ہندو مسلم اتحاد کےحامی راجہ مہیندر پرتاپ کے نام پر تقسیم کی سیاست

علی گڑھ یونیورسٹی کو فراخدلانہ عطیہ دینے والے رہنما کو فراموش کرنے کا دعویٰ خلاف ِحقیقت

افروز عالم ساحل

اترپردیش حکومت کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حالیہ منعقدہ ضمنی انتخابات کی مہم کے دوران ایک مرتبہ پھر اس غلط دعوے کو دہرایا کہ ’’راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی تعمیر کےلیے اپنی پوری جائیداد عطیہ کردی تھی لیکن ان کے نام پر ایک پتھر تک نہیں لگا۔ ایسے میں اب ہماری حکومت اسی علی گڑھ میں راجہ مہیندر پرتاپ کے نام سے یونیورسٹی بنانے کےلیے کام کر رہی ہے۔‘‘

١٤ ستمبر ٢٠١٩ کو علی گڑھ میں ایک پروگرام کے دوران یوپی کے وزیر اعلیٰ نے ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا.یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے یوگی سمیت ہندو جاگرن منچ اور بی جے پی کے کئی نیتا راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کا راگ الاپ رہے ہیں۔

جب اس الزام کے سلسلے میں ہفت روزہ دعوت نے اے ایم یو انتظامیہ سے بات کی تو اس نے اسے سرے سے خارج کردیا۔ اے ایم یو ترجمان پروفیسر راحت ابرار کا کہتے ہیں کہ ’’راجہ مہندر پرتاپ اور ان کے کنبہ کے کسی بھی شخص نے ایک گز زمین بھی اے ایم یو کو عطیہ میں نہیں دی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سرسید احمد خان کے خوابوں کے ’مدرسہ‘ کا افتتاح 24 مئی 1875 کو ہی کردیا گیا تھا۔ دو سال بعد 7 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی بنیاد رکھ دی گئی۔ وہیں دوسری طرف دیکھیں تو راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش ہی یکم دسمبر 1886 کو ہوئی۔ تب تک ایم اے او کالج پوری طرح بن کر تیار تھی۔

پروفیسر راحت ابرار بتاتے ہیں کہ راجہ مہیندر پرتاپ ایم اے او کالج کے طالب علم ضرور تھے۔ انہوں نے سرسید احمد خان کو دیکھا تھا اور ان کے جنازے میں بھی شامل ہوئے تھے۔ سرسید بھی انہیں مانتے تھے۔ ان باتوں کا تذکرہ خود راجہ مہندر پرتاپ نے اپنی سوانح عمری میں کیا ہے۔

پروفیسر ابرار علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ کے نام پر یونیورسٹی بنائے جانے کی اعلان خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ایم اے او کالج کے طالب علم کے نام پر اسی علی گڑھ میں یونیورسٹی بن رہی ہے، اے ایم یو کےلیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہوگی۔‘

اے ایم یو کے مولانا آزاد لائبریری کے مرکزی ہال میں جہاں یونیورسٹی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے لوگوں کی تصاویر ہیں، وہیں راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کی تصویر بھی تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر لائبریری کے ریسرچ بلاک کے دروازے کے ٹھیک اوپر لگی ہوئی ہے۔

اےایم یو کے سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد بتاتے ہیں، راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کے والد راجہ گھنشیام سنگھ اےایم یو کے بانی سرسید احمد خان (1817-98) کے اچھے دوست تھے اسی ناطے راجہ گھنشیام سنگھ نے 250 روپیہ کا چندہ دیا تھا جس سے ہاسٹل کے ایک کمرے کی تعمیر کی گئی تھی۔ یہ کمرہ سر سید ہال (ساؤتھ) کا کمرہ نمبر 31 ہے، جہاں آج بھی ان کا نام لکھا ہوا ہے۔

تاہم پروفیسر سجاد یہ بھی بتاتے ہیں، ہاسٹل کے کمروں پر زیادہ تر ان ہی لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے کم سے کم 500 روپے دیے تھے۔ مرسان اسٹیٹ کے راجہ گھنشیام سنگھ یوپی کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ایک تھے۔

پروفیسر سجاد مزید بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے ذریعہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی دعویٰ کردہ اراضی اس وقت اے ایم یو کیمپس سے چار کلو میٹر دور پرانے علی گڑھ کے جی ٹی روڈ پر سٹی ہائی اسکول کے کھیل میدان کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ مثلث سائز کی 1.22 ایکڑ زمین 1929 میں 90 سالوں کے لیے لیز پر اے ایم یو کو دی گئی تھی۔ لیز کی رقم ہر سال راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی اولاد اے ایم یو سے حاصل کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس زمین پر علی گڑھ سے چار بار بی جے پی کے ایم ایل اے کرشنا کمار نومان نے بھی دعویٰ کیا تھا۔ 1984 میں یہ کیس ضلعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک گیا، جہاں 2003 میں ایک عبوری حکم جاری کیا گیا تھا کہ لیز کی مدت ختم ہونے سے قبل کوئی دوسرا دعویدار اس زمین پر قبضہ نہیں کرسکتا۔

سٹی اسکول کا نام راجہ مہیندر پرتاپ سٹی اسکول رکھنے کی تجویز

لیز کے 90 سال مکمل ہونے پر راجہ مہندر پرتاپ کے وارثین نے اب اے ایم یو انتظامیہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اسکول سے متصل تیکونیا پارک کی اراضی انہیں واپس کردی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس سٹی اسکول کا نام راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جائے۔

اب اے ایم یو کی اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں وی سی پروفیسر طارق منصور کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اکیڈمی کے اگلےاجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

1928 میں شروع ہوا تھا سٹی اسکول

اس سٹی اسکول کے قیام میں جواہرلال نہرو کے علی گڑھ کے خاص دوست عبد المجید خواجہ کا اہم کردار رہا ہے۔ عبد المجید خواجہ کیمبرج میں جواہرلال نہرو کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے تھے۔ سن 1889 میں مولانا بہادر علی نے انجمن اسلامیہ پرائمری اسکول کی شکل میں اس کی شروعات کی تھی۔ 1919 میں یہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی سٹی برانچ کے طور پر قائم کیا گیا۔ اس اسکول کو 6 فروری 1927 کو موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا، جو آج بھی ’مسلم یونیورسٹی سٹی اسکول‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس بلڈنگ کا سنگ بنیاد خان بہادر نواب سر محمد مزمل اللہ خان کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔ یہاں جو زمین راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی ہے، اسے اب سے سات سال پہلے تک میونسپل کارپوریشن نے اپنا کچرا ڈمپنگ یارڈ بنا رکھا تھا۔ 7 سال پہلے اے ایم یو انتظامیہ نے

لاکھوں روپے خرچ کرکے اس زمین کی باؤنڈری وال بنائی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سٹی اسکول کے بچوں کا فٹ بال گراؤنڈ تھا۔

ایم اے او کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل نہیں کر سکے راجہ مہیندر پرتاپ

’’تیسرے سال میں میں نے لاپرواہی سے پڑھائی کی۔ مجھےاب اپنے ’اسٹیٹ‘ کا کنٹرول مل گیا تھا اور میرا آگے کی پڑھائی کرنے میں زیادہ دل نہیں لگا۔ 1907 میں میں نے آخرکار کالج چھوڑ دیا۔ میں نے بی اے کی ڈگری لینے کی کوئی پروا نہیں کی۔‘‘یہ باتیں خود راجہ مہیندر پرتاپ نے اپنی کتاب ’مائی لائف اسٹوری آف فیفٹی فائیو ایئرس‘ میں لکھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب سن 1947 میں ورلڈ فیڈریشن، دہرادون سے شائع ہوئی تھی۔ اس پوری کتاب میں خود یا اپنے والد کے ذریعہ ایم اے او کالج کو کسی بھی طرح کے عطیہ دیے جانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ بتادیں کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں راجہ مہیندر پرتاپ کا داخلہ 1895-1896 میں ہوا تھا۔

سو سالہ جشن کے مہمان خصوصی تھے راجہ مہندر پرتاپ

اے ایم یو کو آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ اس نے راجہ مہیندر پرتاپ جیسے لوگوں کو تعلیم دے کر انہیں اپنے ملک کے کام آنے کےلیے حوصلہ دیا تھا۔ مسلمان ہندو اور تمام طبقات کے انسانوں کےلیے کام آنے کی تعلیم دی۔ یہ تعلیم راجہ مہندر پرتاپ کے پوری زندگی پر حاوی رہی اور اے ایم یو کی محبت اپنے اس طالب علم کےلیے کبھی کم نہیں ہوئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 1977 میں جب اے ایم یو نے اپنے ایم اے او کالج کا صد سالہ جشن منایا تو اس کے مہمان خصوصی راجہ مہیندر پرتاپ تھے۔

راجہ مہیندر پرتاپ نے قائم کیا تھی پریم مہاودیالیہ

24 مئی 1909 کو راجہ مہندر پرتاپ نے اتر پردیش کے ورنداون میں نہ صرف اپنی بڑی ریاست کی عمارت میں پریم مہاودیالیہ کا قیام عمل میں لایا بلکہ اپنے پانچ گاوؤں (جن کی آمدنی تمام اخراجات کی منہائی کے بعد تقریباً 33 ہزارروپے سالانہ تھی) کو تعلیم کے اس مندر پریم مہاودیالیہ کو چندہ دیا۔ راجہ مہندر پرتاپ اتنے پر ہی نہیں رکے، بلکہ انہوں نے بغیر کسی تنخواہ کے سکریٹری اور گورنر رہ کر پورے دل سے اس کی خدمت کی۔ اور کچھ عرصے تک اس مہاودیالیہ کے طلبہ کو سائنس پڑھا کر تعلیم سے اپنی محبت کا اچھا تعارف دیا۔اس مہاودیالیہ کے مقصد کا تذکرہ مصنف نند کمار دیو شرما نے اپنی کتاب ’پریم پجاری: راجہ مہندر پرتاپ سنگھ‘ میں بہت ہی خوب کیا ہے۔ یہ کتاب ہندی ساہتیہ کاریالیہ، کلکتہ سے سن 1980 میں شائع ہوئی ہے۔آج اس عظیم تاریخی مہاودیالیہ کی حالت یہ ہے کہ ورنداون سے باہر کے لوگ اسے جانتے تک نہیں۔ کاش! اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے راجہ مہندر پرتاپ کے ہاتھوں کھولے گئے اسی مہاودیالیہ کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسے پوری دنیا میں زندہ کردیتے۔

جو لوگ اے ایم یو کیمپس میں راجہ مہندر پرتاپ کا مجسمہ لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے، انہیں بتادیں کہ راجہ مہندر پرتاپ کے ورنداون شہر میں ان کا مجسمہ آج تک اتر پردیش کی حکومت نے نہیں لگایا ہے اور نہ ہی کسی گلی کا نام ان کے نام پررکھا گیا ہے۔

1957 میں اٹل بہاری واجپئی کی ضمانت ضبط کروائی تھی

راجہ مہندر پرتاپ ہمیشہ ہی ’جن سنگھ‘ اور ہندوتوا کے خلاف رہے۔ 1957 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں جن سنگھ کے رہنما اٹل بہاری کو متھرا سے زبردست شکست دی۔ اس انتخاب میں راجہ مہندر پرتاپ بطور آزاد امیدوار میدان میں تھے، اس کے باوجود انہوں نے 40.68 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ وہیں 29.57 فیصد ووٹ پاکر کانگریس کے دگمبر سنگھ دوسرے نمبر پر تھے۔ جبکہ اٹل بہاری واجپئی 10.09 فیصد ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھے۔ امیدواروں کی کل تعداد 5 تھی۔

1967 میں راجہ مہندر پرتاپ نے ایک بار پھر علی گڑھ لوک سبھا سیٹ سے انتخاب لڑا، جہاں ان کا مرکزی مقصد بی جے پی کے سیاسی والدین جن سنگھ کی مخالفت کرنا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ نے خود کو ’پیٹر پیر پرتاپ‘ کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اپنی سوانح حیات میں اپنی تصویر کے نیچے انہوں نے اپنا یہی نام لکھا ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ۔ محبت کے ایک پجاری

راجہ مہندر پرتاپ خود ایک مضمون میں لکھتے ہیں- ’میں ہمیشہ سے ہی پیار و محبت کا بھکت رہا ہوں۔ اپنے کالج کا نام ’پریم مہاودیالیہ‘ رکھ کر اور ’پریم‘ نام کا ایک اخبار ایڈٹ کرکے میں نے ابتدا میں ہی پریم سے اپنی عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔ مہاتما گاندھی کا بہت پرانا بھکت ہوں…‘

راجہ پیٹر پیر پرتاپ نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے ایک خط میں ہندو مسلمانوں کے جھگڑے پر کچھ اس طرح سوال اٹھایا – ’جھگڑا ہے، فساد ہے، بلکہ جنگ ہو رہی ہے لیکن کن میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں؟ ایک ہی ملت کے دو بازوؤں میں اور سرسید احمد خان کے مطابق ایک ہی چہرے کی دو آنکھوں میں؟ دیکھیے جب آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں یا اپنا فرض ادا نہیں کرتی ہیں، تو وہ اپنے ہی پیروں کو کسی پتھر سے ٹھوکر دلا دیتی ہیں اور جب بیماری کا دورہ ہوتا ہے تو بے کار چیزوں کو کھانے کا من کرتا ہے… آج ہندستانی ملت یقیناً بیمار ہے۔ اس کے اندرونی جسم میں بیرونی بیماری گھس گئی ہے۔ ایسی حالت میں اگر ہم ٹھوکر کھائیں یا خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو حیرت کی کیا بات ہے؟ اگر ہم اپنے ہی ہاتھ سے اپنا خون کرنا نہیں چاہتے تو ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم بیمار ہیں، ہم کو ہماری بیماری دبائے ہوئے ہے اور یہ بیماری ہمیں ہر طرح سے مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے… ‘

راجہ مہندر پرتاپ کے دوستوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ دیوبند کے علمائے کرام کی ریشمی رومال تحریک میں بھی شامل رہے۔ 1915 میں افغانستان میں قائم ہوئی ہندوستان کی عارضی حکومت میں راجہ مہندر پرتاپ جہاں صدر بنے، وہیں مولانا برکت اللہ اس کے وزیر اعظم تھے۔ ان کے خاص دوستوں میں مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمود حسن شامل تھے۔ جی، وہی محمود حسن جن کی تقریر سے آج سے ٹھیک سو سال پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم ہوئی۔
***

راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش ہی یکم دسمبر 1886 کو ہوئی۔ اس سے بہت پہلے 7 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (MAO College) پوری طرح بن کر تیار تھا۔ اس سے بھی دو سال قبل یعنی24 مئی 1875 کو ہی سرسید احمد خان کے خوابوں کے ’مدرسہ‘ کا افتتاح کردیا گیا تھا۔ مہیندر پرتاپ خود اس کے سابق طالب علم ہیں۔ (پروفیسر راحت ابرار )

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020