل ہوا؟ کیسے چین نے اروناچل پردیش میں داخل ہوکر ایک گاؤں کی تعمیر کی؟ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ محض ایک رہائشی گاؤں نہیں بلکہ ایک فوجی چھاونی بھی ہے۔ کانگریس کے نزدیک بھوٹان کی زمین پر نئی تعمیری سرگرمی فکر مندی کا موضوع ہے کیونکہ چمبی وادی میں بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر سلی گوڑی کوریڈور، یعنی چکن نیک کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ملک کے بقیہ حصے سے شمال مشرقی ریاستوں کو جوڑنے والا تنگ علاقہ ہے۔ کانگریس کے ترجمان کی نظر میں سو اسکوائر کلومیٹر زمین قبضہ کرنا، غیر قانونی دراندازی اور چین کے ذریعہ ڈوکلام کے بغل میں بھوٹان کے اندر نئے گاؤں بسانا قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے لیکن چونکہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ سال نوے ارب ڈالر سے زائدکی سالانہ باہمی تجارت ہوئی ہے اوراس میں چین کی برآمدات تقریباً چوہتر ارب ڈالر ہے۔ یہ تجارتی مفاد غالباً حکومت ہند کے پیر کی زنجیر بن گیا ہے۔
ہندوچین کی مشترکہ سرحد 3488 کلومیٹر طویل ہے ۔ اس پر چین کا نوے ہزار مربع کلومیٹرکی ملکیت کا دعویٰ ہے جبکہ ہندوستان کا کہنا ہے کہ چین نے اس کے اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس نزاع کے تناظر میں گزشتہ ستر سالوں کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ برما کے بعد دسمبر 1949 میں ہندوستان دوسرا غیر اشتراکی ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ اس کے باوجود اکتوبر 1950میں چینی افواج نے تبت کی جانب پیش قدمی کی اور مئی 1951 میں تبت کے گورنر کو گرفتار کر لیا۔ حالات کو بہتر بنانے کی خاطر مئی 1954میں ہند وستان وچین نے ایک دوسرے کی علاقائی خود مختاری کے احترام کے لیے ایک باہمی معاہدے پر دستخط تو کیے مگر مارچ 1955 میں چین نے جو سرکاری نقشہ شائع کیا اس پر حکومت ہند کو یہ اعتراض کرنا پڑا کہ اس میں ہندوستانی علاقوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے دسمبر 1956میں چینیوں کو لداخ سے نکال دیا تو جنوری 1959میں وزیراعظم چو این لائی نے لداخ اور ارونا چل پردیش کے چالیس ہزار مربع کلومیٹر علاقے پرچینی ملکیت کا دعویٰ کردیا۔ ہند چینی تعلقات میں اپریل 1959کے اندر دلائی لاما کے تبت سے بھاگ کر ہندوستان میں سیاسی پناہ لینے سے تلخی پیدا ہوئی۔ ستمبر 1959 میں چین نے برطانوی دور کی سرحد کو اس بنیاد پر ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ سن 1842 میں برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان کے معاہدے میں شامل نہیں تھا۔
یہ سرحدی تنازع ان ہم سایہ ممالک کے بیچ گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اس کو حل کرنے کی خاطر اپریل 1960 میں چواین لائی اور نہرو کے درمیان نئی دلی میں مذاکرات تو ہوئے لیکن بے نتیجہ رہے۔ آگے چل کر فروری 1961 میں چین نے سکم میں بارہ ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا اور دسمبر 1961میں ہندوستان نے لداخ میں سرحدی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔عمل اور ردعمل کا یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ بیس اکتوبر 1962کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ایک ماہ کی فوج کشی کے بعد جنگ بندی تو ہو گئی مگر ہندوستان نے چین پر تیتیس ہزار کلومیٹر علاقہ ہتھیانے کا الزام لگا دیا جبکہ چین کا دعوی ٰتھا کہ ارونا چل پردیش کا تمام علاقہ اس کی ملکیت ہے۔ چین نے سکم کے اندر ہندوستانی افواج کی موجودگی پر اگست 1965 میں احتجاج کیا اور اس کے جواب میں نومبر 1965 میں چین کی فوجیں بھی سکم میں داخل ہو گئیں۔ ہندوستان نے اپریل 1975 میں سکم کو اپنے ملک کا حصہ بنالیا اور اس پر چین نے احتجاج کیا۔ اس اتار چڑھاو کے باوجود اپریل 1976میں پندرہ سالوں کا سفارتی تعطل ختم کرکے دونوں ممالک نے تعلقات بحال کر لیے۔ پنڈت نہرو کے زمانے میں ٹوٹنے والے رشتوں کو ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے جوڑ دیا اور کشیدگی کا ماحول بدلنا شروع ہوگیا مگر اس کے بعد اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کی سزا ملی اور ان سے اقتدار چھین لیا گیا۔
مرکز میں پہلی بار غیر کانگریسی سرکار بنی تو اٹل بہاری وزیر خارجہ بنائے گئے۔ انہوں نےفروری 1979 میں چین کا دورہ کیا۔ دسمبر 1986 میں ارونا چل پردیش کو انڈین یونین میں شامل کرنے پر چین نے شدید احتجاج کیا۔حالات کو بہتر بنانے کی خاطر دسمبر 1988 میں راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کر کے تنازعات کے حل اور باہمی تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ نرسمہا راؤ نے بات آگے بڑھائی اور ستمبر 1993 میں چین کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے اور افواج کا مشترکہ گروپ بنانے کا معاہدہ کیا۔ نومبر 1996 میں چینی صدر جیانگ زیمن نے ہندوستان کے ساتھ اعتماد سازی میں اضافے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ حالات کو بہتر ہوتا ہوا دیکھ کر چینی حکام نے جون 1999میں ہندوستان کے اندر موجود دلائی لاما کی علیحدگی پسند سرگرمیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا لیکن الٹا حکومت ہند نے جنوری 2000 میں چین کو ناراض کرتے ہوئے دلائی لاما کے بعد کرمپا کو بھی سیاسی پناہ دے دی گویا جس اٹل بہاری واجپائی نے وزیر خارجہ کے طور پر چین سے تعلقات سدھارے تھے اسی نے وزیر اعظم بن کر بگاڑ دیے۔
فی الحال چین کی سرحد پر جس توسیع پسندی وتعمیرات کا شور ہے اس کی ابتدا جنوری 2000 میں ہی ہوئی۔ اس وقت چین نے اکسائی چین کے علاقے میں سڑکیں بنانا شروع کیں اور ہندوستان نے الزام لگایا کہ چین اس کے علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر گھس آیا ہے۔ منموہن سنگھ کے وزیر اعظم بننے کے بعد پھر سے ہند چینی تعلقات میں گرمجوشی نظر آئی۔ جولائی 2006 میں دونوں ممالک نے 1962 کی جنگ کے بعد سے بند ناتھو لال پاس کھولنے کا اعلان کیا۔ یہیں سے ہندو عقیدتمند کیلاش پربت کی یاترا پر جاتے ہیں لیکن مئی 2007 میں چین نے ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ کو یہ کہہ کر ویزا نہیں دیا کیونکہ ارونا چل پردیش تو چین کا حصہ ہے اس لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے اور اکتوبر 2009 میں چین نے منموہن سنگھ کے دورہ ارونا چل پردیش پر احتجاج کیا۔ نومبر 2010 میں چین نے جموں وکشمیر کے شہریوں کو پاسپورٹ کی بجائے کاغذ پر ویزوں کا اجرا شروع کر دیا۔ اپریل 2013 میں چینی افواج لداخ میں تیرہ کلومیٹر اندر تک گھس آئیں اور کہا کہ یہ اس کے صوبے زی جیانگ کا حصہ ہے مگر از خود پھر پیچھے ہٹ گئیں۔ منموہن راج اور مودی یگ میں یہ فرق ہے کہ اب چینی واپس نہیں جا رہے ہیں۔
مودی جی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ستمبر 2014 میں چینی صدر زی پنگ کو احمد آباد میں جھولا جھلایا۔ اس سے خوش ہو کر چینی سربراہ نے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا لیکن یہ دوستی پائیدار ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جولائی 2017 میں ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوگئیں۔ اس کے بعد پانچ مئی 2020 کو گلوان میں دونوں افواج میں جو تصادم ہوا اس کو سلجھانے کی خاطر اب تک چودہ مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
مندرجہ بالا تفصیل سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہند چینی تعلقات میں ٹھیراو نہیں رہا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سابرمتی ندی کے کنارے جھولے میں بیٹھ کر مودی جی نے اپنے چینی ہم منصب سے جو راز ونیاز کے عہد وپیمان کیے تھے وہ کیوں ٹوٹ گئے؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک اہم سبب یہ ہے ملک کی خارجہ پالیسی میں الجھاو ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی بیک وقت دو ایسی کشتیوں میں سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مخالف سمتوں میں رواں دواں ہیں اس سے بات بگڑ گئی ہے۔
عالمی سطح پر امریکا کا سب سے بڑا معاشی اور فوجی حریف چین ہے۔ ان دونوں میدانوں میں چین نے امریکا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ چین کے خلاف امریکا، جاپان اور آسٹریلیا نے ساتھ مل کر ایک بحری اتحاد قائم کیا ہے۔ اس پیش رفت سے چین کے لیے جاپان، ویتنام، کوریا اور فلپائن وغیرہ کے حوالے سے شدید مشکلات پیدا کردیں اور افریقہ تک اس کا بحری راستہ غیر محفوظ کردیا۔ چین کی اس گھیرا بندی میں ہندوستان کی شمولیت نے چینیوں کو اس کا دشمن بنادیا۔ اس کے ردعمل میں چین نے ہندوستان کے سارے ہم سایہ ممالک مثلاً میانمار، بنگلا دیش، سری لنکا اور نیپال کو اپنا ہمنوا بناکر ہندوستان کی گھیرا بندی شروع کردی ہے۔ اس طرح ہند چینی تعلقات ایک ایسی ٹیڑھی کھیر بن گئے ہیں جس میں بہتری مشکل نظر آتی ہے۔ ہندوستان کا اب امریکی اتحاد سے نکلنا اس کو ناراض کر سکتا ہے اس لیے حکومت ہند کی خارجہ پالیسی ایک منجدھار میں پھنس گئی ہے۔ یہ مسئلہ اب نہ نگلتے بنتا ہے اور نہ اگلتے بنتا ہے۔ اس لیے زی پنگ اور مودی جی کے تعلق کی نوعیت فلم ہیر رانجھا کے اس نغمہ کی مصداق ہو گئی ہے کہ
ملو نہ تم تو ہم گھبرائیں، ملو تو آنکھ چرائیں ہمیں کیا ہوگیا ہے
تم ہی کو دل کا راز بتائیں،
تم ہی سے راز چھپائیں ہمیں کیا ہوگیا ہے۔
***

 

***

 مودی جی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ستمبر 2014 میں چینی صدر زی پنگ کو احمد آباد میں جھولا جھلایا۔ اس سے خوش ہو کر چینی سربراہ نے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا لیکن یہ دوستی پائیدار ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جولائی 2017 میں ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوگئیں۔ اس کے بعد پانچ مئی 2020 کو گلوان میں دونوں افواج میں جو تصادم ہوا اس کو سلجھانے کی خاطر اب تک چودہ مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021