ہم ایک پرتشدد معاشرہ بن گئے ہیں ۔۔!

قانون کی حکمرانی کی جگہ بندوقوں نے لے لی

آسام کا دورہ کرنے والی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ
حقائق کا پتہ چلانے کے لیے ایک ٹیم نے آسام کے درانگ کا دورہ کیا جہاں دھول پور سے 900 سے زائد خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔ اس ٹیم نے 4 اکتوبر کو قومی دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس میں پولیس فورس کے سخت برتاو، بے دخل افراد کی قابل رحم حالت اور مقامی انتظامیہ و ریاستی حکومت کی بے حسی کی رودادا بیان کی۔
اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے نفرت کے خلاف اتحاد (یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ) کے بانی رکن ندیم اختر نے جنہوں نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی قیادت کی کہا کہ تین افراد ہلاک ہوگئے اور تقریباً 12 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 9کا گوہاٹی میڈیکل کالج میں علاج کروایا گیا۔ لوگ وہاں 1965ء سے مقیم تھے اور یہ مقام ایک کھلی جیل کی طرح تھا۔ لوگوں کو پہلے دھول پور1 سے بے دخل کیا گیا جبکہ نوٹس دھول پور 2 اور 3 کو دی گئی۔ یہ لوگ 1970ء سے اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کرتے آئے ہیں۔
ندیم خان نے مزید کہا کہ 10ستمبر کو بے دخلی کے لیے نوٹس جاری کی گئی لیکن عوام کو 19ستمبر کو 8 بجے شام نوٹس حاصل ہوئی جس میں کہا گیا کہ 20ستمبر تک زمین خالی کر دیں۔ بے دخلی کے قاعدہ کے مطابق لوگوں کو متبادل زمین فراہم کی جاتی ہے اور دوسرے مقامات پر منتقل ہونے کے لیے مناسب وقت دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم ان افراد کی مناسب باز آبادکاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور مستقبل میں کوئی بے دخلی کی جا رہی ہو تو اس سے پہلے حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگوں کے لیے مناسب متبادل انتظامات کیے جائیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڈے نے کہا کہ آج جو کچھ لکھیم پور کھیری اور آسام کے دھول پور اور ہریانہ میں ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ نہ صرف ایک پرتشدد معاشرہ بلکہ ایک پرتشدد انتظامیہ بن رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کی جگہ ڈنڈا اور بندوقوں کی حکمرانی نے لے لی ہے۔ دھول پور واقعہ میں قانون کی حکمرانی کو پامال کیا گیا ہے اور لوگوں کی مناسب باز آبادکاری نہیں کی گئی ہے۔ قانون کی حکمرانی اس وقت مزید پامال ہو گئی جب پولیس نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ مسٹر ہیگڈے نے مزید کہا ’’جب ایک فوٹو گرافر ایک مرے ہوئے شخص پر جس کا سینہ گولیوں سے چھلنی تھا، کود رہا تھا تو اس نے اس کام کو مکمل کیا جو گولیوں نے نہیں کیا تھا کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ گولیاں لگنے کے باوجود معین الحق زندہ رہتے لہٰذا قانون کی اصطلاح میں یہ ایک قتل تھا‘‘۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا نندا نے کہا کہ سال 2013-14میں نریندر مودی نے جو اب وزیر اعظم ہیں اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ آسام اور بہار کے سیمانچل علاقوں میں در اندازوں نے قبضہ کرلیا ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے وہاں سے در اندازوں کو نکال باہر کیا جائے۔ کسی بھی بے دخلی کی کارروائی میں جو ہم دیکھتے ہیں عام طور پر حکومت کو اس بارے میں افسوس محسوس ہوتا ہے لیکن آسام کی حکومت نے کہا کہ وہ بے دخلی کی اپنی مہم جاری رکھے گی اور عوام اس کے ساتھ ہیں۔
ادیبہ و مصنفہ فرح نقوی سوال کرتی ہیں کہ آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے حکومت کے تشدد کی وجہ سے اپنا گھر کھویا ہے؟ ’’میں خود کو نفرت کی اس جگہ پر موجود تصور کرتی ہوں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ ذرا تصور کیجیے، آپ بہت غریب ہیں اور اپنی ساری زندگی میں آپ جو کچھ حاصل کر سکے وہ بس ایک گھر ہی ہے اور اسی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی فرقہ وارانہ صورتحال ہے جس میں غریب خاندان اپنا کل اثاثہ کھو رہا ہے اور دوسری طرف حکومت ہے جس کے انکار کے رویہ کو واجبی سمجھا جا رہا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم سے آج جو کچھ میں سن رہی ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے ایک ’ریوبیکان‘ کو عبور کرلیا ہے جہاں میرے مکان کو تباہ کرنے والے لوگ کوئی ہجوم نہیں تھے بلکہ میری اپنی منتخب کردہ حکومت تھی۔ مجھے تو یہ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ دہشت گردی لگتی ہے‘‘۔
صدر ایس آئی او سلمان احمد نے جو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ معین الحق کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے کہا کہ چیف منسٹر سمیت وہاں کے لوگوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے لیکن کوئی بھی پولیس کے سفاکانہ رویہ کی بات نہیں کر رہا ہے۔ یہ لوگ فوٹو جرنلسٹ کی وحشیانہ حرکت، زمین پر قبضہ کی بات تو کرتے ہیں لیکن پولیس کے رول پر لب کشائی نہیں کرتے اور اس کے بجائے وہ یہ کہتے ہیں کہ پولیس نے اپنے دفاع میں اقدام کیا ہے۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ چیف منسٹر نے یہ کہا کہ جن لوگوں کو بے دخل کیا ہے وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بعض سفارشات کی ہیں مثلاً:
۱۔ معین الحق اور شیخ فرید کے خاندانوں کو حکومت کی جانب سے مناسب معاوضہ دیا جائے۔
۲۔ ان تمام لوگوں کو معاوضہ دیا جائے جو حکومت کی بے دخلی کی مہم میں زخمی ہوئے ہیں۔
۳۔ اس آپریشن میں ملوث خاطی پولیس عہدیداروں بشمول ایس پی درانگ سوسانتا بسوا شرما کے خلاف کارروائی کی جائے۔
۴۔ بے دخلی کی مہم کو فوری عمل درآمد کے ساتھ روکا جائے۔
۵۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی افراد کے خلاف مقدمات کو خارج کرے جو بے دخلی کی مہم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ آئندہ کسی خاندان یا کسی شخص کی بے دخلی سے قبل ایک جامع باز آبادکاری منصوبہ کا اعلان کرے۔
***

 

***

 ’’ ذرا تصور کیجیے، آپ بہت غریب ہیں اور اپنی ساری زندگی میں آپ جو کچھ حاصل کر سکے وہ بس ایک گھر ہی ہے اور اسی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی فرقہ وارانہ صورتحال ہے جس میں غریب خاندان اپنا کل اثاثہ کھو رہا ہے اور دوسری طرف حکومت ہے جس کے انکار کے رویہ کو واجبی سمجھا جا رہا ہے۔‘‘
(فرح نقوی)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021