کیا اسلام سے ادب کی پرکھ اور پہچان مجروح ہوتی ہے ؟

نوتراشیدہ فنکار منتشر الخیال ناقدین کا سبق دہرارہے ہیں

ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی

گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں اقبال کے بعد ایک ایسا فسوسناک دور آیا جب اشتراکیت و الحاد کے اثر سے کچھ لوگوں کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے اور وہ ادب کو ایک چھوٹے موٹے دائرے میں محدود کرنے پر کمر بستہ ہو گئے ۔ اس دور میں یہ احمقانہ بحث بڑی دھوم دھام سے کچھ رسائل کے صفحات پر چھڑی کہ ادب کو مذہب کے اثر سے آزاد ہونا چاہیے اور مذہبی اقدار و عقائد سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔ دھیرے دھیرے اشتراکیت کے انحطاط اور شکست وریخت کے بعد کھل کر اس طرح کے دعوے کرنے والے تو نہ ر ہے لیکن مغربی الحاد اور جدیدیت سے جن لوگوں کی آستینوں میں مذہب سے تنفر کا بت پوشیدہ تھا وہ ضرور ڈھکے پیچھے اپنا غبار نکالتے رہے ۔ آج بھی اس طرح کے لوگ ملحدوں کے حلقہ میں نہیں خود نام نہاد مذہبی حلقہ میں بھی موجود ہیں جو بڑی خوش عقیدگی کے ساتھ اس ادعا پر قائم ہیں کہ ادب کی دنیا اور ہے مذہب کی دنیا اور ہے ۔بھلا مذہب کو رنگ رلیوں، خوش گپیوں ، مبالغہ آرائیوں ،رنگین بیانیوں اور خوش ادائیوں سے کیا لینا دینا ہوسکتا ہے۔ جو مذہب کو اس وادی میں گھسیٹ کر لا رہے ہیں وہ اس کے ساتھ کچھ انصاف نہیں کرتے۔ چنانچہ اس طرح کے مذہب کے خیر خواہوں کے حلقہ کی کچھ جھلک کبھی کبھی نظر آ جاتی ہے۔ اب کھل کر مذہب کو برا بھلا تو کہہ نہیں سکتے اس لیے اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ کم از کم ادب کی بزرگانِ دین وملت جاں بخشی کر دیں تو ان کی عنایت ہوگی ۔ دلی کے ایک حساس و با شعور مدیر نے یہ شکوہ اپنے اداریے میں کیا ہے کہ کچھ معروف و بزرگ شاعر انہیں یہ خطوط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ کے رسالہ میں اسلام بہت ہوتا ہے ۔ یعنی اس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہو تو بہتر ہے ۔ خود مجھے ایک محفل میں حکومت کے ترسیل وابلاغ کے شعبہ کے ایک ذمہ دار نے جو خاصے مذہبی نظر آر ہے تھے یہ سن کر کہ میں’ پیش رفت‘ کامدیر ہوں اس طرح داد دی کہ آپ کا رسالہ دیکھ کر پڑھنے کے بجائے جی چاہتا ہے اسے بچھا کر اس پر نماز ادا کروں ۔ ہمارے معاصر کا یہ خیال درست ہے کہ جدید اردو ادب کا یہ اسلام مخالف چہرہ نیا نہیں ہے۔اردوادب سے وابستہ ایسے ادبا، شعرا اور افسانہ نگار تعمیری ادیبوں اور شاعروں کو کارنر کر کے برسوں سے اردوزبان کو اباحیت سے قریب تر کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ان کے فکر و فلسفہ کی بنیاد نفس کی بندگی اور ان کی تخلیقات کا مقصد جنس زدہ سماج کی تشکیل رہا ہے۔ سماج سے ان کی خیر خواہی ، ہمدردی اور انسان دوستی بھی محض بندگی نفس کی خاطر ہے ۔ ان کا ادب جب شکم سے زیرشکم کی طرف آیا تو انہوں نے اپنی تخلیقات کو عہد جاہلیت کے عرب شعرا اور داستان گو حضرات کے حوالے کر دیا۔ ادب کے خود تراشیدہ بت کے آگے وہ سجدہ ریز ہوگئے ۔ادب کے انہی چودھریوں نے اردو زبان کو معاشرہ سے منقطع کر کے ادب کو صرف ایک شعبہ تک محدود کر دیا۔ ادب کے یہی شعبے گویا ادب کے دفاتر تھے اور مشاعرے، مذاکرے اور ڈرامے کے اسٹیج ان کے میدان کار ‘‘( صفحه 13 اردو بک ریویو، دلی۔ جولائی اگست 2005) میں اپنے معاصر کی ان آرا سے متفق ہوں اور ان کے دل کے درد کو محسوس کرتا ہوں۔ حقیقت ہے کہ قومیں اور ملتیں ہوں یا زبان وکلچر ۔۔۔۔ جب انسانیت کی اعلی قدروں کی نگہبانی وتر جمانی کے فرائض فراموش کر دیتی ہیں تو یہ ادبار و زوال کا دور ہوتا ہے۔ جب حق و باطل کا شعور ختم ہو جا تا ہے، جب نیک و بد کے پیا نے توڑ دیے جاتے ہیں اور ان میں امتیاز کرنے سے لوگ آنکھیں چرانے لگتے ہیں اور جب مظلوم کی حمایت میں آواز اٹھانے سے گریز کیا جا تا ہے تو گویا تاریخ کے کروٹ بدلنے کا وقت قریب آ جاتا ہے اور نشاۃ ثانیہ کی قوتیں بے تابانہ ابھرتی ہیں اور مشیت ایزدی نوامیس الٰہی کی حفاظت کے لیےحرکت میں آتی ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بیسویں صدی کا نصف آخر اردو ادب کے انحطاط کا دور محسوس ہوتا ہے جب کہ معاشرہ کے دیگر طبقات سے زیادہ اردو کا ادیب وشاعر اور اس کے نامور نقاد بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے اور اردو ادب کی شان دار روایات سے دامن کش ہوکر اجنبی راہوں پر چل نکلے ۔ وہ لوگ جو ہنگامہ کشت و خون اور خانہ جنگی کے تاریک ادوار میں تاریخ ساز رول ادا کر سکتے تھے وہ مجرمانہ غفلت کے شکار ہے ۔ ہم اردو کے حقوق کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اس زبان کے ذریعہ معاشرہ کے زخموں کا مرہم مہیا نہ کر سکے۔ اردوادب نے 1857 سے پہلے اور پھر علی گڑھ تحریک و جنگ آزادی کے دور میں بڑا تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا، اس لیے کہ یہ اس وقت اقدار حیات کے شعور سے بہرہ در تھا۔ آج ادیبوں اور شاعروں کی نئی نسل اس سے محروم و بےنیاز ہے ۔ شاید اب اردو ادب معاشرہ کے لیے باعث خیر و برکت نہیں رہا اور اس کے سنگین مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ ہمیں اس ابدی صداقت کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ جو شے معاشرہ کے لیے باعث خیر و برکت نہ ہو وہ صفحہ وجود سے مٹ جاتی ہے ۔ ہماری یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہمارے قلم کاروں کی نئی نسل کو کچھ گرگ باراں دید قسم کے نقاد مغرب سے درآمد شدہ نظریات کے طلسم میں الجھائے ہوئے ہیں ۔ان سے مرعوبیت نے بہتوں کی عاقبت خراب کر رکھی ہے۔ بے چارے نوتراشیدہ فنکار کچھ ذہنی انتشار کے شکار ناقدین کے پڑھائے ہوئے اسباق بے سوچے سمجھے دہرار ہے ہیں ۔ ظاہر ہے انہیں ادب میں اسلام کی جھلک ناگوار خاطر ہوگی اس لیے کہ اسلام سب سے پہلے ذہنی مرعوبیت کے دلدل سے آدمی کو نکالتا ہے۔ (اکتوبر ۲۰۰۵ کے پیش رفت کے اداریے سے ماخوذ)

 

***

 یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بیسویں صدی کا نصف آخر اردو ادب کے انحطاط کا دور محسوس ہوتا ہے جب کہ معاشرہ کے دیگر طبقات سے زیادہ اردو کا ادیب وشاعر اور اس کے نامور نقاد بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے اور اردو ادب کی شاندار روایات سے دامن کش ہوکر اجنبی راہوں پر چل نکلے ۔ وہ لوگ جو ہنگامہ کشت و خون اور خانہ جنگی کے تاریک ادوار میں تاریخ ساز رول ادا کر سکتے تھے وہ مجرمانہ غفلت کے شکار ہے ۔ ہم اردو کے حقوق کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اس زبان کے ذریعہ معاشرہ کے زخموں کا مرہم مہیا نہ کر سکے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021