کرناٹک بلدیاتی انتخابات: مسلم زیرقیادت پارٹیوں کو مزید محنت کی ضرورت

گلبرگہ میں ایم آئی ایم بے اثر۔کانگریس، جے ڈی ایس اور بی جے پی کے لیے بھی سبق

رؤوف احمد، بنگلورو

کرناٹک کے چار بڑے شہروں گلبرگہ، بیلگام اور ہبلی۔دھارواڑ میں بلدی اداروں کے انتخابات عمل میں آئے۔ تین ستمبر 2021 کو پولنگ ہوئی جبکہ دو دنوں بعد یعنی چھ ستمبر کو نتائج کا اعلان ہوا۔ ان انتخابات میں بظاہر حکمراں سیاسی جماعت بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن بی جے پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ انتخابات خود احتسابی کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کے لیے اقتدار کی منزل ابھی کوسوں دور ہے۔
گلبرگہ سٹی کارپوریشن انتخابات
گلبرگہ، جس کا سرکاری نام اب کلبرگی ہے کی اگر بات کی جائے تو یہاں کی سٹی کارپوریشن کے 55 وارڈوں کے انتخابات میں کانگریس کو سب سے زیادہ یعنی 27 بی جے پی کو 23 اور جے ڈی ایس کو چار نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا ہے۔ گلبرگہ جو کبھی کانگریس کا مضبوط قلعہ تھا اب آہستہ آہستہ بی جے پی کی جانب جھکتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں پہلی مرتبہ شہری بلدیہ میں بی جے پی کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ تاہم گلبرگہ بلدی ادارے میں کانگریس اور بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے جے ڈی ایس کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ سیکولرازم کے نام پر قائم جے ڈی ایس کانگریس کا ساتھ دے گی یا پھر بی جے پی سے ہاتھ ملائے گی۔ واضح رہے کہ حال ہی میں میسور مہانگر پالیکے میں جے ڈی ایس اور بی جے پی کے اندرونی سمجھوتہ کی وجہ سے بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے۔ جنتا دل سیکولر پارٹی کی سیاست نظریات سے زیادہ مفاد اور موقع پر مبنی دکھائی دیتی ہے، ماضی قریب میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
گلبرگہ میں بڑی پارٹیوں کی سیاست اپنی جگہ لیکن مسلمانوں نے یہاں اتحاد کا ثبوت ضرور پیش کیا ہے۔ اسدالدین اویسی کی قیادت والی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) کو یہاں کے مسلمانوں نے واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ویسے تو حیدرآبادی بریانی، حیدرآبادی حلیم، حیدرآبادی ہریس اور حیدرآبادی شیروانی گلبرگہ میں مقبول عام ہیں لیکن حیدرآبادی سیاست کو اب تک یہاں کے لوگوں نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے گلبرگہ حیدرآباد سے قریب ہے۔ 1956 تک یہ شہر حیدرآباد دکن کی نظام ریاست کا حصہ رہا ہے اس کے بعد گلبرگہ، بیدر اور چند دیگر علاقوں کا ریاست میسور میں انضمام عمل میں آیا۔
موجودہ دور میں حیدرآباد کی سیاسی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین جو اب قومی سطح پر اپنے پیر پھیلانے کی کوشش میں ہے، کرناٹک کی سیاست میں داخل ہونے کے لیے گلبرگہ میں اپنا راستہ بناچکی ہے۔ 2023میں ہونے والے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے لیے ایم آئی ایم نے کانگریس کے ایک بڑے مقامی لیڈر الیاس سیٹھ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ مستقبل کے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے گلبرگہ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں ایم آئی ایم نے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی اور بیس امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ ان امیدواروں کے حق میں مہم چلانے کے لیے پارٹی کے سربراہ اسدالدین اویسی نے گلبرگہ کا دورہ بھی کیا۔ لیکن چھ ستمبر کو جب نتائج ظاہر ہوئے تو ایم آئی ایم کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہ ہو سکا۔ ایم آئی ایم کے تمام بیس امیدواروں نے مل کر تقریبا گیارہ ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں۔ دس ستمبر 2021 کے روزنامہ سالار میں سعودی عرب میں مقیم زکریا سلطان نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ "میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں گلبرگہ کے باشعور اور سمجھدار رائے دہندوں نے مغربی بنگال کے طرز پر رائے دہی کرکے سیکولر کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں اکثریت دلوائی تاہم ان نتائج کو بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کچھ لوگوں کی سازش اور غیر دانشمندانہ حکمت عملی سے بی جے پی کو فائدہ پہنچا اور اس کی نشستوں میں اضافہ ہوا جو ایک منصوبہ بند پروگرام کا واضح نتیجہ ہے۔ اس بات کا خدشہ باشعور عوام اور دانشورانِ ملت کو پہلے ہی سے تھا۔ اگر ووٹ نہیں کٹتے تو بی جے پی کی نشستوں میں کافی کمی ہوتی۔ بہر کیف کانگریس پہلے نمبر پر اور بی جے پی دوسرے نمبر پر آئی جبکہ کچھ جماعتوں کو ذلت آمیز شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ گلبرگہ یونٹ کے مجلسی صدر عبدالرحیم مرچی نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ ہم عوام کا دل جیتنے میں ناکام ہوئے ہیں مگر بعض شکست خوردہ قائدین حسب روایت الٹے سیدھے بیانات دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ امید کہ آنے والے یو پی اسمبلی انتخابات میں بھی عوام فرقہ پرست بی جے پی کے ایجنٹوں کو ووٹ کی چوٹ دے کر ووٹوں کی تقسیم کو روکیں گے”۔
بیلگام مہانگر پالیکے کے انتخابات
بیلگام بلدی ادارے کے 58 وارڈوں کے لیے ہوئے انتخابات میں بی جے پی کو واضح اکثریت ملی ہے جبکہ کانگریس کو کراری شکست ہوئی ہے۔ یہاں بی جے پی کو 35 نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ کانگریس کے صرف دس امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ آٹھ آزاد امیدوار جبکہ مقامی ایم ای ایس پارٹی کے چار امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین نے یہاں پہلی مرتبہ اپنا کھاتہ کھولا ہے مجلس کا ایک امیدوار الیکشن جیتا ہے۔ بیلگام کے بلدی انتخابات میں کل چودہ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کے کل دس کامیاب امیدواروں میں آٹھ امیدواروں کا تعلق مسلم طبقہ سے ہے یعنی یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بیلگام میں کانگریس پارٹی مسلم ووٹوں کی بدولت زندہ ہے۔ بہرحال بیلگام سٹی کارپوریشن پر بی جے پی نے اپنا قبضہ جمایا ہے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے بڑے لیڈر اب سوالات کے گھیرے میں ہیں۔
ہبلی۔ دھارواڑ کارپوریشن انتخابات
کرناٹک کے جڑواں شہر ہبلی۔دھارواڈ کے کل 82 وارڈوں کے لیے انتخابات عمل میں آئے۔ یہاں بھلے ہی بی جے پی بڑی پارٹی بنی ہے لیکن بھگوا پارٹی کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی ہے۔ ہبلی-دھارواڑ مہانگر پالیکے میں بی جے پی کو 39 کانگریس کو 33 جے ڈی ایس کو ایک اور اے آئی ایم آئی ایم کو تین نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ چھ آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ بی جے پی آزاد امیدواروں کی مدد سے یہاں ایک بار پھر اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ بہر حال اس بلدی ادارے میں کانگریس کی پوزیشن کچھ بہتر ہوئی ہے جبکہ بی جے پی کے لیے اکثریت کا ہدف پار نہ کرنا ریاست کے نئے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی کے لیے کچھ حد تک تشویش کا سبب ضرور بن سکتا ہے کیونکہ بسواراج بومئی اسی خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔
مجلس اتحاد المسلمین کو ملی کامیابی
ہبلی۔دھارواڑ مہانگر پالیکے میں ایم آئی ایم نے پہلی مرتبہ کھاتہ کھولتے ہوئے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ایم آئی ایم کے تین امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں جبکہ کے ایک امیدوار محض چند ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوا ہے۔ یہاں ایم آئی ایم نے اپنے بارہ امیدوار کھڑے کیے تھے۔ مقامی صحافی شعیب مرزا کے مطابق ایم آئی ایم کی اس حیرت انگیز کامیابی کی وجہ مسلم نوجوانوں کی کوشش اور سوشل میڈیا کا اثر ہے۔ بڑی تعداد میں مسلم نوجوان ایم آئی ایم کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ انتخابات سے قبل تشکیل دیے گئے ایم آئی ایم کے آئی ٹی سیل نے پارٹی کی جیت میں موثر رول ادا کیا ہے۔ شعیب مرزا نے کہا کہ مقامی کانگریسی ایم ایل اے سے چند مسلمانوں کی ناراضگی بھی ایم آئی ایم کی جیت کا ایک اہم سبب ہے۔
مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو شکست
ان بلدیاتی انتخابات میں مسلم امیدوار خاصی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گلبرگہ میں 19 اور بیلگام اور ہبلی میں 14-14 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اگر مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے تو ایم آئی ایم کو چھوڑ کر کسی بھی مسلم سیاسی پارٹی کا امیدوار ان چار شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ایس ڈی پی آئی، مسلم لیگ اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے چند مقامات پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن کہیں بھی کامیابی نہیں مل پائی۔ گلبرگہ میں چھوٹی پارٹیوں نے مل کر جس میں ایس ڈی پی آئی، ڈبلیو پی آئی، مسلم لیگ اور جے ڈی یو شامل تھے، متحدہ محاذ تشکیل دیا تھا، لیکن یہ تجربہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔
جب بھی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات آتے ہیں تو مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پہلے پنچایت اور بلدیاتی سطح پر اپنا مقام بنائیں لیکن بڑی پارٹیوں کی سیاست اور اثر ورسوخ کے سامنے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے لیے بلدیاتی اور پنچایت کے انتخابات کا سامنا کرنا بھی مشکل بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہانگر پالیکے کے انتخابات میں اب تک یہ پارٹیاں اپنا مقام نہیں بنا پائی ہیں۔ مسلم سیاسی جماعتوں کو ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کہاں کمی ہو رہی ہے بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے مقامی سطح پر سیاسی اثر ورسوخ کو کیسے پیدا کیا جائے اور اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے؟ دوسری جانب عوام بالخصوص مسلمانوں کو بھی یہ بات باور کروانے کی ضرورت ہے کہ مقامی سطح کے انتخابات میں ریاستی اور قومی مسئلوں سے زیادہ مقامی مسائل پر توجہ ہونی چاہیے۔ جمہوری نظام میں پنچایت، بلدیہ، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے درجات اور اختیارات کا شعور بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار ریاست کرناٹک کے صحافی ہیں اور الکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 جب بھی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات آتے ہیں تو مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پہلے پنچایت اور بلدیاتی سطح پر اپنا مقام بنائیں لیکن بڑی پارٹیوں کی سیاست اور اثر ورسوخ کے سامنے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے لیے بلدیاتی اور پنچایت کے انتخابات کا سامنا کرنا بھی مشکل بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہانگر پالیکے کےانتخابات میں اب تک یہ پارٹیاں اپنا مقام نہیں بنا پائی ہیں۔ مسلم سیاسی جماعتوں کو ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کہاں کمی ہو رہی ہے، بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021