کھیلنے کی عمر میں تین بچوں نے حفظ کیا قرآن مجید

لاک ڈاؤن کو بنایا کارآمد۔ پانچ اور چھ سال کے بچوں کا حیرت انگیز کارنامہ

سید احمد سالک ندوی

قرآن مجید واحد ایسی کتاب ہے جسے مکمل یاد کیا جاتا ہے۔ اب اسے قرآن کا معجزہ کہیں یا یاد کرنے والوں کی سعادت مندی کہ کم سے کم مدت میں کم سن بچوں سے لے کر بڑے بوڑھوں تک کو بھی قرآن مجید بآسانی یاد ہو جاتا ہے۔ آئیے آج ہم آپ کو تین ایسے کم سنوں کے کارناموں سے واقف کروائیں گے جنہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران گھر پر رہتے ہوئے فرصت کے لمحات کا فائدہ اٹھا کر لاک ڈاون کو اپنے حق میں نہایت مفید اور کار آمد بنا لیا۔ قرآن مجید کےیہ معجزات جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کے شہر بھٹکل میں ظاہر ہوئے جہاں چھ سالہ محمد ابن مناظر، چھ سالہ حفیہ بنت عمر سلیم اور پانچ سالہحیفاء بنت عمر سلیم نے کم مدت میں پورا قرآن مجید حفط کرنے کا کارنامہ انجام دیاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن یاد کرنا بڑے کمال کی بات ہے لیکن کھیلنے کی عمر میں کوئی بچہ یا بچی اس کار عظیم کو انجام دے تو اس کی خوش بختی ہی کہا جائے گا۔ پانچ تاچھ سال میں عموماً بچوں کو مکمل طور پر شعور بھی نہیں ہوتا لیکن جب والدین ان کو کسی کام پر متوجہ کریں تو بچے ضرور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ اس کی مثالیں ان ننھے حفاظ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
بھٹکل کے چھ سالہ محمد ابن مناظر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ محمد کی نانی طاہرہ، بھٹکل میں طالبات کے لیے مخصوص ایک قدیم مدرسہ کی استانی ہیں، وہ کئی برسوں سے وہاں کے شعبہ حفظ میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ نانا حافظ ظفر اللہ سدی باپا بھٹکل میں بڑی عمر میں حفظ مکمل کرنے والے حفاظ میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 54 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا ہے ۔ کم سن حافظ محمد نے اپنی نانی کے پاس حفظِ قرآن کی تکمیل کی۔ اس کے اعزاز میں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد ہوئی جس میں بھٹکل کے ممتاز عالم دین اور مصلح مولانا صادق اکرمی ندوی نے آخری آیات پڑھا کر حفظ قرآن مکمل کرایا۔ بچے کے نانا حافظ ظفر نے بتایا کہ حافظ محمد نے آخری پارہ کی کچھ سورتیں ابتدا میں ہی بہت جلد یاد کر لی تھیں تب ہمیں احساس ہوا کہ اس لڑکے کا حافظہ قوی ہے اور یہ قرآن حفظ کر سکتا ہے۔ پھر ہم نے اس کے اوپر محنت شروع کی اور وہ قرآن کریم برابر یاد کرتا رہا۔ درمیان میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اس نے حفظ کرنے کا سلسلہ کچھ دنوں کے لیے منقطع کیا تو ہمیں تھوڑی سی مایوسی ضرور ہوئی مگر اللہ نے اسے ہمت عطا کی اور آج یہ حافظ قرآن بن گیا۔
محمد کے حفظ کی تکمیل کی خبر کے کچھ ہی دنوں بعد ایک اور بچی کے حفظ کرنے کی خبر آئی۔ حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ اس بچی نے صرف گیارہ ماہ کی قلیل مدت میں حفظ مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ بچی مولوی عمر سلیم ندوی کی دختر حفیہ ہے جس نے رات دن کی محنت اور جستجو سے صرف گیارہ مہینوں میں حفظ مکمل کیا۔بچی کے والدمولوی عمر سلیم ندوی نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ حفیہ کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی ماں نے اس پر بھر پور توجہ دی اور مسلسل محنت کراتی رہی۔ اسی طرح ننھی حفیہ نے اپنے والدین کے خواب کو پورا کیا۔ حفیہ کی چھوٹی بہنحیفاء بھی بے حد مبارکباد کی مستحق ہے جس نے پانچ سال کی عمر میں ہی اپنی بہن کے نقش قدم پر چل کر بھٹکل کی سب سے کم سن حافظہ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ مولوی عمر سلیم کی یہ دونوں بیٹیاں فی الوقت سلطنت عمان میں مقیم ہیں۔ بھٹکل کے ایک مؤقر ادارے سن شائن سنٹر نے بچوں کے اعزاز میں ایک اجلاس کا انعقاد کرکے ان کے کارناموں کی ستائش کی۔ عمائدین شہر، مقامی علماء کرام، صحافی حضرات، دانشوران ملت اور جمعیت الحفاظ بھٹکل سمیت کئی سماجی وفلاحی اداروں کے ذمہ داروں نے کم سن حفاظ کے ساتھ ان کے سرپرستوں کو بھی مبارکباد پیش کی ہے۔
واضح رہے کہ بھٹکل جنوبی ہندوستان کے ساحل پر واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ہر خاندان میں کئی کئی حفاظ وعلما موجود ہیں۔ اس پورے منظر نامے کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مکاتب اور مدارس میں بچوں کو حفظ کرتا دیکھ کر اب تک کئی گریجویشن اور انجینئرنگ کرنے والے نوجوانوں نے قرآن یاد کیا ہے۔ ان کے علاوہ بعض بزرگ حضرات نے بھی حفظ قرآن کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
دراصل بچے اپنے بڑوں کو جس چیز میں مشغول دیکھتے ہیں اسی کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر سرپرست حضرات گھر میں قرآن پڑھنے یا اس کو یاد کرنے کا معمول بنائیں گے تو اس کا اثر لازماً بچوں پر پڑے گا پھر جب بچے شوق کا مظاہرہ کریں گے تو نتیجتاً ایسے کارنامےظہور پذیر ہو ں گے ۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے ۔گود میں پلنے والا بچہ ماں باپ کی تمام چیزوں کی نقل کرتا ہے۔ ان واقعات میں جہاں ایک طرف متعلقہ والدین کے لیے خوشی ومسرت کا سامان ہے وہیں ان والدین کے لیے ایک بڑا سبق بھی ہے جو اپنے بچوں پر اچھی طرح اثر انداز نہیں ہو سکے۔ اگر ہم نے اپنے گھروں میں تلاوت کا معمول بنایا یا روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن یاد کرنے کا اہتمام کیا تو یقیناً ہمارے گھروں سے بھی ایسی حوصلہ افزا خبریں آئیں گی اور پھر پورا معاشرہ قرآن کے نور سے منور ہو گا جس کےبعد دنیا میں قرآن کو بحیثیت دستور نافذ کرنے کی ہماری کوشش کامیاب ہو گی۔
***

 

***

 دراصل بچے اپنے بڑوں کو جس چیز میں مشغول دیکھتے ہیں اسی کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر سرپرست حضرات گھر میں قرآن پڑھنے یا اس کو یاد کرنے کا معمول بنائیں گے تو اس کا اثر لازماً بچوں پر پڑے گا پھر جب بچے شوق کا مظاہرہ کریں گے تو نتیجتاً ایسے کارنامےظہور پذیر ہو ں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021