کرناٹک: ہندوتوا کی ایک اور لیبارٹری بننے کی طرف گامزن؟

پے در پے قتل سے ساحلی کرناٹک میں بے چینی ۔ریاستی حکومت کے یکطرفہ اقدامات مسلم مخالف

برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل

جیسے جیسے کرناٹک اسمبلی کے انتخابات قریب آ رہے ہیں یہاں کے سیاسی درجہ حرات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی یہاں فرقہ پرستوں کی جانب سے قتل و غارت گری کے ذریعے خوب سیاسی روٹیاں سینکی گئیں۔ چنانچہ پچھلے ایک ہفتہ میں ساحلی کرناٹک کے شہر منگلورو میں قتل کی تین وارداتیں پیش آئی ہیں جن میں دو مسلم نوجوان اور ایک بجرنگ دل کا کارکن شامل ہے۔
‏معمولی کہا سنی کے بعد مسلم نوجوان پر حملہ
در اصل پچیس جولائی کو شہر اڈپی کے قریب بیلارے میں مبینہ طور پر ہندوتوا گروپ بجرنگ دل کے آٹھ کارکنوں کی جانب سے مار پیٹ کے ایک دن بعد 18 سالہ مسلم نوجوان مسعود کی موت ہوگئی جس کے بعد مقامی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔ ہفت روزہ دعوت کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق مقتول مسعود کی 19 جولائی کو سدھیر نامی شخص کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی، لڑائی کے دوران مسعود کے سر پر سوڈے کی بوتل سے مارا گیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔ موقع واردات پر پولیس پہنچی اور حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا۔
بی جے پی یوتھ لیڈر پروین نیٹارو کا قتل
تعلقہ سولیا کے بیلارے نامی مقام پر بائیک پر آنے والے دو افراد نے بی جے پی یوتھ لیڈر پروین نیٹارو کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اطلاعات کے مطابق 32 سالہ پروین پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنی چکن کی دکان بند کر رہا تھا۔ پروین نے اپنی دکان کا شٹر گراتے وقت دیکھا کہ کیرالا رجسٹریشن والی موٹربائیک پر آنے والے دو افراد اس پر حملہ کرنے والے ہیں تو اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بازو والی دکان میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر تب تک حملہ آوروں نے چھرے سے اس کے سر پر وار کر دیا اور فرار ہو گئے۔ پروین نے ہسپتال لے جانے کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ بتایا گیا ہے کہ مقتول سیاست میں سرگرم تھا اور مبینہ طور پر مسعود کے قتل میں ملوث تھا۔
مسعود کے قتل پر خاموشی مگر پروین کے قتل پر ہنگامہ
پروین کے قتل کی خبر عام ہوتے ہی ماحول بہت ہی کشیدہ ہو گیا اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ قتل کی مذمت کرتے ہوئے بی جے پی کے کارکنوں نے احتجاجی دھرنا دیا اور مقتول کے خاندان کو ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا اور زور دیا کہ ڈپٹی کمشنر موقع پر پہنچ کر جائزہ لیں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر راجیندرا کے وی نے ہسپتال پہنچ کر مظاہرین سے بات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ملزموں کو ہر حال میں گرفتار کیا جائے گا۔ بہرحال یہ ہنگا مہ کچھ دیر بعد تھم گیا لیکن مسعود کے معاملہ پر ہر طرف خاموشی نظر آئی۔
ایس ڈی پی آئی متحرک
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کرناٹک کے ایک وفد نے مرحوم مسعود کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور انہیں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ ایس ڈی پی آئی کرناٹک کے صدر عبدالمجید نے اسے بجرنگ دل کی جانب سے کی گئی ایک منصوبہ بند سازش قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا ‘راج دھرم نبھاتے ہوئے جس طرح بجرنگ دل کے کارکن ہرشا کو 25 لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا تھا، اسی طرح مسعود کے اہل خاندان کو بھی 25 لاکھ روپے معاوضہ دیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسعود کے قتل معاملے کی عدالتی جانچ کرائی جائے تاکہ اس سازش کے پیچھے چھپے ہوئے منصوبہ کا پردہ فاش کیا جا سکے۔
مسعود اور پروین کے قاتل گرفتار کیے گئے؟
بیلارے میں مبینہ طور پر ہندوتوا گروپ کے ہاتھوں مارے گئے مسلم نوجوان مسعود کے قتل کے تمام ملزمین گرفتار کیے گئے جن کی شناخت سنیل، سدھیر، شیوا، سداشیو، رنجیت اور بھاسکر کے طور پر کی گئی ہے۔ ان کا تعلق وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے بتایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بی جے پی یووا مورچہ لیڈر پروین کمار نیٹارو قتل معاملے میں دو ملزمین کو گرفتار کرلیا ہے جن کی شناخت ساونور کے رہنے والے ذاکر (29) اور بیلارے کے رہنے والے محمد شفیق (27) کے طور پر کی گئی ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ رشی کیش سوناونے کے بیان کے مطابق ان دونوں ملزمین کو کاسرگوڈ سے گرفتار کیا گیا ہے اور یہ لوگ قتل کی سازش رچنے میں شامل ہیں جبکہ قتل کی کارروائی انجام دینے والے ملزمین کو ابھی گرفتار کیا جانا باقی ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تفتیش کے لیے 21 افراد کو تحویل میں لیا گیا ہے۔ سولیا سے ملی خبر کے مطابق گوتیگار میں شر پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار مچائی گئی اور کئی دکانوں کا سامان سڑکوں پر پھینک دیا گیا۔
بی جے پی کارکن ہی بی جے پی سے ناراض۔ وزرا کا گھیراؤ
بی جے پی یوا مورچہ لیڈر پروین کمار نیٹارو کے قتل پر ہندو تنظیموں کی جانب سے بطور احتجاج بند منایا گیا، اس دوران بی جے پی کے ریاستی صدر اور رکن پارلیمان نلین کمار کٹیل اور آر ایس ایس لیڈر کلاڈکا پربھاکر بھٹ کا گھیراو کیا گیا اور بی جے پی حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی گئی۔ بی جے پی کے اشتعال انگیز لیڈر نلین کمار کٹیل اور پتور ایم ایل اے سنجیوا ماتندور بیلارے پہنچے تو سنگھ پریوار سے وابستہ مشتعل نوجوانوں کے ہجوم نے نلین کمار کے خلاف نعرے بازی اور برہمی کا اظہار کیا۔ مشتعل ہندو کارکنوں نے سرکاری بسوں پر پتھراو بھی کیا۔ حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کا سہارا لیا اور مشتعل ہجوم کو منتشر کر دیا۔
معاملہ کے تار پی ایف ائی اور ایس ڈی پی آئی سے جوڑے گئے
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے دہلی میں بتایا کہ ابتدائی رپورٹ سے اس قتل میں ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی ملوث ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی رپورٹس بھی اس طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ مرکزی وزیر جوشی نے کہا "ایس ڈی پی آئی اور پی ایف آئی کو کیرالا اور کرناٹک میں حمایت مل رہی ہے‘‘ انہوں نے اپوزیشن اور کانگریس پر پی ایف آئی کی حمایت کا الزام لگایا اور یقین دلایا کہ بھاجپا سرکار ان کے خلاف کڑی کارروائی کرے گی اور مجرموں کو گرفتار کیا جائے گا۔
بسوراج بومئی کی حکومت تنقیدوں کی زد میں
واقعہ کے بعد بی جے پی کارکنوں کی جانب سے حکومت کے خلاف شدید غصہ کا اظہار کیا گیا لیکن وزیر اعلیٰ بومئی نے اسے حکومت کے خلاف ناراضی ماننے کے بجائے قتل کی واردات کے خلاف پھوٹ پڑنے والا غصہ قرار دیا اور قتل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا اشارہ دیا۔ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلی نے اکثریتی فرقے کو رجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ضرورت پڑی تو واقعہ کی این آئی اے کے ذریعہ جانچ کرائی جائے گی۔
کیا یوگی کا بلڈوزر کرناٹک میں بھی چلے گا؟
وزیراعلیٰ بسواراج بومائی نے سخت لہجے میں کہا کہ ان کی حکومت ضرورت پڑنے پر کرناٹک میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے ‘یوگی ماڈل’ کو اپنا سکتی ہے۔ بومائی نے یہ تبصرہ بی جے پی کے کارکنوں کی طرف سے کرناٹک میں بھی اتر پردیش کی طرز پر کام کرنے کے مطالبے پر کیا۔ انہوں نے بی جے پی لیڈر پروین نیتارو کے قتل کے تعلق سے بات چیت کے دوران کہا کہ ”اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ہم یوگی طرز حکومت اپنائیں گے۔ ہم کرناٹک میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے دستیاب طریقوں کے ساتھ تجربہ کر رہے ہیں۔
ایک اور مسلم نوجوان کا سنسنی خیز قتل
قتل کی دو وارداتوں کے بعد جمعرات کو ایک اور مسلم نوجوان کا وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا جس کی شناخت محمد فاضل (23 سال) کی حیثیت سے کی گئی ہے جو سورتکل منگلاپیٹ کا رہنے والا تھا۔اطلاعات کے مطابق کار سے اُتر کر چار لوگوں نے پہلے محمد فاضل کا پیچھا کیا پھر تلواروں سے پے درپے وار کیا۔ شدید طور پر زخمی محمد فاضل کو فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا مگر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس نے دم توڑ دیا۔ حملے کے فوری بعد حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس میں دیکھا گیا کہ فاضل ایک ٹیکسٹائل دکان کے باہر اپنے کسی جان پہچان والے کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا اس دوران اچانک کار سے چار لوگ اُترے اور اس پر حملہ کر دیا۔ قتل کی یہ پوری واردات دکان کے باہر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے کام لے کر وزیر اعلی بومئی کیا خاطیوں کے خلاف بلڈوزر استعمال کریں گے؟ کیونکہ قتل کی یہ واردات ان کے بیان کے محض کچھ ہی گھنٹوں بعد پیش آئی۔
کیا کہتے ہیں ویلفیئر پارٹی کے صدر
ریاست کرناٹک میں ہونے والے مسلسل قتل کے واقعات اور یہاں کی سیاسی صورتحال کے بارے میں ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کرناٹک کے صدر ایڈووکیٹ طاہر حسین سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف ہے۔ وزیر اعلی بسواراج بومائی نے ایک ہی علاقے میں ہونے والے دو قتل کے معاملات میں دو ماؤں کے درمیان امتیازی سلوک کیا ہے جو کسی بھی دھرم کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے۔ ایک ہی گاؤں میں ہندو کے گھر جا کر معاوضہ دیتے ہیں اور اسی گاؤں میں وہ ایک مسلم نوجوان کے قتل کو نظر انداز کرتے ہیں، ان کا یہ عمل قابل مذمت ہے۔ ایڈووکیٹ طاہر حسین نے کہا کہ کرناٹک کو ہندوتوا کی لیبارٹری بنانے کے تجربے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ٹمکور کے کالی سوامی کے اس بیان کی بھی مذمت کی جس میں انہوں نے سورتکل میں فاضل نامی نوجوان کے وحشیانہ قتل پر کہا کہ اگر یہ کام ہندوؤں نے کیا ہے تو میں ہندوؤں کو مبارکباد دیتا ہوں اور یہ بھی کہا کہ ایک سر کے بدلے دس سر لینا ہے اور ابھی نو باقی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو حالات بنائے جا رہے ہیںوہ الیکشن میں فائدہ اٹھانے کی غرض سے ہیں، اور اسی کی وجہ سے ساحلی کرناٹک میں بی جے پی کا ووٹ بینک مضبوط ہو گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ حکومت یہ سب کیوں کروائے گی؟ ایڈووکیٹ طاہر حسین نے کہا کہ چونکہ ریاست میں کہیں بھی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں اور پورے ملک میں سب سے زیادہ کرپٹ حکومت کرناٹک کی بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے وہ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے اس طرح کی پولارائزنگ کر رہی ہے۔ اس کی روک تھام کی کوششوں سے متعلق پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ان حالات میں امن پسند لوگ اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سے زیادہ نفرت پھیلانے والے سرگرم ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔
تجزیہ نگاروں کی رائے
ساحلی کرناٹک کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز تجربہ کار صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر محمد حنیف شباب نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’’ان دنوں میں نفرت کی سیاست میں جو گرمی اور پر تشدد کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اس کا اہم سبب آنے والے اسمبلی انتخابات ہیں جس میں انہیں اپنی سیٹیں بچانا اور بھاری اکثریت حاصل کرنا ہے۔ حکومت اپنے خلاف پائے جانے والے منفی رجحان کو کسی بھی طرح مؤثر ہونے دینا نہیں چاہتی اور سیاسی سطح پر اس کے اعتماد کو جو نقصان پہنچا ہے اسے کسی بھی طرح نتیجہ خیز ہونے دینا نہیں چاہتی۔
ڈاکٹر شباب نے کہا کہ این آئی اے کو پروین کے قتل کی جانچ سونپی جا سکتی ہے تو مسعود اور فاضل کے قتل کی جانچ بھی کیا این آئی سے کرائی جائے گی؟
انہوں نے خدشہ ظاہر ظاہر کیا کہ انتخابات تک یہ حالات مزید سخت رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فرقہ پرست اقلیتوں کے خلاف ایک خاص موقف اختیار کر چکے ہیں اور اس کو عملا نافذ بھی کر رہے ہیں اور نہ صرف ریاست بلکہ ملک بھر میں ایسے حالات پیدا کرنا فاشسٹوں کا مقصد ہے اس لیے کم از کم مسلمانوں کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
آخری بات
ان واقعات میں جہاں ایک طرف ریاست کے لا اینڈ آرڈر پر سوال اٹھایا جا رہا ہے وہیں بعض لوگ اسے آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کی آپسی لڑائی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے انسانیت سوز کارروائیاں یقینا افسوس ناک ہیں اور جب کہ یہ آگ لگائی جا چکی ہے تو خدشہ ہے کہ اس میں مزید سیاسی روٹیاں سینکی جائیں گی۔ ایسے میں امن پسند شہریوں کی ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں، خاص کر مسلمانوں کی کہ وہ خیر امت ہونے کے لحاظ سے ان حالات میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک میں آپسی بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  07 اگست تا 13 اگست 2022