’کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اُڑتے ہیں ‘

انجینئرنگ میں 13گولڈ میڈلسلینےوالیطالبہ کے حوصلوں کوسلام

سید احمد سالک برماور ندوی

 

حجاب تعلیم میں رکاوٹ نہیں:عصمت شرمین ۔تابناک گھریلو تعلیمی پس منظر نہ رکھنے کے باوجود بھی کیرالا کی طالبہ کا حیرت انگیز کارنامہ
حجاب اور پردہ کسی بھی طرح لڑکیوں کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اچھے نمبرات حاصل کرنے کے لیے طلبا کو رات دن ایک کرنے کی بجائے کلاس میں دی گئی تعلیم کو بغور سننا چاہیے۔ کاسرگوڈ کیرالا کی طالبہ عصمت شرمین نے انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ کے سالانہ امتحان میں اول مقام حاصل کرنے کی وجہ 13 گولڈ میڈل پانے کے بعد ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ کرناٹک کی وشویشوریا ٹیکنیکل یونیورسٹی، بیلگام کے سیول انجینئرنگ امتحانات میں منگلور کی سہیادری کالج آف انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ کی طالبہ عصمت شرمین ٹی ایس نے زبردست کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوی یونیورسٹی میں اول مقام حاصل کر کے 13 گولڈ میڈل اپنے نام کیے ہیں۔ شرمین نے تعلیمی سال 2019-20 میں سیول انجینئرنگ کے شعبہ میں CGPA میں 9.42 فی صد نمبرات کے ساتھ پہلا رینک حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 3 اپریل کو بیلگام وی ٹی یونیورسٹی کے ڈاکٹر اے پی جی عبدالکلام ہال ’’علمی سنگم‘‘ میں منعقدہ یونیورسٹی کانوکیشن میں یونیورسٹی چانسلر پروفیسر کری سِدَّپا کے ہاتھوں عصمت شرمین کو تمغوں اور اسناد سے نوازا گیا۔ سہیادری تعلیمی ادارے کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ کسی بھی متعلم کی طرف سے حاصل کردہ سب سے زیادہ گولڈ میڈلس ہیں۔ عصمت شرمین کے اس زبردست پرفارمینس پر کالج پرنسپال، عہدیداران اور تعلیمی ماہرین نے انہیں مبارکباد پیش کی ہے۔ کاسرگوڈ کے شریف اور شہیدہ کی بیٹی عصمت شرمین نے نجگونپا گرولنگپا ہکا پکی، آر این شٹی، سر ایم وشویشوریا، این کرشنا مورتی، جین یونیورسٹی، ڈاکٹر ایم سی شری نواس، انجنئیر ایچ ایس سدلنگیا، سول انجینئرنگ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف انجنئیرنگ سلور جوبلی، جیوتی، مورتی، ایس جی بالے کندری، وی ٹی یو اور ڈاکٹر مالتی کیسری کے نام سے دیے جانے والے گولڈ میڈلس اپنے نام کر لیے ہیں۔
کانوکیشن تقریب میں شرکت کرنے گئیں شرمین نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب مجمع میں ان کا نام پکارا گیا تو خوشی سے اس کی آنکھیں بھر آئیں کیونکہ پورے مجمع میں وہ واحد طالبہ ایسی تھیں جو حجاب کے ساتھ آئی تھیں۔ اپنے اسٹڈی شیڈیول پر روشنی ڈالتے ہوئے شرمین نے کہا کہ وہ بالکل رات بھر جاگ کر نہیں پڑھتی تھیں بلکہ امتحانات سے بہت پہلے ہی اپنے درسیات کے مطالعہ سے فارغ ہو جاتی تھیں۔ جب امتحان قریب آتا تو صرف اہم نکات کا اعادہ کرتی تھیں۔ اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ ڈالنا کبھی کسی طالب علم کو فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ سکون کی حالت میں ہی پڑھائی اثرا نداز ہو تی ہے۔
انسان کے ذہن میں اگر کچھ بننے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے تو اسے اس راہ کی کوئی بھی دشواری کا احساس نہیں ہوتا، شرمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بارہویں میں کیرالا اسٹیٹ سلیبس میں انہوں نے ۹۷ فیصد سے زائد نمبرات حاصل کیے تو سب لوگ ان کے سلسلے میں میڈیکل کا میدان منتخب کرنے کی رائے رکھتے تھے لیکن شرمین نے اپنے بھائی کو اپنے لیے رول ماڈل بنا کر انجینئرنگ کا میدان منتخب کیا جس میں انہوں نے یہ نمایاں کامیابی درج کی۔
شرمین کا خیال ہے کہ ان جیسی قوم کی بہت سی لڑکیاں تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ان کی چھوٹی سی کامیابی کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔شرمین کو دکھ ہے کہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کی تعلیم کو عموماٌ یہ سوچ کر زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ پڑھ لکھ کر زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ یہ لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ہمارے سماج کی منفی سوچ ہے جس کا ازالہ فوری طور پر ہونا چاہیے۔ ہر سطح پر لڑکیوں کی ہمت افزائی ہونی چاہیے تاکہ وہ بھی بھر پور حصہ ادا کر سکیں۔اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو موبائل فون یا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندیاں عائد کرتے ہیں تاکہ ان چیزوں کے غلط استعمال سے پڑھائی متاثر نہ ہو لیکن شرمین کا ماننا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی تعلیم میں بہت مددگار بنتی ہے۔ اگر والدین زیادہ سختی کا مظاہرہ کریں گے تو لڑکی کسی دوسرے راستے سے اس کا استعمال کرے گی اس لیے سمجھداری یہ ہے کہ سر پرست اپنی نگرانی میں اسکی تعلیم کا بندو بست کریں۔ شرمین نے کہا کہ جب انہیں اسباق کو سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی تو وہ گوگل یا یوٹیوب کی مدد سے اپنی دشواری کو حل کرتی تھیں۔
اگر انسان کے دل میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ سما جائے تو گھریلو پس منظر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایسا ہی شرمین کے سا تھ بھی ہوا۔ ان کے والد رئیل اسٹیٹ کے تاجر ہیں جب کہ والدہ خاتونِ خانہ ہیں۔ اپنے ایک بھائی اور ایک بہن کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کے بعد بھی شرمین نے گھریلو تقاضوں سے اوپر اٹھ کر اپنی پڑھائی پر توجہ دی۔ اس راستے میں ان کے گھر والوں نے بھی بھر پور تعاون کیا۔
۱۳ گولڈ میڈل کے ساتھ لدی ہوئی شرمین جب اپنے گھر واپس آئیں تو ان کے ماں باپ، بھائی بہن، افراد خاندان، دوست احباب اور محلے والوں نے پرتپاک خیر مقدم کیا۔ محبت کے اس ماحول میں شرمین بے حد جذباتی ہو گئیں۔ واضح ہو کہ کیرالا تعلیمی میدان میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہاں تعلیم کا تناسب دوسری ریاستوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ اس سے پہلے بھی یہاں کے بعض طلبہ و طالبات نے تعلیمی میدان میں بڑی کامیابیاں درج کی ہیں۔ کیرالا ایک ایسی ریاست ہے جو سرکاری طور پر تعلیمی، طبی اور دیگر معاملات میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ یہاں کے لوگ خلیجی ممالک میں بھی اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے بہت اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ یہاں اپنے کام سے کام رکھنے کی خُو لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، یہاں کے لوگ نظام الاوقات کے سخت پابند ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی تعلیمی اور سماجی فلاح وبہود کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں ریاست کیرالا کا تعاون بہت زیادہ ملتا ہے۔ تحریک اسلامی کو بھی یہاں جو کامیابیاں ملی ہیں اس کی وجوہات بھی کم و بیش یہی ہیں۔
اگر طلبہ اپنا تعلیمی نظام الاوقات تیار کریں اور اس کی پابندی کریں تو ہماری قوم میں ایسی ہزاروں عصمت شرمین پیدا ہو سکتی ہیں جو پس مژدہ قوم میں از سر نو زندگی کی روح پھونک سکتی ہیں۔

اپنے اسٹڈی شیڈیول پر روشنی ڈالتے ہوئے شرمین نے کہا کہ وہ بالکل رات بھر جاگ کر نہیں پڑھتی تھیں بلکہ امتحانات سے بہت پہلے ہی اپنے درسیات کے مطالعہ سے فارغ ہو جاتی تھیں۔ جب امتحان قریب آتا تو صرف اہم نکات کا اعادہ کرتی تھیں۔ اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ ڈالنا کبھی کسی طالب علم کو فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ سکون کی حالت میں ہی پڑھائی اثرا نداز ہو تی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021