ہندوستان اب بھی پولیس جرائم کے لیے انصاف کا منتظر

جارج فلائیڈ کے فیصلے سے ہندوستان کو سبق سیکھنا چاہیے

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

جارج فلائیڈ کے فیصلے نے ان سب کے دلوں کو راحت بخشی ہے جنہوں نے اس کو انصاف دلانے کے لیے لڑائی لڑی تھی۔ عدالت نے ڈیریک چووین نامی اس سفید فام پولیس افسر کو جارج کے قتل کے الزام میں ساڑھے بائیس سال قید کی سزا سنائی جس نے جارج کی گردن کو نو منٹ تک اپنے گھٹنے کے نیچے دبائے رکھا جب کہ اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ڈیریک چووین مینیاپولس، پولیس ڈپارٹمنٹ کا ملازم تھا۔ اس نے محض اس شبہ پر فلائیڈ کو گرفتار کر کے تشدد کیا کہ اس کے پاس ۲۰ ڈالر کے جعلی نوٹ ہیں۔ پولیس کی اس بربریت کے خلاف سارے امریکہ میں "Black Lives Matter” نعرے کے ساتھ مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں خاص طور پر سیاہ فام، ہسپانکس اور غیر سفید فام امریکی شہریوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس واقعہ کے ذریعے سب سے اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انصاف اور آزادی کی جڑیں کس قدر مضبوط اور گہری ہیں کہ محض ایک سال کے اندر مجرم کو سزا سنادی گئی۔ جارج فلائیڈ کا ۲۵ مئی ۲۰۲۰ کو قتل ہوا اس کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یعنی ۲۱ اپریل ۲۰۲۱ کو ڈریک چووِن کو قتل کا مجرم ٹھیرایا گیا اور ۲۵ جون ۲۰۲۱ کو اسے سزا سنائی گئی۔ ڈیرک چوون کو سزا کا ملنا طے تھا کیونکہ ہمارے ملک کی طرح نہ وہاں کی پولیس اور نہ ہی ریاست نے اس گھناؤنے جرم کی پردہ پوشی کی اور نہ ہی شہادتوں کو مٹانے کی اور گواہوں کو غائب کرنے کی کوئی کوشش ہوئی۔ ایک مجرم جس نے ایک بے گناہ کی جان لی تھی اس کے دفاع میں وہاں کی پولیس نہیں کھڑی ہوئی۔ خاص بات یہ تھی کہ مقدمہ کے دوران مینیاپولس، پولیس ڈپارٹمنٹ کے متعدد ممبروں نے جن میں خود چیف میڈیریا اراڈونڈو بھی شامل تھے، نے گواہی دی کہ چووِن کا فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھنا سراسر غلط تھا اور فلائیڈ پر طاقت کا استعمال کرنا محکمہ کی پالیسی کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ صدر بائیڈن نے ٹیلی ویژن پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے کہا کہ "یہ دن کے اجالے کیا گیا ایک قتل تھا، اس نے پوری دنیا کو شرمسار کیا، نسل پرستی کا نظام ہماری قوم پر ایک بد نما داغ ہے”
ہمارے ملک ہندوستان کی پولیس کہاں کھڑی ہے؟ ایسے معاملات کا موازنہ ہمارے ملک کی پولیس سے کیا جائے تو ہمارا سر شرم سے جھک جائے گا۔ یہاں کا پولیس محکمہ اور ریاست کھلے عام مجرموں کی حفاظت کرتے ہیں، ان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ایسے مقدمات جو واضح ہوتے ہیں یعنی جسے (اوپن اینڈ شٹ کیس) کہا جاتا ہے اس سے بھی مجرم کو بچالیا جاتا ہے۔ وہ کبھی ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے نظر آئیں گے کبھی جھوٹے گواہوں کو بطور ثبوت پیش کرتے نظر آئیں گے تو کبھی مظلوم کو ہی بطور مجرم بنا کر پیش کرتے نظر آئیں گے۔ ملک کا نظام ایسا ہے کہ وہ صرف ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ انہی حرکات کی وجہ سے پولیس محکمہ بدنام ہے۔ شہریوں کو اس پر بھروسہ اور اعتماد ہی نہیں ہے۔ اس پولیس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ تو اور بھی بدتر ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ سالوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔
ہاشم پورہ کا واقعہ ہمارے سامنے موجود ہے جہاں پولیس کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ اندوہناک واقعہ یو پی کی صوبائی مسلح پولیس "پروویژنل آرمڈ کانسٹیبلری”(پی اے سی) کے ہاتھوں ہوا جن کی تعداد تقریباً ۱۹ تھی۔ مئی ۱۹۸۷ کو ہاشم پورہ سے ۴۲ تا ۴۵ مسلم نوجوانوں اور کچھ ضعیف افراد کو اٹھایا جاتا ہے جب کہ وہاں فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے۔ انہیں ایک ٹرک میں ڈالا جاتا ہے اور شہر کے مضافات میں لے جا کر انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور قریبی نہر (گنگ نہر) اور کچھ کو (ہندون نہر) میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کے گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ ان کے عزیز کہاں ہیں انہیں کہاں لے جایا گیا ان کو اس وقت یہ خبر ملتی ہے جب تین چار دن گزرنے کے بعد کچھ نعشیں پانی کے اوپر تیرنے لگتی ہیں۔ پولیس نے ان کے رشتہ داروں کو یہ تک بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ انہیں کس جرم میں لے جایا جا رہا ہے۔ یہ ہولناک واقعہ دارالحکومت دلی سے محض ۸۲ کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔ سالوں اس کیس کی سماعت چلتی رہی، تقریباً ۲۸ سال تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ بالآخر ۲۰۱۵ میں عدالت (ٹرائل کورٹ) نے ملزمان کو حیرت انگیز طور پر بری کر دیا۔ یہ ہے ہمارے ملک میں مظلوموں کے ساتھ عدل وانصاف کا حال۔ مظلومین نے اس فیصلے کے خلاف بڑی عدالت کا رخ کیا۔ ۲۰۱۸ میں دہلی ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی اے سی کے ۱۶ اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ مابقی تین افراد مقدمے کی سماعتوں کے دوران ہی مر چکے تھے۔ اس موقع پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے یہ فیصلہ شاید بہت کم خوشی دے کیوں کہ اس فیصلے میں بہت دیر ہو گئی ہے۔ انہیں انصاف کے لیے ۳۱ سال کا طویل انتظار کرنا پڑا۔”
پولیس نے نہ صرف بھیانک جرم کا ارتکاب کیا بلکہ انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ اپنے جرم کو چھپائے، اسے دبا دیا جائے۔ ثبوتوں کو مٹایا گیا، دستاویزات کو چھپایا گیا تحقیقاتی ایجنسی کو دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے عدالت نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ یہ ساری چیزیں پولیس کی حفاظت میں تھیں تو پھر کیسے غائب ہو گئیں؟ جب وہ ساری دستاویزات اس معاملے میں بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ تفتیش کے دوران، پولیس اہلکاروں نے متاثرہ افراد کے لواحقین اور قریبی دوستوں کو لاشیں تک دکھانے سے انکار کر دیا۔ جو ٹرک اس قتل عام میں استعمال کی گئی تھی جس میں متاثرین کو لے جایا گیا تھا اسے بھی آٹھ ماہ بعد فرانزک جانچ کے لیے بھیجا گیا۔ کیا یہ قتل عام محض چند پولیس اہلکاروں کی کارروائی ہے؟ یقینی طور پر ہمارا جواب نفی میں ہوگا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ محض چند پولیس اہلکار اور اس کا سب انسپکٹر اتنی بڑی کارروائی کرے جب تک کہ ان کی پشت پر بڑے سینئر افسروں اور سیاسی لیڈروں کا ہاتھ نہ ہو۔ کیونکہ یہ تصور کرنا کم عقلی اور نادانی ہوگی کہ کچھ پولیس کانسٹبلوں اور پی اے سی کے ایک سب انسپکٹر کے کہنے پر ۴۲ مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے۔ نہیں یہ صرف سینئر افسروں اور سیاسی لیڈروں کی واضح ہدایت کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔ وبھوتی نارائن رائے میرٹھ، جو سابق میں پولیس آفیسر رہے ہیں انہوں نے اپنی کتاب "ہاشم پورہ ۲۲ مئی” میں دعویٰ کیا ہے کہ ۱۹۸۷ کا ہاشم پورہ قتل عام منصوبہ بند طریقہ سے کیا گیا تھا۔
ملیانہ قتل عام ہاشم پورہ قتل عام کے محض ایک دن بعد ہوا۔ اس کارروائی میں بھی اسی پی اے سی کا ہاتھ ہے جہاں کم از کم ۷۲ مسلمانوں کو قتل کیا گیا، ہندو اکثریتی طبقہ کے فسادیوں نے پی اے سی کے ساتھ مل کر یہ کام انجام دیا۔ چشم دیدہ گواہوں نے پی اے سے پر یہ الزام لگایا ہے کہ پی اے سی نے علاقے کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کردیا تھا اور پھر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی۔ جب ہجوم لوٹ مار اور آتش زنی کر رہا تھا یہی پی اے سی ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ ۲۱۴ مسلمانوں کے مکانات کو نذر آتش کردیا گیا تھا جن میں سے ۱۰۶ مکانات مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ ان مکانات میں بسنے والوں کو یا تو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا یا انہیں زندہ جلایا گیا تھا۔ اس مقدمہ کی کارروائی فاسٹ ٹریک کورٹ میں ہونے کے باوجود ۳۴ سال سے کوئی فیصلہ نہیں سنایا گیا اور ابھی مقدمہ زیر دوراں ہے۔ ان ۳۴ سالوں میں ۹۰۰ مرتبہ مقدمہ کی سماعت کو ملتوی کیا گیا اور ۷۰ گواہوں میں سے صرف آٹھ گواہوں کے بیانات ہی قلمبند کیے جاسکے ہیں۔ ملک کی تاریخ کا شاید یہ سب سے طویل سماعت ہونے والا مقدمہ ہوگا۔ اس کے متاثرین ابھی بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ وکیل علاؤالدین صدیقی جو متاثرین کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر سمیت اہم دستاویزات عدالتی ریکارڈ سے غائب ہیں جس کی وجہ سے میرٹھ میں سیشن کی عدالت نے ایف آئی آر کی کاپی کے بغیر مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔ ابھی تک ایف آئی آر کی تلاشی جاری ہے۔ حقیقت میں یہ ایک بہترین مثال ہے اور یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کس طرح اقلیتوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس بات کا بھی کہ کس طرح مجرم اور ریاست مل کر کام کرتے ہیں۔
بین الاقوامی عہد نامہ برائے سماجی اور سیاسی حقوق (سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس) (آئی سی سی پی آر) ۱۹۶۶ ایک اہم بین الاقوامی دستاویز ہے جو بے انصافی سے متعلق ہے اس کا آرٹیکل ۱۴ (۶) کے تحت اگر کسی فرد کو غلط سزا دی گئی ہو تو اسے کو معاوضہ ادا کیا جانا ہو گا۔ اس کا آرٹیکل ۹ (۵) غیر قانونی گرفتاری یا نظربند پر بھی معاوضے کی ادائیگی بات کرتا ہے۔ تاہم ریاستوں کو اس سے متعلق قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک نے ۱۹۷۹ میں ہی آئی سی سی آر کی توثیق کردی تھی لیکن اس پر قانون سازی نہیں کی جب کہ اس سے متعلق عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ کیا کہ اس پر قانون سازی ہو لیکن حکومت نے قانون سازی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ریاست کو ہی مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا ماننا یہ ہے کہ اگر غلطیوں پر معاوضہ ادا کیا جانے لگے تو عوام پر سے ریاست کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۹ دسمبر ۱۹۷۵ کو ظالمانہ وپُر تشدد، غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک یا سزا کے خلاف جو قرارداد پیش کی تھی اس کنونشن پر ہندوستان نے بھی ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۷ دستخط کیے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل صرف دستخطوں کی حد تک ہی رہ گیا ہے ہندوستان نے شاید ہی اس پر عمل درآمد کیا ہو۔ ہندوستان میں مسلمانوں یا اقلیتوں، غریب اور پسماندہ افراد کو پولیس کے ہاتھوں جو کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے وہ فرقہ واریت، ذات پات یا معاشی تعصب سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے کیوں کہ پولیس کی بربریت بڑی حد تک سیاست دانوں کی ایما پر انہیں سیاسی طور پر فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی یا انسانی حقوق کے معیار کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ یہاں کی اقلیتیں، غریب اور پسماندہ طبقات کو یہ تیقن نہ مل جائے کہ وہ یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ جس دن یہاں بھی جارج فلائیڈ کے فیصلے کی طرح کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک عوام راحت واطمینان سے نہیں رہ پائیں گے۔
***

راجستھان کے جودھپور میں پولیس ملازم ایک شخض کو ماسک کے بغیر گھومنے پر گردن کو پیر سے دباکر سزادیتے ہوئے۔یہ تصویر جارج فلائیڈ کے قاتل امریکی سفید فام کی تصویر سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021