کوئلہ کا بحران‘معیشت کو درپیش ایک اورچیلنج!

تھرمل پاور پراجیکٹس کوہنوز کوئلہ کی کمی کا سامنا۔ مسئلہ کا فوری حل نکالنا ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

فی الحال ہمارا ملک کوئلے کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے زیادہ تر پاور پلانٹس کےپاس چند دنوں کا ذخیرہ ہے۔ سنٹرل اتھاریٹی آف انڈیا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں بھی ستمبر اور اکتوبر کے ہفتوں میں کوئلے کی کمی کا سامنا ہوا تھا تب بھی کوئلہ کا ریزرو اسٹاک کچھ ہی دنوں کا ہوا کرتا تھا۔ اس وقتی فقدان کا بجلی کی پیداوار پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ امسال بھی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پاور پلانٹس کے پاس کوئلہ کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تھرمل پاور پلانٹ (ٹی پی پی) میں کوئلہ کا موجودہ ذخیرہ 7.3ملین ٹن (ایم ٹی) تھا جو محض چاردنوں کے لیے ہی ہے اس لیے آئندہ چار پانچ دنوں میں 1.94ایم ٹی کی طلب کے مقابلے 1.5ایم ٹی سے 2 ایم ٹی کوئلہ پاور اسٹیشنوں تک پہنچایا جائے گا۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے کہا ہے کہ ملک میں جاریہ کوئلہ کی کمی کی خبریں بالکل ہی بے بنیاد ہیں کیونکہ بھارت پاور سرپلس سپلائر ملک ہے۔ اس سے قبل مرکزی کوئلہ کے وزیر پرہلاد جوشی نے واضح کیا تھا کہ ہم نے اپنی سپلائی بقایہ کے بعد بھی جاری رکھی ہے ہم ریاستوں سے بھی اسٹاک بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس طرح کوئلہ کی کسی بھی حال میں کمی نہیں ہوگی۔ موجودہ کمی بارش کی وجہ سے ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں عالمی قیمتیں 6روپے فی ٹن سے بڑھ کر 190روپے فی ٹن ہوگئی ہیں۔ اس سے خانگی کوئلہ کی سپلائی پر دباو بڑھا ہے۔ واضح رہے کہ کوئلہ کی پیداوار میں 30.93فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ Coal.gov.inکے پروویژنل ڈیٹاکے مطابق دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کوئلہ کی پیداوار والے بھارت نے ستمبر 2021 میں 2019 کے 39.48ایم ٹی کے مقابلے میں 51.70ایم ٹی کوئلہ کی پیداوار کی ہے جو 30.39فیصد کا گروتھ بنتا ہے۔ 2020کے 13.89ایم ٹی کے مقابلے میں یہ 33فیصد کا گروتھ ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) ڈاٹا کے مطابق تین سالوں کے اضافہ کے بعد ورلڈ کول پروڈکشن میں 48فیصد کی کمی آئی تھی۔ 2020میں چین میں 3764ایم ٹی کوئلہ کی پیداوار ہوئی تھی وہیں بھارت میں 2020میں 760ایم ٹی کوئلہ پیدا ہوا۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں کوئلہ کی سب سے بڑی کھپت چین اور بھارت میں ہوتی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2020میں چین3830ایم ٹی کوئلہ کی کیفیت کے ساتھ اول نمبر پر تھا اور بھارت اور امریکہ میں کھپت بالترتیب 976ایم ٹی اور 419ایم ٹی رہی۔
کوئلہ کی پیداوار کے میدان میں بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ گلوبل انرجی اسٹیٹسٹیکل ایربک 2021 کے مطابق کوئلہ کی پیداوار کے معاملے میں چین سب سے بڑا ملک ہے۔ چین سالانہ 3743ایم ٹی کوئلہ پیدا کرتا ہے۔ وہیں ہمارے ملک میں سالانہ 779ایم ٹی کوئلہ کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو اپنی ضرورت کا 20تا25 فیصد کوئلہ دوسرے ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی ہونے کی وجہ سے اور صنعتی پیداوار کا بجلی پر انحصار کی وجہ سے کھیت بہت زیادہ ہے۔ سنٹرل الکٹریسٹی اتھاریٹی آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کوئلے کے ذخیرہ کی قلت کاسامنا کررہا ہے جس سے بجلی کی مصیبت آنے کا اندیشہ ہے۔ ۵ اکتوبر کو پاور جنریشن کے لیے کوئلہ کا استعمال کرنے والے 135تھرمل پلانٹس میں سے 106تقریباً 80فیصد یا تو کریٹیکل یا سپر کریٹکل اسٹیج پر ہے۔ یعنی ان کے پاس آئندہ 6تا 7 دنوں کا ہی اسٹاک تھا۔ کوئلہ کے وزیر پرہلاد جوشی نے کہا کہ کول انڈیا کے پاس سردست22 دنوں کے کوئلہ کا ذخیرہ ہے اور سپلائی بڑھائی جاتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے ملک کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ حسب ضرورت کوئلہ کی فراہمی کی جائے گی۔ قلت کے مد نظر وزیراعظم کے دفتر میں کوئلہ کی کمی کے مسئلہ پر بڑی باریکی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس سے قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے وزیر توانائی اور وزیر کوئلہ کے ساتھ اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ مذکورہ تمام شعبوں سے واضح کیا گیا ہے کہ ملک میں برقی پلانٹس میں سپلائی کے لیے ۲۲ دنوں کاذخیرہ موجود ہے مگر جانکاروں کا ماننا ہے کہ اس طرح سے مصنوعی قلت کا شور مچانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ خانگی کمپنیوں کی شراکت کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔ وزیراعظم کے دفتر نے جائزہ کے بعد اعلان کیا ہے کہ مستقل حل دریافت کرنے کے لیے خانگی عوامی شراکت کے راستے کو بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ ویسے خانگی کمپنیاں برقی شعبہ میں قدم جماچکی ہیں جو سرکاری شرحوں سے زیادہ شرح پر بجلی سپلائی کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی زیادہ نجی شراکت داری ہوئی تو برقی شرحوں میں کمر توڑ اضافہ ہو سکتا ہے جو شہریوں کے لیے ایک آفت سے کم نہیں ہو گا کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی یومیہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خوردنی و دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے لوگوں کو نڈھال کر رکھا ہے۔ مرکزی حکومت نے حالیہ صورتحال سے نمٹنے کے لے بیرونی ممالک سے کوئلہ درآمد کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے جس سے فطری طور پر کوئلہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ نتیجتاً بڑھی ہوئی قیمتوں سے بجلی کے شرحوں پر منفی اثرات پڑیں گے۔ صنعتی پیداوار کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ ابتداً حکومت کی جانب سے کوئلہ کی قلت کے بحران سے انکار کیا گیا اور یہ یقین دہانی کی گئی کہ تھرمل پاور اسٹیشنوں کو حکومت کی طرف سے مطلوبہ مقدار میں کوئلہ کی سپلائی جاری رہے گی تاکہ دلی ، گجرات، تامل ناڈو، راجستھان اور پنجاب جیسی صنعتی ریاستیں برقی قلت سےمتاثر ہونے سے بچ جائیں۔ دراصل حکومت خانگی کمپنیوں کی شراکت دینے پر بضد ہے کیونکہ مرکزی حکومت اپنی نا اہلی کی پردہ پوشی کے لیے سرکاری اداروں پر الزام لگارہی ہے کہ وہ موثر ڈھنگ سے کام کرنے میں ناکام ہیں ۔ اس طرح حکومت عوام الناس کو مزید مصیبتوں میں ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ پبلک سیکٹر کی کمپنی کول انڈیالمیٹیڈ (سی آئی ایل) نے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے خشک ایندھن کے گھٹتے ذخیرہ کے مد نظر وہ اسے عارضی طور سے کوئلے کی سپلائی پر فوقیت دے رہی ہے۔ ملک کے بجلی پلانٹس ایندھن کی قلت سے متاثر ہونے کے درمیان یہ بہت اہم ہے۔ سی آئی ایل نے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے بعد معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی پلانٹس میں ذخیرہ کی قلت کے مد نظرکوئلے کی سپلائی کو اولیت دی گئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئلہ کمپنیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کی نیلامی کے لیے خاص e-نیلامی کے عصری طریقے پر دھیمی رفتار سے چلے۔ تھرمل پاور پروجیکٹس میں ابھی بھی مسلسل کوئلہ کا شدید بحران ہے۔
حالات بہت بگڑنے سے پہلے بجلی کے مسائل کے لیے واضح ضابطہ بنانا ضروری ہے۔ آج کوئلہ کی قلت معیشت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اس طرح کے مسائل کے تین مراحل ہیں۔ اول بجلی کی پیداوار کے لے کوئلہ کی قلت کا بحران جو صنعتی پیداوار کے لیے رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے وہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صنعتیں پھر بہتری کی طرف گامزن ہیں جیسا کہ اگست کے صنعتی ترقی کے اشارے (آئی پی آئی) کے ڈاٹا سے واضح ہورہا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ طویل عرصہ تک بجلی جانے سے ایسے وقت میں پیداوار کم ہی رہے گی۔ دوسرا اس ماہ کے آخر تک خریف کی فصل کی کٹائی ختم ہوگی اور ربیع کی کاشت کاری شروع ہوگی۔ یعنی کاشت کاروں کو زراعت کے لیے بجلی کی ضرورت ہوگی ۔ ویسے ملک میں گیہوں اہم ربیع فصل ہے جس پر نگرانی ضروری ہے۔ تیسرا مرحلہ گھروں کی حالت ہے۔ کچھ ریاستوں میں طلب اور کھپت میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ہلکی پھلکی لوڈ شیڈنگ بھی شروع کردی گئی ہے۔ جس سے لوگوں کو کافی تکلیف ہورہی ہے اگر یہ کٹوتی طویل ہوئی تو اس سے پیداوار بھی متاثر ہوگی ۔ لاک ڈاون کے بعد گھر سے کام کو ترجیحات میں رکھا گیا ہے لہٰذا بحران پر قابو نہ پایا گیاتو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
عالمی معیشت کی بہتری کے لیے کوئلے اور بجلی کی طلب بہت زیادہ ہے۔ کوئلہ کا متبادل اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ فی الحال متبادل توانائی (Renewable Energy) کی صلاحیت اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس لیے کوئلے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر بھارت کو کوئلہ باہر سے منگوانا پڑا تو اس سے تمام ضروری اشیا کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ پہلے ہی ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور ملک بجلی کی ٹیرف میں تبدیلی کے تکلیف دہ مرحلہ سے سے گزر رہاہے۔ اس سے پہلے کہ حالات بد سے بدتر ہوں مرکزی حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ مسئلہ عارضی ہے مگر یہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے اس کے لیے واضح ضابطہ اور لائحہ عمل بنانا ضروری ہے۔ یہاں Renewable کے ذریعہ بجلی کی پیداوار بڑھانا ضروری ہے۔ اس میں پیداوار سے جڑی راحت (production linked incentive ) کچھ مددگار ثابت ہوسکتی ہے اس سے سولار پینل کی پیداوار بھی بڑھے گی اور خرچ بھی کم آئے گا۔ اسی دوران ایک مطالعہ سے بات سامنے آئی ہے کہ گھر کی چھت پر شمسی توانائی کے حصول (Rooftop Solar Energy) پراجیکٹ کے ذریعہ کوئی بھی اپنے گھر میں حسب ضرورت بجلی پیدا کرسکتا ہے۔
***

 

***

 عالمی معیشت کی بہتری کے لیے کوئلے اور بجلی کی طلب بہت زیادہ ہے۔ کوئلہ کا متبادل اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ فی الحال متبادل توانائی (Renewable Energy) کی صلاحیت اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس لیے کوئلے کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر بھارت کو کوئلہ باہر سے منگوانا پڑا تو اس سے تمام ضروری اشیا کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ پہلے ہی ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور ملک بجلی کی ٹیرف میں تبدیلی کے تکلیف دہ مرحلہ سے سے گزر رہاہے۔ اس سے پہلے کہ حالات بد سے بدتر ہوں مرکزی حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگاٍ


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021