کسان احتجاج: حکومت اور کسان یونینوں کے درمیان مذاکرات کا ساتواں دور بھی بےنتیجہ رہا، اگلی میٹنگ 8 جنوری کو

نئی دہلی، 4 جنوری: آج بھی حکومت کے ساتھ کسانوں کی میٹنگ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئی۔ کسان ایم ایس پی پر قانون اور تینوں نئے زرعی قوانین کی منسوخی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں۔

اجلاس میں شامل کسان یونین کے رہنماؤں نے کہا ’’کسانوں نے صرف منسوخی کے بارے میں بات کی۔ حکومت نے کہا کہ وہ مزید مشاورت کریں گے اور واپس آئیں گے۔ اگلی میٹنگ 8 جنوری کو ہوگی۔‘‘

انھوں نے کہا کہ آئندہ کے لائحۂ عمل کو طے کرنے کے لیے کسان یونیوں کی میٹنگ کل ہوگی۔

کسان رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتی ہے۔

بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا ’’مرکزی وزراء بار بار یہی بات کہہ رہے ہیں۔ ہم اپنا لائحۂ عمل طے کرنے کے لئے کل ایک میٹنگ کریں گے۔ جب تک قوانین کی منسوخی نہیں ہوگی اس وقت تک ہم گھر نہیں جائیں گے۔‘‘

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے ایم ایس پی پر مشترکہ کمیٹی کی پیش کش کی۔

دریں اثنا اس ملاقات کے بعد وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ حکومت کسانوں کے معاملات کو لے کر حساس ہے اور تینوں قوانین پر شق وار بحث کی پیش کش کی ہے لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

انھوں نے مزید کہا ’’یہ ملاقات اچھی فضا میں ہوئی تھی لیکن کسان اپنے مطالبات پر قائم تھے اور ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔‘‘

معاملے کو طول دینے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے وزیر زراعت نے کہا کہ ’’اس طرح کے اہم امور پر متعدد مرتبہ بات چیت ہوتی ہے۔ حکومت کو پورے ملک کے کسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ دونوں فریق اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ قانون کسانوں کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔‘‘

اس سے قبل ایک کسان رہنما نے اپنے احتجاج کو اور تیز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسان بارش اور سردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور حکومت اب ہمارے عزم سے بخوبی آگاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت حقیقت کو سمجھ چکی ہے۔‘‘

ملاقات سے قبل بی کے یو کے لیڈر راکیش ٹکیت نے بھی کہا تھا کہ ’’ساٹھ کسان شہید ہوچکے ہیں، اب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔‘‘

بات چیت سے قبل پنجاب کی کسان یونینوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوہری کے موقع (13 جنوری) پر تینوں زرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں گے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش کے موقع پر 23 جنوری کو ’’آزاد کسان دِوَس‘‘ کے طور پر منائیں گے۔