کرشن لیلا:متھرا سے دوارکاتک

قومی سیاست میں ساس بہو جیسی ’تو تو میں میں ‘

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

سنگھ پریوار میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں
سنگھ پریوار کے اندر فی الحال ایک مہابھارت چھڑی ہوئی ہے۔ اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کے خلاف وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے اعلان جنگ کررکھا ہے۔ یوگی کے خلاف امیت شاہ دہلی میں بیٹھ کر ریشہ دوانیاں کررہے ہیں۔ امیت شاہ کو کمزور کرنے میں اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل مصروف ہیں ۔ ان کے قریبی بھوپندر سنگھ نےامیت شاہ کے چہیتے سابق وزیر اعلیٰ وجئے روپانی سمیت سارے وزیروں کی چھٹی کردی ہے۔ اس کے خلاف سابق نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل نے عَلم بغاوت بلند کررکھا ہے ۔ گجرات اور اترپردیش میں بی جے پی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور سب ایک دوسرے کی چتا جلانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اس کھیل تماشے کو بے بس و لاچار وزیر اعظم نابینا دھرتراشٹر کی مانند آنکھیں موند کر دیکھ رہے ہیں حالانکہ گجرات ان کی جنم بھومی اور یوپی کرم بھومی ہے یعنی ان کی جائے پیدائش گجرات کے اندر ہے اور ان کا حلقہ انتخاب اتر پردیش میں ہے ۔ اس خانہ جنگی کو قابو میں کرنے کی ترکیب ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ ان کی حالتِ زار پر ایک مشہور شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
مریضِ سیاست پہ لعنت خدا کی
مرض بڑھ گیا اس کی جوں جوں دوا کی
گجرات کے سابق نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل کوایک ماہ قبل نہ جانے کیسے بھنک لگ گئی تھی کہ وجئے روپانی کے دن بھر گئے ہیں ۔ ایسے میں ہائی کمان اور سنگھ پریوار کی خوشنودی کے لیے اپنے تیکھے تیور دکھاتے ہوئے انہوں نےگاندھی نگر کے بھارت ماتا مندر میں کہہ دیا تھا کہ :’’ہمارے ملک میں کچھ لوگ آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں، ‘‘۔ اس لہجےسے ظاہر ہے کہ ان لوگوں میں خود نتن پٹیل شامل نہیں ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے بلا کی خود اعتمادی کے ساتھ تمہید باندھی : ’’لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں اور اگر آپ ویڈیو ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو اسے کریں۔ میرے الفاظ کو لکھ کر رکھ لیں‘‘۔ اور پھر یہ انوکھا انکشاف کیا کہ :’’ آئین، سیکولرزم اور قانون وغیرہ کی بات کرنے والے ایسا تب تک کریں گے جب تک کہ اس ملک میں ہندو اکثریت میں ہیں،جس دن ہندوؤں کی تعداد گھٹتی ہے، دوسروں کی بڑھتی ہے، تب نہ سیکولرزم، نہ لوک سبھا اور نہ آئین بچے گا۔ سب کچھ ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ کچھ نہیں رہے گا۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ ملک میں سیکولرزم ، قانون اور آئین کو ان کی اپنی پارٹی نے پہلے ہی ہوا میں اڑا دیا تھا اور اب وہ خود ہوا میں اڑا دیے گئے ہیں ۔
گجرات میں جب وجئے روپانی پر کورونا سے نمٹنے میں ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑکر انہیں بلی کا بکرا بنایا گیا حالانکہ وزیر اعظم نے اس کے بالکل برعکس بیان دے ڈالا۔ وجئے روپانی کے بارے میں مودی جی نے ٹویٹ میں لکھا کہ پانچ سال میں انہوں نے عوام کی بہت خدمت کی۔ انہوں نے سماج کے سارے لوگوں کے لیے انتھک محنت کی ۔ کوئی وزیر اعلیٰ اگر واقعی بے انتہا محنت و خدمت کرے تو اسی کی رہنمائی میں ریاستی انتخاب لڑ کر کامیابی حاصل کرلینی چاہیے ۔ انتخاب سے ایک سال قبل اس کو ہٹائے جانے کا آخرکیا جواز ہے؟ کیا عوام کی خدمت بجالانے والے سونو سود جیسے اداکار اور ہرش مندر جیسے سماجی جہد کار مخالفین کے ساتھ اب بی جے پی اپنے وزیر اعلیٰ کو بھی پریشان کرنے میں لگی ہے؟ کیاعوام کے غمخواروں کو سزا دینا عوام دشمنی نہیں ہے؟ یا پھر وزیر اعظم لوگوں کو اپنے اس گمراہ کن بیان سے بیوقوف بنارہےہیں۔ اس طرح کی باتوں سے کوئی اور تو دور خود وجئے روپانی نہیں بہلے اور پھسلیں گے۔ اس لیے وزیر اعظم کو جھانسا دینے کے لیے اب کوئی اور حربہ استعمال کرنا ہوگا کیونکہ کھیل پرانا ہوچکا ہے۔
وجئے روپانی کو ہٹائے جانے کا تعلق اتر پردیش کی سیاست سے ہے لیکن اس پر گفتگو سے پہلے خود گجرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ماضی کی جانب لوٹیں تو معلوم ہوتا ہے مودی جی نے کیشو بھائی پٹیل کے ہاتھوں سے اقتدار کو چھینا تھا کیونکہ اس وقت وہ گجرات کے رکن اسمبلی بھی نہیں تھے ۔ کیشو بھائی پٹیل بھج کے زلزلے کی وجہ سے رونما ہونے والے حالات کو سنبھال نہیں پائے تھے۔ بی جے پی ہائی کمان نے محسوس کیا تھا کہ اب دوبارہ انتخاب میں کامیابی ناممکن ہے اس لیے دہلی سے نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنا کر بھیجا گیا۔ اتفاق سے اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی ۔ مودی نے گجرات سے دہلی واپس جاتے ہوئے آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنا دیا اور پاٹیدار سماج کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر امیت شاہ نے وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بناکر سارا کھیل خراب کردیا ۔ خیر بنایا تو بنایا مگر اس بھونڈے طریقہ سے ہٹایا کہ اب کوئی بیوقوف ہی انہیں چانکیہ کہہ کر پکارے گا۔
اس سال یوم آزادی کے موقع پر بی جے پی کے صوبائی صدر اور مودی جی کے نہایت قریبی ساتھی سی آر پاٹل نے احمد آباد کے دفتر میں پرچم کشائی کی تقریب میں اعلان کیا تھا کہ آئندہ انتخاب وزیر اعلیٰ وجئے روپانی اور ان کے نائب نتن پٹیل کی قیادت میں ہی لڑا جائے گا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دونوں گجرات کی ترقی کے لیے پوری قوت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر ایسا کیا ہوگیا کہ ان دونوں کو سیاسی کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا ؟ وجئے روپانی کو اگر کورونا کی ناکامی کے سبب ہٹانا ضروری بھی تھا تو اس کا آسان سا حل موجودتھا ۔ ابھی حال میں مرکز کے اندر وزارتوں کی توسیع ہوئی ۔ اس وقت سربانند سونوال کی طرح وجئے روپانی کو بھی دہلی بلا کر کوئی معمولی سا قلمدان تھما دیا جاتا اور ان کے نائب نتن پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا۔ اس طرح بغیر کسی بدنامی کے روپانی منظر نامہ سے ہٹ جاتے اور پاٹیدار سماج بھی خوش ہوجاتا لیکن اس کے بجائے وجئے روپانی کو رسوا کرکے ہٹانا اور جین سماج سمیت امیت شاہ کو ذلیل کرنا ایک بڑی حماقت تھی ۔ اس پر کلیم عاجز کا یہ شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
کام چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ
کام کرنے کا سلیقہ چاہیے
گجرات کی ہنگامہ آرائی نے ثابت کردیا ہے کہ ان لوگوں کو نہ تو بات کہنے سلیقہ آتا ہے اور نہ کام کرنے کا ڈھنگ۔ نتن پٹیل جیسے تجربہ کار اور مقبول سیاستداں کو وزارت سے محروم کردینا اور صوبے کو ایک بالکل نئے کھلاڑی کے ساتھ نئی ٹیم کے حوالے کردینا سراسر سیاسی خودکشی ہے۔ گجرات کے اندر اب بھوپندر پٹیل کے سامنے بی جے پی کے ہی نتن پٹیل اور کانگریس کے ہاردک پٹیل ہیں ۔ ایسے میں ان تین پٹیلوں کی باہمی کشمکش کیا گل کھلاتی ہے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا لیکن یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ جس جوڑی سے اس کا اپنا صوبہ نہیں سنبھلتا ان بیچاروں سے پورے ملک کو سنبھالنے کی توقع کرنا نا دانی ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے ۔ بھوپیندر پٹیل نے دو دن بعد کابینہ کی تشکیل کا فیصلہ کیا اور حلف برداری کی ساری تیاریاں بھی مکمل ہوگئیں لیکن اسے ملتوی کرنا پڑا کیونکہ وزارتی عہدہ سے ہٹائے جانے کے اندیشہ سے کئی بی جے پی اراکین اسمبلی نے احتجاج کا پرچم بلند کر دیا تھا۔
بی جے پی کے نزدیک سب سے بڑی تیاری تشہیر ہے یعنی پوسٹر، بینر اور ہورڈنگ وغیرہ ۔ویکسین سرٹیفکیٹ پر بھی جولوگ مودی جی کی تصویر لگانے میں پس و پیش نہیں کرتے ان سے یہ توقع ناممکن ہے کہ حلف برداری کے پوسٹر پر ’ہنستا ہوا نورانی چہرہ‘ موجود نہ ہو لیکن جب غصے میں آگ بگولا لوگوں نے اس پوسٹر کو پھاڑ کر’روتا ہوا ویرانی چہرہ‘ بنادیا تب مجبوراً وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل کو کابینہ کی حلف برداری ایک دن کے لیے ملتوی کرنی پڑی۔ پھر اس کے بعد ان وزراء کے گھر ای ڈی وغیرہ کے فون گئے ہوں گے تاکہ انہیں جیل کی دھمکی دے کر خاموش کیا جائے۔’ نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ دراصل ایک ’جملہ ‘ ہے۔ کون کتنا کھاتا ہے یہ سب شاہ جی کو پتہ ہے۔ اسی معلومات کی مدد سے وہ اپنے مخالفین و موافقین کو راہِ راست پر لاتے ہیں۔ غیروں کواپنانے کے لیے کھلاتے ہیں اور اپنوں کو ڈرا دھمکا کر سمجھاتے ہیں۔ وجئے روپانی کے ساتھ سارے وزراء کو ٹھکانے لگا کر بی جے پی ہائی کمان نے اعتراف کرلیا کہ فوج نکمی تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کس نے نامزد کیا تھا؟ اور چار سالوں تک کیوں پالا گیا؟ بی جے پی کے ترجمان کے مطابق وزراء کو بدلنا ان کی روایت ہے۔ ایسا ہی ہے تو 2001 سے 2014تک مودی جی کیوں نہیں بدلے گئے اور شیوراج چوہان کو کیوں بدلا نہیں جاتا ؟ کیا اس روایت کا اطلاق صرف روپانی جیسے کمزور لوگوں پر ہوتا ہے اور وہی جرم ضعیفی کی سزا پاتے ہیں ۔
گجرات کے سیاسی ماضی پر غائر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل مودی جی کی اپنی کوئی مقبولیت نہیں تھی۔ وہ دہلی کے اندر سیاسی بن باس کی زندگی گزار رہے تھے۔ کیشو بھائی پٹیل کے دست راست سنجے جوشی انہیں گجرات میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ مرکز کی مہربانی سے انہیں اسی طرح وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جس طرح یوگی جی مرکز کے نظر کرم سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کیے گئے حالانکہ نہ تو ان کے چہرے پر انتخاب لڑا گیا تھا اور نہ وہ رکن اسمبلی تھے ۔ 2011 میں پارٹی پر لال کرشن اڈوانی کی پکڑ اسی طرح مضبوط تھی جیسے آج کل امیت شاہ کی ہے، فرق یہ ہے کہ اڈوانی اور اٹل بہاری میں ان بن تھی جو مودی اور شاہ میں بظاہر نہیں ہے مگر سی آر پاٹل جیسے شاہ مخالف کا گجرات میں پارٹی سربراہ بن جانا اور وجئے روپانی کو بے آبرو کرکے ہٹا دیا جانا اس بات کا غماز ہے کہ اندرونِ خانہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
اڈوانی جی نے بیس سال قبل اٹل جی کو کمزور کرنے کے لیے اپنے شاگرد نریندر مودی کو دلی سے احمد آباد بھیجا ۔ ان کو جب گودھرا فساد کے بعد ہٹانے کا فیصلہ ہونے لگا تو اپنے دیگر شاگردوں یعنی پرمود مہاجن اور ارون جیٹلی کے ذریعہ دفاع کیا اور یہ کہا کہ انتخاب سے قبل اگر انہیں ہٹا دیا گیا تو عوام میں غلط پیغام جائے گا اس لیے اسے موقوف کردیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے تو اڈوانی کو وان پرستھ آشرم میں بھیج کر سبکدوش کردیا اور پھر اگلے الیکشن میں ٹکٹ سے محروم کرکےبن باس آشرم کی سیر کرادی ۔ اتفاق سے یہی تاریخ پھر سے دُہرائی جارہی ہے۔ امیت شاہ نے اڈوانی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے راج ناتھ سنگھ کو ٹھکانے لگانے کی خاطر یوگی ادیتیہ ناتھ کو اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔ اس فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ امیت شاہ کو ہوا کیونکہ 2019 کے انتخاب کے بعد انہوں نے راجناتھ سنگھ کو وزیر دفاع بنوا کر خود وزیر داخلہ کا یعنی دوسرا سب سے اہم قلمدان جھپٹ لیا۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ فی الحال امیت شاہ کے ساتھ یوگی وہی کررہے ہیں جو مودی نے اڈوانی کے ساتھ کیا تھا ۔ وہ شاہ کی ایک نہیں سنتے انہوں نے خود کو مودی کا جانشین بنانے میں امیت شاہ کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
امیت شاہ نے اپنی سیاست چمکانے کی خاطر نریندر مودی کا راستہ اختیار کیا۔ مودی نے جس طرح گجرات کے فسادات سے اپنی مقبولیت بڑھائی تھی اسی طرح امیت شاہ نے اپنا سیاسی رتبہ بڑھانے کے لیے پہلے تو کشمیر کی دفعہ 370 ختم کروائی اور سی اے اے کا قانون بنوایا۔ یہ معاملہ جب گلے کی ہڈی بن گیا تو دلی کے فساد کا اسی طرح فائدہ اٹھایا جس طرح مودی جی نے گودھرا فساد کا اٹھاکر اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگایا تھا ۔ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے امیت شاہ کی دلی پولیس پر الزام لگایا ہے کہ یہ سازش کی جانچ نہیں کررہی ہے ، بلکہ قصورواروں کو بچانے کے لیے بےگناہوں پر الزام عائد کرنے کی سازش رچ رہی ہے۔بھوشن نے کہا ہے کہ ’معاملے کی جانچ کرنے والی پولیس کو جوابدہ ٹھہرایا جانا ضروری ہے ‘۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2006 میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نظم ونسق نافذ کرنے والی پولیس فورس کو جانچ کرنے والوں سے الگ ہونا چاہیے۔
اس حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ امیت شاہ نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنی پولیس کے ذریعہ دلی کے ایک ایک فسادی کو بچایا ۔ اس کی خاطر راتوں رات دلی ہائی کورٹ کے باضمیر اور دلیر جج مرلی دھرن کا تبادلہ کردیا گیا کیونکہ انہوں نے کپل مشرا کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا اور آگے چل کر ان کا نام سپریم کورٹ کے لیے متوقع ججوں کی فہرست سے بھی خارج کردیا گیا لیکن یہ معاملہ اب قابو سے باہر ہورہا ہے۔ حال میں سابق کونسلر طاہر حسین کے گھر کی دو تھانوں میں الگ الگ ایف آئی آر درج کرنے پر عدالت نے حیرانی ظاہر کی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کہاں تو کپل مشرا جیسے بدمعاشوں پر کوئی ایف آئی آر نہیں اور کہاں طاہر حسین پر دو دو تھانوں میں ایف آئی آر؟ عدالت نے اے سی پی گوکلپوری اور دیال پور تھانہ انچارج سے اس معاملے میں وضاحت طلب کی تھی مگردونوں بھی تسلی بخش وضاحت کرنے سے قاصررہے۔ طاہر حسین کے وکیل رضوان نے عدالت کو بتایا کہ کھجوری خاص تھانے میں بھی ان کے مؤکل کے خلاف معاملہ درج کیا گیا یعنی ایک فرد کی ایک مقام سے متعلق تین تھانوں میں ایف آئی آر ہے۔
اس سے قبل کئی معاملات میں عدالت پولیس کو پھٹکار لگا چکی ہے اور یہاں تک کہا جاچکا ہے کہ اس تفتیش کو عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یاد کیا جائے گا۔ پولیس کے غیر ذمہ دارانہ رویہ سے ناراض ہو کر دلی کی کڑکڑڈوما کورٹ نے جولائی میں دلی پولیس پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ اس پر تو وزیر داخلہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا لیکن امیت شاہ سے اس کی توقع نہیں ہے۔ اس معاملے میں جب فساد زدہ محمد ناصر اپنی آنکھ میں لگی گولی کی شکایت پر ایف آئی آر کرانے گیاتو دلی پولیس نے اس کی شکایت دوسری ایف آئی آر میں جوڑ دی۔ اس پر عدالت نے یہ تبصرہ کیا کہ پورا معاملہ دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے پولیس ملزمین کو بچا رہی ہے۔ امیت شاہ کی پولس اور کر بھی کیا سکتی ہے؟کڑکڑڈوما کی سیشن عدالت نے اس معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس نے اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کیابلکہ بڑا ہی ڈھیلا رویہ اختیار کیا اور نریش تیاگی، سبھاش تیاگی، اتم تیاگی، سشیل اور نریش گور کو بغیر جانچ کے کلین چٹ دے دی۔ اس طرح کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ امیت شاہ نے مودی کے تمام حربے استعمال کرکے ان کا جانشین بننے کی تمام کوشش کرڈالی مگرجس ادتیہ ناتھ کو وہ لائے تھے اب ان کی راہ کا روڑہ بن گیا ۔
یوگی کا یہ حال ہے کہ تین ماہ سے وزارت کی تشکیل نو ٹال رہے ہیں ۔ مودی کے منظور نظرآئی اے ایس افسر انل کمار شرما کو وزیر بنانے کے بجائے 17 میں سے ایک نائب صدر بنادیا گیا۔ یہ تو وزیر اعظم کی توہین ہے۔یوگی چاہتے ہیں کہ دلی دربار ان کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنائے مگر موریہ اعلان کرتے ہیں 52 فیصد پسماندہ طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وزیر اعلیٰ تو ارکان اسمبلی کی رائے سے بنے گا ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ یوگی نہیں ہوں گے کیونکہ وہ نہ تو پسماندہ ہیں اور نہ ارکان اسمبلی کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ ایسے میں یوگی نے ٹائمز ناو پر از خود بلاواسطہ اعلان کردیا کہ وہی دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ کورونا کے معاملے میں گجرات سے زیادہ برا حال اترپردیش کا تھا جہاں گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ انسانیت شرمسار ہوئی لیکن یوگی کا بال بیکا نہیں ہوا جبکہ وجئے روپانی کا سر مونڈ دیا گیا کیونکہ وہ کمزور تھے۔ بہو اگر یوگی جیسی دھاکڑ ہو تو اسے ڈرانے کے لیے روپانی جیسی بیٹی کو ڈانٹا جاتا ہے لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والی شاہ جیسی ساس خود ڈر کر بیٹھ جاتی ہے۔ فی الحال قومی سیاست میں یہی ساس بہو کی ’تو تو میں میں‘ چل رہی ہے۔
سنگھ پریوار کی خانہ جنگی سے وہی لوگ حیرت زدہ ہیں جنہیں ہندوستان کی دیو مالائی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ شری کرشنا کا جنم اترپردیش کےمتھرا میں ہوا لیکن وہ آگے چل کر گجرات کے دوارکا چلے گئے ۔ وہاں سونے کی نگری بنائی جو بالآخر سمندر میں غرقاب ہوگئی ۔ وہ گجرات کیوں گئے اور دوارکا نگری کیوں ڈوبی یہ جاننا بہت اہم ہے۔ شری کرشنا نے اپنی والدہ کےعم زاد بھائی کنس کا قتل کردیا تو اس کے خسر اور مگدھ (بہار) کے طاقتور راجہ جر سندھا نے متھرا پر پہ در پہ کئی حملے کیے۔ اس سے اپنے لوگوں کو بچانے کی خاطروہ قبیلہ سمیت 1300 کلومیٹر دور دوارکا آگئے ۔ آگے چل کر یادو قبیلہ آپس میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوگیا۔ خوب قتل و غارتگری ہوئی اور بالآخر شری کرشن کی موت کے بعد دوارکا نگری کو سمندر نے نگل لیا۔ مودی جی کی جائے پیدائش گجرات میں ضرور ہے لیکن قومی سیاست میں وہ اترپردیش کے وارانسی سے پرکٹ ہوئے۔ ابتدا میں شری کرشن کی مانند بڑی کامیابی حاصل کی لیکن اب پھر ان کے اپنے قبیلے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔مہابھارت ختم ہوچکی اب دوارکا نگری کو ڈوبنا ہے کل یگ میں وہ کیسے ڈوبے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟
***

 

***

 یوگی چاہتے ہیں کہ دلی دربار ان کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنائے مگر موریہ اعلان کرتے ہیں 52 فیصد پسماندہ طبقے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وزیر اعلیٰ تو ارکان اسمبلی کی رائے سے بنے گا ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ یوگی نہیں ہوں گے کیونکہ وہ نہ تو پسماندہ ہیں اور نہ ارکان اسمبلی کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ ایسے میں یوگی نے ٹائمز ناو پر از خود بلاواسطہ اعلان کردیا کہ وہی دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ کورونا کے معاملے میں گجرات سے زیادہ برا حال اترپردیش کا تھا جہاں گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ انسانیت شرمسار ہوئی لیکن یوگی کا بال بیکا نہیں ہوا جبکہ وجئے روپانی کا سر مونڈ دیا گیا کیونکہ وہ کمزور تھے۔ بہو اگر یوگی جیسی دھاکڑ ہو تو اسے ڈرانے کے لیے روپانی جیسی بیٹی کو ڈانٹا جاتا ہے لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والی شاہ جیسی ساس خود ڈر کر بیٹھ جاتی ہے۔ فی الحال قومی سیاست میں یہی ساس بہو کی ’تو تو میں میں‘ چل رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021