ہندوستانی سماج

ہم کہاں کھڑے ہیں اورکدھر جارہےہیں؟

ڈاکٹر نازنین سعادت(حیدرآباد)

 

ہمارا ملک ہندوستان، دنیا بھر میں اپنی جن خصوصیات کی وجہ سے معروف رہا ہے، ان میں ایک نمایاں خصوصیت اس کا مستحکم سماجی ڈھانچہ اور خاندانی روایات ہیں۔ مشرقی روایات نے یہاں سماج کے مختلف افراد اور طبقات کے درمیان اتحاد، ہم آہنگی اور ایک دوسرے پر انحصارکی بے نظیر کیفیات کو جنم دیا تھا۔ خاندان، اس مضبوط سماجی ڈھانچے کی ایک اہم اکائی رہا ہے لیکن خاندان کا یہ ادارہ بدلتی زندگی کے ساتھ کمزور پڑتا جارہا ہے۔ اس وقت ہند وستانی سماج کا خاندانی نظام دو طرفہ مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ مسائل ہیں جو یہاں کی قدیم روایتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ مسائل دبے ہوئے تھے لیکن اب علمی ترقی اور میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آکر معاشرے میں تناؤ پیدا کررہے ہیں۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی مغرب پرستی، تیزی سے مغربی دنیا کے مسائل کو بھی یہاں درآمد کررہی ہے۔ ذیل میں حقائق و اعداد و شمار کی روشنی میں کچھ اہم مسائل کا سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
خاندانی مسائل اور ان کی شدت
خاندانی زندگی کا اصل مقصد سکون و اطمینان ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سکون و اطمینان اور مودت و رحمت کو خاندانی زندگی کا اصل مقصد قرار دیا ہےاور واقعہ یہی ہے کہ زندگی کے پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا انسان اپنے خاندان میں آکر سکون کی سانس لیتا ہے۔ یہاں اسے جذباتی سہارا، بھرپور تعاون اورگرمجوش محبت ملتی ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں وہ سارے غم بھلاکر زندہ رہنے کا حوصلہ اور جدوجہد کرتے رہنے کا داعیہ حاصل کرتا ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں خاندان اور گھر تیزی سے تناؤ کے مرکز بنتے جارہے ہیں۔ اس وقت ملک میں خودکشی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے خودکشی کے چالیس فیصد واقعات ہمارے ملک میں پیش آتے ہیں اور ملک میں کی جانے والی 37فیصدخودکشیوں کا سبب خاندان سے متعلق مسائل ہیں۔خودکشی کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد غریب ڈیلی ویج ورکرز کی ہوتی ہے جو معاشی پریشانیوں کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا سب سے بڑا گروپ گھریلو خواتین Housewivesکا ہے جن کی خودکشی کا سبب خاندانی تناؤ ہوتا ہے۔ کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2018میں ملک میں ایک لاکھ چونتیس ہزارخودکشی کے واقعات پیش آئے۔ قرضوں اور دیوالیہ پن کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد 2800تھی ۔ شدید بیماری (کینسر، فالج ، ایڈز، پاگل پن وغیرہ) اور جسمانی اذیت سے پریشان ہوکر 12500 لوگوں نے خودکشی کی تھی جبکہ خاندان سے متعلق معاملات کی وجہ سے 35ہزار لوگوں نے خودکشی کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوخاندان ذہنی سکون کا گہوارا ہونا چاہیے وہ بہت سے لوگوں کے لئے شدید ترین تناؤ کا سبب بن گیا ہے۔
بیٹیوں سے نفرت اور دختر کشی
خاندانی مسائل کے روایتی اسباب میں سب سے بڑا سبب ہمارے سماج میں خواتین اور لڑکیوں سے نابرابری کا سلوک ہے۔ہمارے ملک میں ہر پچاس سیکنڈ میں ایک لڑکی، ولادت سے پہلے یا ولادت کے فوری بعد ماردی جاتی ہے۔ دختر کشی کے لئے طرح طرح کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر پیدا ئش سے پہلے اسقاط حمل کے ذریعہ ان کا قتل کیا جاتا ہے۔ پیدا ئش کے بعد انہیں زندہ دفن کرنا، جلادینا، زہر کھلا دینا، تکیے کے نیچے گلا گھونٹ دینا یا پتھر سے سر کچل دینا ، یہ سب ظالمانہ طریقے اکیسویں صدی کے ہندوستان میں ختم نہیں ہوئے ہیں۔قتل کی یہ سنگین وارداتیں لڑکی کے قریبی رشتے دار، پیشہ ور دائیوں کی مدد سے انجام دیتے ہیں۔بعض اوقات لڑکی کے باپ اور کبھی ماں بھی اس میں شریک ہوتی ہے۔ بعض لوگ نومولود لڑکی کو کسی کچرے کے ڈھیر پر یا ویران جگہ پر چھوڑ آتے ہیں۔جسے کتے ماردیتے ہیں یا بعض اوقات اجنبی لوگ یا رفاہی کارکن اٹھالیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پندرہ کروڑ لڑکیاں (آبادی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ملک امریکہ میں خواتین کی جملہ آبادی کے تقریباً برابر) پیدائش سے پہلے یا فوری بعد دانستہ قتل کی وجہ سے غائب ہوچکی ہیں۔ان میں سے ایک تہائی تعداد ہمارے ملک سے متعلق ہے۔ (یہ تعداد کووڈ میں مرنے والوں کی تعداد کے تین سو گنا ہوتی ہے)۔گزشتہ سال اتراکھنڈ سے آنے والی اس خبر نے تہلکہ مچادیا تھا کہ وہاں کئی دیہاتوں میں کئی سالوں سے ایک بھی لڑکی کی پیدائش نہیں ہوئی ہے۔
حیاتیاتی لحاظ سے نارمل جنسی تناسب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آبادی میں اگرایک ہزار مرد ہوں تو 950 عورتیں ہونی چاہیے۔ہمارے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں میں یہ تناسب گھٹ کر 900 سے بھی کم ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق، چھ سال سے کم عمر بچوں میں یہ تناسب صرف چند ریاستوں ہی میں 950یا اس سے متجاوز ہے۔ ہریانہ(834)، پنجاب(846)، وغیرہ جیسی ریاستوں میں تو یہ تناسب خطرناک حدوں کو چھورہا ہے۔ نیتی آیوگ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ صورت حال دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے اور سترہ ریاستوں میں صرف ایک سال میں اس تناسب میں دس یا اس سے زیادہ پوائنٹ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ گجرات میں ایک سال کے اندر 53پوانٹس کی کمی واقع ہوئی۔یعنی فی ہزارلڑکوں کے مقابلے میں، 907لڑکیاں پچھلے سال پیدا ہوئی تھیں، اور اس سال 854ہی پیدا ہوئیں۔
اس صورت حال نے ملک کی کئی ریاستوں میں دلہنوں کی قلت پیدا کردی ہے۔لڑکے شادیوں کے لئے دوسری ریاستیں جانے پر مجبور ہیں۔ قحبہ گری اور عورتوں کی ٹریفکنگ جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ انتہائی گھناؤنا رواج بھی شروع ہوگیا ہے کہ کئی مرد (کئی بھائی) مل کر ایک ہی لڑکی سے شادی کرتے ہیں اور مشترک بیوی سے کام چلاتے ہیں۔
یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ خاندانی نظام کی موت ہے۔ اگر صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک کو آئندہ بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو انسانی نسل کے خاتمے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔
ان مسائل کا بنیادی سبب لڑکوں کو ترجیح دینے کا مزاج ہے۔نرینہ اولاد کی خواہش اور فیملی پلاننگ اور برتھ کنٹرول کے رواج نے یہ صورت حال پیدا کردی کہ ماں باپ صرف ایک یا دو بچے چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ لڑکے ہوں۔
اس مزاج کی وجہ سے، جن گھروں میں لڑکیاں زندہ رہ جاتی ہیں وہاں بھی انہیں قدم قدم پر نابرابری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اچھی غذا، اچھی نگہداشت، اچھا علاج یہ صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو ان سے محروم کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فطری اموات میں بھی ان کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
جہیز کی لعنت
ہندوستان میں خاندانی نظام کے لئے ایک بہت بڑی لعنت جہیز کی رسم ہے۔ اس رسم کی وجہ سے لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی شادیاں مشکل ہوجاتی ہیں اور شادی کے بعد بھی لالچی سسرالی رشتے دار، ان کی زندگیاں اجیرن بنائے رکھتے ہیں۔ جہیز کے لئے ہونے والی اموات (قتل اور خودکشیاں) کے لحاظ سے ہمارا ملک ساری دنیا میں سر فہرست ہے۔ ملک میں عورتوں کے جتنے قتل ہوتے ہیں، ان میں سے نصف قتل جہیز کے لئے ہوتے ہیں۔ حالانکہ جہیز کے لئے ہراسانی کے خلاف نہایت سخت قوانین بنائے گئے ہیں لیکن ان کے باوجود نہ صرف یہ کہ اس وحشیانہ رسم میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے بلکہ ہر سال جہیز کے لئے ماری جانے والی خواتین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔
گھریلو تشدد
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-4) کے مطابق ہندوستان میں 30 فیصد جوان خواتین (۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر کے درمیان) گھریلو تشدد کی شکار ہیں۔ تھامس رائٹرز فاونڈیشن Thomson Reuters Foundation نے اپنے سالانہ سروے میں ہندوستان کو خواتین کے لئے سب سے خطرناک ممالک میں شمار کیا ہے۔
تشدد کے ان واقعات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر عورت کو شوہر کی ملکیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے آزاد وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی اس روایتی سوچ کا اثر باقی رہتا ہے اور وہ عورت کو ایک غلام کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ روایتی گھرانوں میں عورت کو پورے سسرال کی خادمہ سمجھا جاتا ہے۔ شادی یہاں ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایسا مقدس اور مستقل بندھن ہے جو کسی صورت توڑا نہیں جاسکتا اور عورت سے ایک غلام کی طرح سلوک کرنے کو سسرال والے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جو خواتین جسمانی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں وہ بھی ذہنی ہراسانی ، ٹارچر اور استحصال کا شکار بنی رہتی ہیں۔
سماجی صورت حال کے ساتھ ملک کا قانونی نظام بھی اس صورت حال کے لیے ذمہ دار ہے۔ اکثر صورتوں میں پولیس تھانے، خواتین کی شکایتوں کو درج کرنے میں تساہلی برتتے ہیں۔ سیاسی دباؤ اور رشوت کے ذریعہ بھی طاقتور لوگ اثر انداز ہوتے ہیں۔ قانونی نظام بھی سست رفتار ہے۔ حالیہ دنوں میں بعض ریاستوں میں سخت گیر قوانین بھی لائے گئے ہیںلیکن اس کے باوجود صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔
معاشی ناانصافیاں
خاندانوں کا ایک بڑا مسئلہ معاشی ناانصافیاں ہیں۔ اسلامی قانون کے برخلاف اکثر قوانین میں وراثت کی تقسیم کے متعین اصول موجود نہیں ہیں۔ اکثر صورتو ں میں مرنے والے کی جائیداد اس کے بیٹوں کے مشترکہ استعمال میں رہتی ہے۔ بیٹیاں چونکہ بیاہ کر چلی جاتی ہیں اس لئےعام طور پر اس آبائی جائیداد میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اگرچہ عورتوں کو وراثت میں حصہ دینا قانوناً ضروری ہے لیکن عملاً اس قانون پر عمل نہیں ہوتا۔ زرعی جائیدادوں کے سلسلے میں تو عدالتیں بھی مشترکہ استعمال کو درست قرار دے دیتی ہیں۔عورتیں ہی نہیں بلکہ دوسرے مقام پر ملازمت کرنے والے بھائی وغیرہ بھی محروم رہتے ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ شکایتیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور طرح طرح کے تنازعات جنم لیتے ہیں۔
خواتین کا نہ صرف آبائی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ وہ کماتی ہیں ، ان پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ انہیں اپنی پوری تنخواہ شوہر کے اوربعض صورتوں میں ساس و خسر کے حوالے کردینی پڑتی ہے۔ اس معاشی بے چارگی کی وجہ سے بھی خواتین ظلم و استحصال کا آسان نشانہ بنی رہتی ہیں۔
گھروں کےا ندر جنسی زیادتیاں
ہمارے ملک میں خواتین اپنے گھروں کے اندر بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ سماجی کارکنوں کا اندازہ ہے کہ 18سال سے کم عمر ہر دو میں سے ایک لڑکی، کسی نہ کسی درجے کےجنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے اور 90 فیصد کیسوں میں استحصال کرنے والے قریبی فیملی ممبرز ہوتے ہیں۔
باپ ، بیٹے ، بھائی ، بہنوئی، دیور وغیرہ کے ذریعہ جنسی استحصال جسے انگریزی میں انسیسٹ Incest Abuseکہتے ہیں اب ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ خواتین کی کئی تنظیمیں اس کے خلاف سخت گیر قانون سازی کی مانگ کررہی ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں والد کی جانب سے بیٹی کے جنسی استحصال کے کئی واقعات سامنے آئے۔ اب بیٹوں کی جانب سے والدہ کے استحصال کے واقعات بھی آنے لگے ہیں۔ دلی پولیس کے مطابق 2014میں ریپ کے جو کیس رجسٹر ہوئے ان میں 13 فیصد واقعات میں ملزم قریبی رشتے دار Incest Abuse تھے بلکہ پانچ فیصد کیسوں میں باپ اور بھائی ملزم تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورت حال کس قدر گمبھیر ہوچکی ہے۔
غیر شادی شدہ مائیں
ہندوستان میں غیر شادی شدہ ماؤں کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔چند سال پہلے حیدرآباد میں پیش آئے ایک واقعہ نے تشویش کی لہر دوڑادی تھی ۔ انجنیرنگ کی ایک طالبہ اسقاط حمل کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی اور پولیس نے اس کے بوائے فرینڈ اور ڈاکٹر کو گرفتار کرلیا تھا۔ ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً دیڑھ کروڑ حمل عمداً ساقط کرائے جاتے ہیں ۔Induced Abortions کی یہ تعداد اُن واقعات کی ہے جو ہسپتال میں باقاعدہ ریکارڈ ہوتے ہیں۔ چوری چھپے ہونے والے واقعات کے سلسلہ میں اندازہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ان واقعات میں ایک بڑی تعداد کا تعلق ، غیر شادی شدہ کم عمر ماؤں سے ہوتا ہے۔ ایک آبادی میں متعین وقت کے لئے کی گئی ایک اسٹڈی کے مطابق وہاں پانچ فیصد حمل شادی کے بغیر ٹھہرے تھے۔اسقاط حمل چونکہ چوری چھپے کرنے کی کوشش ہوتی ہے اس لئے مناسب طبی نگہداشت نہیں ہوپاتی اور ایسی مائیں طرح طرح کے طبی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔جو بچے پیدا ہوجاتے ہیں ان میں بھی بچپن میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر ماں اور بچے دونوں کو سماج میں طرح طرح کی مشکلات کا سامان کرنا پڑتا ہے۔ باپ اور خاندان کی سرپرستی کے بغیر پرورش پانے والے بچے مختلف نفیساتی عوارض کے شکار ہوسکتے ہیں۔
چھوڑ دی گئی خواتینAbandoned Women
اس سے مراد طلاق یافتہ خواتین نہیں بلکہ وہ خواتین ہیں جنہیں نہ ان کے شوہر طلاق دیتے ہیں اور نہ ان کو ساتھ رکھتے اور ان کے حقوق ادا کرتے ہیں، بلکہ انہیں بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ خاص طور پر ہمارے ملک کا مسئلہ ہے۔ تعلقات خراب ہوں تو طلاق کا عمل نہایت مشکل بنادیا گیا ہے۔ ان مشکلات سے بچنے کے لیے ایسے مرد اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے بجائے، انہیں یونہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔رپورٹوں کے مطابق ہمارے ملک میں ایسی خواتین کی تعداد تقریباً ۲۳ لاکھ ہے۔ یہ تعداد طلاق یافتہ خواتین کے دو گنا ہے۔ طلاق یافتہ خواتین دوبارہ شادی کرسکتی ہیں یا آزادانہ طور پر نئی زندگی کی شروعات کرسکتی ہیں لیکن بغیر طلاق کے چھوڑدی گئی یہ خواتین زندگی بھر اس امید میں رہتی ہیں کہ کسی مرحلے پر ان کے شوہر ان سے آملیں گے۔ شوہروں کے بغیر ان کی زندگیاں اجیرن ہوتی ہیں۔شدید معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ سماج کے ناروا سلوک کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کا قانونی نظام بھی ایسا ہے کہ شوہر کے دستخط کے بغیر پاسپورٹ حاصل کرنا تک آسان نہیں ہوتا۔گزشتہ سال ایک بڑا مسئلہ ان خواتین کا بھی سامنے آیا جن کے شوہر اُنہیں بے سہارا چھوڑ کر یورپ، امریکہ اور دیگر ملکوں کو چلے گئے اور اکثر نے وہاں شادیاں بھی کرلیں۔چندی گڑھ کی ایک سماجی کارکن کی کوششوں سے ان مردوں کے پاسپورٹ منسوخ کرانے کی تحریک شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ پانچ ہزار سے زیادہ خواتین نے اپنے این آر آئی شوہروں کے خلاف وزارت امور خارجہ میں شکایتیں درج کرائی ہیں اور ان کے پاسپورٹ کی منسوخی کی درخواستیں دی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اب ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
بیواؤں کی لاچاری
خاندانی مسائل میں ایک اہم مسئلہ بیواؤں کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ بیوہ خواتین رہتی ہیں۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور ملک میں عورتوں کی جملہ آبادی کا تقریباً دس فیصد ہے۔ان بیواؤں میں جوان العمر بیواؤں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔سماج میں آج بھی بیواؤں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے۔شوہر کی موت کے بعد بھی انہیں زندگی بھر سسرال ہی میں رہنا ہوتا ہے جہاں وہ ایک ناپسندیدہ وجود بنی پوری زندگی گذارنے کے لئے مجبور ہوتی ہیں۔ اگرچہ بیواؤں کی شادی کی گنجائش قانونی لحاظ سے تمام پرسنل لاز میں موجود ہے لیکن بہت سے سماجوں میں یہ پسندیدہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں بیوائیں موجود ہیں۔ ان بیواؤں کو شوہر کی جائیداد میں اکثر کوئی حصہ نہیں ملتا۔ شوہر کے مرتے ہی اس کی چوڑیاں توڑ دی جاتی ہیں اور ہر طرح کا سنگھار بلکہ رنگین کپڑے بھی ممنوع ہوجاتے ہیں۔ اس کے وجود کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور خوشی کی تقاریب یا اہم مواقع پر اسے دور رکھا جاتا ہے۔ کئی ریاستوں میں آج بھی جوان العمر بیواؤں کو چڑیل سمجھا جاتا ہے اور گاؤں میں پیش آنے والے حادثات یا ناگوار واقعات کے لئے ان کو ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ ان کواس’’جرم‘‘ میں قتل کیے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ ان سب سے پریشان ہوکر بہت سی عورتیں گھر چھوڑکر کسی آشرم میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔صرف برنداون میں، جو دلی سے دیڑھ سو کلومیٹر دور واقع ایک مذہبی مقام ہے، تقریباً دس ہزار بیوائیں نہایت قابل رحم حالت میں آشرموں میں زندگی گذاررہی ہیں۔ برنداون کو اس کی وجہ سے بیواوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔
بزرگوں کی حالت زار
بڑھتی ہوئی ترقی کی شرح اور نقل مکانی کا خمیازہ بزرگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے دوران، ہندوستان میں 71 فیصد معمر مرد و خواتین ، اپنے بچوں کےہاتھوں ہراسانی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر سیکنڈ میں ، ایک بزرگ پر ظلم اور تشدد ہوتا ہے۔
ایک این جی او (ایج ویل فاونڈیشن) نےاپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہمارے ملک میں بزرگوں کی بےعزتی عام بات ہوگئی ہے۔افراد خاندان انہیں بیکار وجود اور خود پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی باتیں اور طعنے بزرگوں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں۔ تقریباً ۳۵ فیصد بزرگوں کو تو اپنے بچوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔
یہ سب وہ مسائل ہیں جو اسلام کی خاندانی قدروں اور تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اسلام نے خاندانی زندگی کےتفصیلی احکام دیے ہیں۔ ماں، بیٹی، بیوی، بہو وغیرہ کا آزادانہ مقام اور ان کے حقوق اور خاندان کے تمام ارکان کے حقوق و فرائض نہایت وضاحت کے ساتھ متعین کیے ہیں۔ اور ایثار و احسان کی تعلیم دی ہے۔ اسلام کے ان ابدی اصولوں پر مسلمان عمل پیرا ہوتے اور ان کو عام کرتے تو یہ صورت حال ہرگز پیدا نہیں ہوتی لیکن اوپر جو مسائل بیان کیے گئے ہیں، وہ کم و بیش مسلم معاشرے میں بھی سرایت کرتے جارہے ہیں۔ ہم اسلام کے نظام رحمت سے اہل ملک کو متعارف کرانے کی بجائے، ان کی خرابیوں کا خود تاثر قبول کررہے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور اہل ملک کے سامنے انہیں پیش کریں تو ان تعلیمات میں ان سب مسائل کا پائیدار حل موجود ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021