کیا آر ایس ایس بدل رہی ہے؟

سنگھ کو سیاسی بیانات سے نہیں زمین پر سرگرمیوں سےسمجھا جائے

شبیع الزماں، پونا

شبیع الزماں، پونا
پچھلے دنوں موہن بھاگوت کا ایک نیا بیان سامنے آیا ۔جس میں وہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کر رہے ہیں اور یہاں تک کہہ گئے کہ اگر کوئی نشاندہی کرےتو آر ایس آر ایس اپنے نظریات پر غور کرنے کے لیے تیار ہے ہیں۔پچھلے کچھ عرصے میں موہن بھاگوت کے اس طرح کے کئی بیانات سامنے آئے ہیں۔ہندو اور مسلم سماج کے بعض لوگ اور میڈیا میں کئی لوگ ان بیانات سےیہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ سنگھ کے اندر تبدیلی آرہی ہے اور سنگھ بدل رہا ہے۔کیا سنگھ واقعی بدل رہا ہے ۔سنگھ کی اس پالیسی کا جائزہ دو طریقوں سے لیا جا سکتا ہے ، ایک اس کے لٹریچر کے ذریعے سے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زمینی سطح پر اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے۔
فی الوقت سنگھ ہندوستان میں سب سے مضبوط تنظیم ہے۔ سنگھ کی سیاسی تنظیم بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے۔اس کے پرچارک رہے نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر سنگھ بدل رہا ہےتو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اس کا رویہ بھی بدلنا چاہیے تھا لیکن پچھلے سات سال کے واقعات ،حالات اور ڈیٹا بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اسی زمانے میں عام ہوا۔ ماب لنچنگ جیسا بھیانک جرم تکرار کے ساتھ ہونے لگا، دہلی ،بہار،بنگال، شمالی ہندوستان اور کرناٹک میں فسادات اسی دور میں ہوئے،کورونا اور تبلیغی جماعت کے ایپی سوڈ کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں پر حملے ہوئے اور ان سب سے بڑھ کر تشدد کی زبان بالکل عام ہوگئی ، چاہے وزیر داخلہ امیت شاہ ہوں یا سرکار کے دوسرے وزرا،بی جے پی اور آرایس ایس سے جڑے ہوئے لوگ ہوں یا دوسرے ہندوتوا وادی کسی کو بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی زبان استعمال کرنے یا ان کی نسل کشی پر اکسانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ان سب واقعات کو روکنے کے لیے سنگھ کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش تو دور برائے نام بھی کوئی حرکت دکھائی نہیں دیتی۔ نہ ہی اس کی مرکزی لیڈر شپ اور نہ ہی اس کے آرگن پنچ جنیہ اور آرگنائزر کبھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں بلکہ وہ تو تشدد کی تاویل ہی کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سنگھ نے اپنے نظریات میں کبھی بھی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا ہے ۔اس کے بنیادی نظریات وہی ہیں کہ مسلمان اور عیسائی اس ملک میں بیرونی قوتیں ہیں اور انہیں یہاں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہے ۔انہیں اقتدار کے مراکز سے ہر قیمت پر دور رکھنا ہے۔نیز ہندو سماج کے ڈھانچے میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔اسے اسی طرح باقی رکھ کر ہندو راشٹر کے قیام کی کوششیں کرنی ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے اس کی یہ سوچ لو جہاد،دھرم پریورتن ، آبادی کا ہوا،مسلم انتہا پسندی کی بحثوں سے واضح ہوتی ہے۔ اس کے ترجمان پنچ جنیہ اور آرگنائزر مسلم مخالف بحثوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سنگھ کے خیالات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ خود موہن بھاگوت کے اسی بیان میں مسلمانوں کے بیرونی حملہ آور ہونے کا ذکر موجود ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ سنگھ نے اتنی طویل لڑائی لڑنے کے بعد اتنی محنت سےحکومت حاصل کی ہے اور اب جب کہ وہ ایک مضبوط پوزیشن میں ہے اور اپنے سپنوں کا بھارت یعنی ہندو راشٹر بنا سکتا ہے تو وہ ایسے بیانات کیوں دے رہا ہے، جس سے کہ اس کا موقف بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔
اول تو یہ کہ اسطرح کی باتوں سے مسلمانوں کو اپنی آ ئیڈیالوجی تسلیم کرنے پر راضی کرنا ہوتا ہے یا پروفیسر اپوروانند کے الفاظ میں مسلمانوں کو پالتو بنانے کی کوشش کرنا ہے۔مسلم راشٹریہ منچ اسی کوشش کا ایک ناکام تجربہ ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ سے جڑے مسلمانوں کی ، مین اسٹریم مسلم سماج میں کوئی وقعت نہیں ہے اس لیے سنگھ اب مسلم سماج کے دوسرے طبقات کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھا رہا ہے، اور تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہےغالب اور مغلوب کے مذاکرات میں مغلوب کے حصہ میں سوائے محرومی کے کچھ نہیں آتا۔
دوسرا مقصدیہ ہوتا ہے کہ سنگھ ان بیانوں سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ، ہندوستان و بیرون ہندوستان بیٹھے نقادوں کو ایک طرح کے الجھاو میں مبتلا کیا جاتاہے۔ اسی طرح ہندو سماج کے وہ لوگ جو سنگھ کی بعض پالیسیوں سے تو اتفاق کرتے ہیں لیکن اس کے تشدد پسند رجحانات کو پسند نہیں کرتے انہیں ایک طرح سے گمراہ کیا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ دوسری تنظیموں کے بالمقابل سنگھ کو سمجھنا نسبتاً دشوار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے سنگھ کو اس کے لیڈروں کے آفیشل بیانات سے نہیں سمجھا سکتا ہے۔اگر اسے اس طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو دھوکا کھاجانا لازمی ہے، کیونکہ سنگھ جو کچھ عوامی فورم میں کہتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے اس میں فرق ہوتا ہے۔اسی طرح یہ تضاد اس کے لٹریچر میں بھی نظر آتا ہے جہاں قاری کو دونوں طرح کی باتیں نظر آتی ہیں۔
سنگھ میں علامتی طور پر بہت کچھ ہوتا ہے اور سنگھ کا کیڈر اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ سنگھ اور اس کا کیڈر بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے بیانات سیاسی مجبوریوں کے تحت دیے جاتے ہیں اصل بات تو وہی ہے جو ہمیں دن رات سکھائی جاتی ہے اور وہی ہماری بنیادی فکر ہے۔اس لیے سنگھ کو اس کے آفیشل بیانوں اور اعلانات سے سمجھنے کے بجائے، حقیقی دنیا اور زمین پر اس کی سرگرمیوں سے سمجھنا چاہیے۔
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

 

***

 سنگھ نے اپنے نظریات میں کبھی بھی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا ہے ۔اس کے بنیادی نظریات وہی ہیں کہ مسلمان اور عیسائی اس ملک میں بیرونی قوتیں ہیں اور انہیں یہاں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہے ۔انہیں اقتدار کے مراکز سے ہر قیمت پر دور رکھنا ہے۔نیز ہندو سماج کے ڈھانچے میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔اسے اسی طرح باقی رکھ کر ہندو راشٹر کے قیام کی کوششیں کرنی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021