کسان مئی 2024 تک احتجاج جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں: بی کے یو لیڈر ٹکیت

نئی دہلی، 17 جنوری: بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے رہنما راکیش ٹکیت نے آج کہا کہ کسان مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف ’’مئی 2024‘‘ تک احتجاج کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کسان رہنما نے دہلی کی سرحدوں پر جاری کسانوں کے احتجاج کو ’’نظریاتی انقلاب‘‘ قرار دیا۔

ناگپور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تکیٹ نے کہا کہ وہ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر قانونی ضمانت چاہتے ہیں۔

کسان 26 نومبر 2020 سے دہلی کے قریب احتجاج کر رہے ہیں اور تینوں نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن کے بارے میں انھیں خدشہ ہے کہ یہ قوانین ایم ایس پی کو ختم کرنے کی راہ ہموار کریں گے اور انھیں کارپوریٹ اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ منگل کو اگلے احکامات تک تین نئے زرعی قوانین پر عمل درآمد کو روک دیا اور مرکز اور کسانوں کی تنظیموں کے مابین دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنے والے تعطل کے حل کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم کسان اس کمیٹی کے خلاف ہیں کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ کمیٹی کے تمام ممبران ’’حکومت نواز‘‘ ہیں۔

جب یہ پوچھا گیا کہ کسان کب تک احتجاج کریں گے، تو ٹکیت نے کہا ’’ہم مئی 2024 تک احتجاج میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں … ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ تینوں قوانین کو واپس لیا جائے اور حکومت ایم ایس پی پر قانونی ضمانت فراہم کرے۔‘‘

واضح رہے کہ ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات مئی 2024 کے قریب ہوں گے۔

ٹکیت نے اس احتجاج کو ’’امیر کسانوں‘‘ کی طرف سے تیز کیے جانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مختلف گاؤں اور مختلف تنظیموں کے لوگ احتجاج میں شامل ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا ’’یہ کسانوں کا ایک نظریاتی انقلاب ہے جو دہلی سے شروع ہوا تھا اور ناکام نہیں ہوگا۔ گاؤں کے کسان نہیں چاہتے تینوں قوانین کی منسوخی سے پہلے ہم واپس آئیں۔‘‘

ٹکیت نے مزید کہا ’’حکومت ان قوانین کو کو واپس نہ لینے کے اپنے موقف پر قائم ہے اور یہ احتجاج زیادہ دیر تک جاری رہے گا۔‘‘

انھوں نے زرعی قوانین پر عمل درآمد روکنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، لیکن کہا کہ عدالت عظمی کے ذریعہ تشکیل دی گئی کمیٹی میں ایسے ممبران شامل ہیں جو نئے زرعی قوانین کی ’’حمایت‘‘ کرتے ہیں۔

ٹکیت نے یہ بھی کہا کہ ملک میں حزب اختلاف کی جماعتیں کمزور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو یہ احتجاج شروع کرنا پڑا۔

کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرنے والے کچھ لوگوں کو قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے نوٹسوں پر انھوں نے کہا ’’جو لوگ اس احتجاج میں شامل ہونا چاہتے ہیں انھیں لازمی طور پر عدالتی مقدمات، قید اور جائیداد کی ضبطی جیسی کارروائیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘