گھریلو تشدد

فرحت الفیہ(جالنہ)

 

گھر اور خاندان کو مضبوط، مستحکم اور پیار و محبت کی بنیادوں پر استوار کرنے میں گھریلو تشدد بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے اور موجودہ دور کا بہت بڑا اشو بھی۔ یہ تشدد والدین کا اولاد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور اولاد کا والدین کے ساتھ بھی۔ یہ بھائی بھائی اور بھائی بہنوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور باہم دیگر دوسرے خونی رشتہ داروں کے ساتھ بھی اور اسی طرح شوہر کا بیوی اوں بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خاندانی نظام کی برائی ایسی برائی ہے جو نہ صرف باہمی الفت و محبت اور تعلقات کو خراب اور تباہ کرنے والے والی ہے بلکہ افراد خاندان کے ذہنوں میں نفرت، عداوت اور بغض و عناد کو پروان چڑھانے کا سبب ہے۔ یہ ہر صورت میں ناقابلِ قبول اور قابلِ نفرت ہے۔
اس مضمون میں ہم اس گھریلو تشدد پر بات کرنا چاہتے ہیں جو شوہر و بیوی کے درمیان پایا جاتا ہے اور عصرِ حاضر میں اس نے خاندان کے تار وپود بکھیرنے اور ازدواجی و خاندانی زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور کررہا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ شوہر و بیوی کا رشتہ و تعلق پیار ومحبت اور ایثار و تعاونِ باہمی کا رشتہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں شوہر کی جانب سے بیوی پر، جو جسمانی اور جذباتی لحاظ سے نسبتاً کمزور واقع ہوئی ہے، جسمانی تشدد عام ہے۔ ہر چند کہ اس کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں قانون سازی کی گئی ہے مگر اس کے باوجود یہ برائی نہ صرف ختم نہیں ہوپارہی ہے بلکہ دن بہ دن واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
گھریلوتشددکی تعریف
PWDVA:(Protection of women from domestic violence act 2005(
کے مطابق عورت کو اپنے ہی گھرمیں درپیش جسمانی، جذباتی، جنسی،زبانی اور معاشی زیادتیاں ’’گھریلو تشدد‘‘ کی تعریف میں شامل ہے۔
بھارت میں خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدد کے تدارک کےلیےیہ قانون 2005 میں پاس کیا گیا۔ اس قانون کا مقصد گھریلو تشدد کی شکار خواتین کوتحفظ فراہم کرنااوران پر ہورہے تشدد کا خاتمہ کرنا ہے۔مگربدقسمتی سےگزشتہ 20سالوں میں خواتین پر تشددکی شرح بڑھ کرکئی گناہ زیادہ ہوگئی ہے۔بالالفاظ دیگرخواتین کےتحفظ کے لیے بنایا گیا یہ قانون بھی انہیں گھریلوتشددسےبچانےمیں ناکام ثابت ہوا ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2015- 2016 کےمطابق ایک تہائی سےزیادہ خواتین نےخودکہا ہےکہ انہیں گھریلوتشددکانشانہ بنایاجاتاہے۔
2012کی رپورٹ’’انصاف کی تلاش‘‘ میں بتایا گیاہے کہ21 ممالک میں سے17ممالک کےایک چوتھائی سےزیادہ لوگ اپنی بیوی کو مارنا درست سمجھتےہیں۔رپورٹ کےمطابق بھارت میں یہ تناسب 20فیصد ہے۔
National crime record buearu (این سی آر بی) کےمطابق 2019 میں خواتین کےخلاف ہونے والے 4لاکھ پانچ ہزارجرائم درج کیےگئےجس میں تیس فیصدیعنی ایک لاکھ 26 ہزارکیسس گھریلو تشدد پر مشتمل تھے۔
2018 کےایک سروےکےمطابق گھریلو تشدد میں 48فیصدخواتین جہیزکےنام پرہلاک کردی گئیں۔جس میں خودکشی بھی شامل ہے۔
2019 میں یہ تعدادبڑھ کر52 فیصد ہوگئی۔ تازہ ترین رپورٹ کےمطابق رواں سال میں ہردن بشمول خودکشی کےاوسطاً دوہلاکتیں درج کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا اعدادوشمار وہ کیسیس ہیں جو اندراج شدہ ہیں۔ جو کسی سروےیا شکایت سے موصول ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 86 فیصد خواتین جو گھریلو تشددکاسامناکرتی ہیں ان میں 77فیصد خواتین نہ توشکایت درج کرواتی ہیں اور نہ کسی سےمددطلب کرتی ہیں۔ گھریلو تشدد کا مسئلہ کسی ایک ملک کے ساتھ خاص نہ ہو کر ایک عالمی مسئلہ ہے ۔
گھریلو تشددمیں سرفہرست ریاستیں
2016 سے 2019 کی رپورٹ کے مطابق بہار،کیرلہ، راجستھان اور یوپی گھریلو تشددمیں سرفہرست ہیں ۔
موجودہ ترقی کےدور میں جہاں خواتین کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں وہیں صنف نازک سب سے زیادہ گھریلو تشدد کا سامنا کر رہی ہے جس کا اندازہ مذکورہ بالاعداوشمارسے لگایاجاسکتاہے۔
دعویٰ کیا جارہا ہے کہ عالمی لاک ڈاؤن کےدوران پوری دنیامیں گھریلوتشددمیں غیرمعمولی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے اور اس پر ہنوز تحقیقاتی رپورٹوں کا انتظار ہے۔
برطانوی اخبار’’دی گارجین‘‘ کی ایک خصوصی رپورٹ میں ذکرکیاگیاہےکہ:
’’لاک ڈاؤن کےدوران چین، فرانس، اٹلی، اسپین، جرمنی اوربرازیل جیسےممالک میں گھریلو تشدد میںاضافہ ہواہے۔اور طلاقوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔‘‘
چین میں گھریلوتشددمیں حیران کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کورناسےچین کےسب سےزیاددہ متاثرہونےوالا صوبہ ’’ووہان‘‘ میں گھریلو تشدد میں تین گناہ اضافہ درج کیا گیاہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ چین میں ہونے والے گھریلو تشدد کاتعلق90 فیصد کورونا ہی سےمنسلک تھا۔
اسی طرح برازیلی نشریاتی ادارےکی ایک رپورٹ میں بتایاگیاکہ برازیل میں گھریلوتشددمیں 40 سے50 فیصد اضافہ دیکھا گیاہے۔حیرت کی بات یہ ہےکہ تشدد کا نشانہ خواتین ہی ہو رہی ہیں ۔
اسپین میں خواتین پرگھریلوتشددکو مدنظر رکھتے ہوئےحکومت نےیہ اعلان کیاتھاکہ گھریلو تشدد کا شکار خاتون کولاک ڈاؤن میں بھی گھر سے نکلنےکی مکمل اجازت دی جائے گی۔ اسپین میں گھریلو تشدد کے باعث خواتین کے قتل کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں۔
وجوہات واسباب
گھر انسان کے لیے جائے قرار و سکون کا ذریعہ ہوتاہےلیکن بدقسمتی سےاس کےمکیں ہی ایک دوسرےکاسکون، نہ صرف غارت کررہےہیں بلکہ ایک قدم آگےبڑھ کرتشددپرآمادہ ہیں۔خواتین اکثر شوہر،ساس اور دیگر سسرالی رشتےداروں کے ذریعے ذہنی وجسمانی تشددکانشانہ بنتی ہیں جس کی اکثر وجوہات مردوں کا احساس برتری معاشی و خاندانی نابرابری اورافراد خاندان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کانہ ہوناہے۔
اکثرمہذب گھرانوں میں بھی دیکھاگیاہےکہ بہو کوسسرالیوں کی طرف سےصرف اس لیے طعنہ دیاجاتاہےکہ وہ ان کی حیثیت کےمطابق جہیزنہیں لائی ہےیا پھر ان کی خود ساختہ توقعات کو پورا کرنےکی اہلیت نہیں رکھتی یا پھر لڑکی کے مائیکے والے اس کے سسرالیوں کے اسٹیٹس سےکم تر درجہ رکھنے والے ہیں۔ صورت حال بعض اوقات اتنی سنگین ہوجاتی ہےکہبہوئیں اپنےسسرالیوں کےرویہ سےتنگ آکر خود کشی تک کرلیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سسرالیوں کےذریعے لڑکی کونذرآتش کردینا ، پھانسی پرلٹکا دیناجیسے واقعات بھی آئے دن رونما ہوتے رہتےہیں۔ شوہراپنی بیویوں پر برتری ظاہر کرنے کے لیےمعمولی سی بات کوبنیاد بناکر عورت کو تشدد کانشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ شراب پی کر مرد کا عورت اور بچوں کے ساتھ مار پیٹ کرنا ہمارح میں ایک معمول کی بات ہے۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں ان ہی وجوہات کی بناء پر گھریلو تشدد ہوتاہے۔گھریلو تشدد کے پیچھے مرد کی یہ نفسیاتی کیفیت بھی اہم رول ادا کرتی ہے کہ وہ عورت سے برتر ہے۔ یہ سوچ ہمارے اس فرسودہ سماجی روایت کے سبب ہے جو عورت کو بیوی کی شکل میں عزت واحترام نہیں دیتی اور اسے بے حیثیت فرد کی طرح تصور کرتی ہے، جس پر مرد کا مکمل اختیار ہے اور وہ اس کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ کرسکتا ہے۔ جب سوچ ایسی ہو تو نتیجتاً یہ تشددقتل وغارت گری تک پہنچ جاتاہے، اور سنگین صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
گھریلو تشدد یا ازدواجی تشدد کا ایک الٹا پہلو اور بھی ہے اور وہ عورتوں کا تشدد مردوں کے خلاف ہے، جو اگرچہ سماج میں اس قدر نہیںپایا جاتا جتنا خواتین کے خلاف مردوں کا تشدد ہے لیکن وہ بھی اب اچھی طرح پھل پھول رہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب مردوں کی بھی ایسی انجمنیں قائم ہوگئی ہیں جو خواتین کے ذریعے کیے جانے والے تشدد اور استحصال کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔
تشدد کسی کا کسی پر بھی ہو، جیسا کہ مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا، وہ قابلِ نفرت اور قابلِ رد ہے اور اس کے تدارک کی ہر سطح پر کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ یہ سماج اور خاندان کے تانے بانے اسی طرح کاٹ ڈالتا ہے جس طرح قینچی کپڑے کو کاٹ دیتی ہے۔
گھریلوتشددکےتدارک کےلیےاسلامی تعلیمات
انسانی نفسیات کی سب سےبڑی کمزوری یہ ہےکہ جب اس کےپاس طاقت ہوتی ہےتووہ ظلم و زیادتی کی طرف قدم بڑھانےلگتاہے۔اورحدودکی پاسداری نہیں کرپاتا۔نتیجتا اپنےفریق پرظلم وتشددروا رکھتاہے۔اوربعض اوقات اپنےاس عمل کوحق بجانب گردانتاہے۔
اسلام کےنزدیک خیروشردراصل انسان کے اپنے نفس میں پوشیدہ ہے۔فالہماہا فجوراھا و تقوھا اور یہ ہی اس کاسب سے بڑا امتحان ہے کہ وہ اپنے اندر پوشیدہ خیر سے گھر کے مکینوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کرتا ہے، یا اپنے شر سے اپنےقرابت داروں کےلیےظلم و تشدد کا پیکر ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نہ صرف گھریلوتشددبلکہ ظلم کی ہرقسم پرکاری ضرب لگاتا ہے۔اسلام کےنزدیک قانون کی بالادستی سے زیادہ انسان کو اخلاقِ حسنہ کی اعلیٰ ترین معراج تک پہنچانامقصودہے۔
’’اللہ تعالیٰ عدل اوراحسان اورصلہءرحمی کا حکم دیتاہے۔اوربدی اوربےحیائی اورظلم وزیادتی سےمنع کرتاہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتاہے، تاکہ تم سبق لو۔‘‘( النحل: 90)
ان آیتوں میں انسانی زندگی کےکامیاب سنہری اصول بتائےگئےہیں۔
شوہرکواس بات کاحکم دیاگیاہےکہ اپنی بیوی کےساتھ عدل واحسان کامعاملہ کرے۔اس کاحق اداکرے اس پرمال خرچ کرے، لباس، رہائش، اور خوراک کاحسب استطاعت نظم کرے۔اپنی بیوی پر ظلم وتشدد نہ کریں۔یہ اس کی اخلاقی، قانونی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ یہی چیزیں خواتین سےبھی مطلوب ہیں۔رسول ﷺ نےکبھی بھی اپنی کسی بھی زوجہ مطہرہ پرکبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔(صحیح مسلم) اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس عمل کو ناپسند بھی کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےخطبےمیں ارشادفرمایا:
’’یہ بہت بری بات ہےکہ تم میں سےایک شخص اپنی بیوی کواس طرح مارتاہےجس طرح غلام کومارتاہےحالانکہ دوسری طرف وہ اس سے جنسی خواہشات بھی پوری کرتاہے۔‘‘(بخاری)
اگرایک مردپوری دنیامیں سفیدپوش بنا پھرتا رہے،ہرایک سےبہترین اخلاق وکردارکامعاملہ کریں، مگرگھرمیں اپنی بیوی سےبدسلوکی کرے، وہ کہیں سےبھی بااخلاق نہیں ہوسکتا۔
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
’’تم میں بہترین وہ ہےجواپنےگھروالوں کے لیے اچھا ہو، اور میں تم میں اپنے اہل وعیال کےسلسلے میں سب سے اچھا ہوں۔‘‘(ترمذی)
اپنے قرابت داروں سے عدل و احسان کا معاملہ کرنا چاہیے۔ایک دوسرے کے قصور کوعالی ظرفی کاثبوت دیتے ہوئے معاف کردینا چاہیے۔
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارا رب تمہیں معاف کرے (لہٰذاتم بھی دوسروں کےقصورمعاف کردو)۔‘‘ ( نور:22)
اللہ اور اس کے رسولؐ کی یہ تعلیمات جہاں ہمیں تقویٰ اور احسان کا معاملہ کرنے کی تلقین کرتی ہیں وہیں ہمیں کسی انسان کے اچھے ہونے کا معیار بھی فراہم کرتی ہیں۔ سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کےلیے اچھا ہو۔ کوئی اچھا انسان اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ برائی یا مارپیٹ کا معاملہ بھلا کیسے کرسکتا ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے ماننے والے اپنے اللہ اور اپنے رسولؐ کی ان تعلیمات کو خود بھی اپنی زندگی میں نافذ کرکے اپنے گھر کو ایک مثالی خاندان بنائیں اور عام انسانوں کی زندگیوں کو بھی ان تعلیمات سے روشن کرنے کی کوشش کریں، اس کے بغیر ہم مضبوط، پرسکون اور جنت نظیر خاندان اور گھر کا تصور نہیں کرسکتے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021