پی ایم کیئرفنڈ ’’آفتمیں موقع‘‘ ثابت ہو کر رہ گیا

نہ مدد کروں گا نہ کرنے دوں گا؛ وبا کے بعد فنڈ کا مصرف کیا؟

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘ ۔۔ !
کورونا کے زمانے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا جملہ جو خوب چلا وہ تھا ’آپدا میں اوسر‘ اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ ’آفت میں موقع‘۔ وہ عوام کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر بار بار یہ نعرہ دُہراتے تھے۔ آفت کے مارے عوام بھلا کورونا جیسی وبا سے بھلا کیا فائدہ اٹھاتے لیکن وزیر اعظم نے خوب فائدہ اٹھایا۔ پہلا فائدہ تو مقبولیت میں اضافہ کا تھا جو جمہوری سیاستداں کی لائف لائن ہوتی ہے۔ انہوں نے آئےدن ٹیلی ویژن پر وارد ہوکر لوگوں کو پروچن سنانا شروع کردیا۔ سب سے پہلے لوگوں کو تالی اور تھالی بجانے کا پروچن دیا۔ بھکتوں نے سوچا کہ شاید یہ کورونا سے مقابلے کا ٹوٹکا ہے۔ لوگوں نے تالی اور تھالی کے ساتھ شنکھ بھی بجایا اور گربا ناچ کر گویا کورونا کا دیس نکالا کردیا۔ مودی جی کے کابینی وزیر رام داس اٹھاولے نے ’گو کورونا گو‘ کی ڈانٹ پلا کر وبا سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ کچھ لوگ گائے کا پیشاب پی کر یا گوبر اپنے جسم پر پوت کر خود کو کورونا سے بچانے میں لگ گئے۔ لیکن بات نہیں بنی تو مودی جی نے ایک خاص وقت میں بجلی بند کر کے دیا اور بتی جلانے کا مشورہ دے دیا۔ آگے چل کر ڈاکٹروں اور طبی ملازمین پر پھول برسانے کا تماشا بھی کیا مگر انہیں بونس تو دور تنخواہ بھی وقت پر نہیں دی گئی۔ مجبوراً مشکل ترین حالات میں انہیں ہڑتال پر جانا پڑا تب جاکر سرکار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
ایسی اوٹ پٹانگ حرکات سے نہ کورونا کا بال بیکا ہوا اور نہ عوام کا کوئی بھلا ہوا مگر وزیر اعظم کی مقبولیت میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا۔ ان کامیابیوں سے خوش ہوکر مودی جی نے سوچا چلو کچھ ٹھوس کام کیا کیا جائے اور یوں ’پی ایم کیئر فنڈ ‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ فنڈ اب ایک ارب ڈالر کا ہوچکا ہے مگر اس سے منسلک تنازعات کی تفصیل پڑھنے کے بعد وزیر اعظم کا سات سال پرانا نعرہ ’ نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘ یاد آتاہے اور ایسا لگتا ہے اس میں یہ تبدیلی ہوچکی ہے کہ ’کھاوں گا مگر کھانے نہیں دوں گا‘۔ فنڈ کا مقصد ہنگامی حالات میں باشندوں کی مدد بتایا گیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے تمام باشندوں سے اس میں عطیات دینے کی درخواست کی تھی۔انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ اس اعانت سے ملک میں کورونا کی وبا کے خلاف لڑائی میں مدد ملے گی اور یہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم نے اسے ایک صحت مندبھارت بنانے میں لمبا سفر طے کرنے والی کوشش گردانا تھا۔
وزیر اعظم کی اس دردمندانہ اپیل سے متاثر ہوکر ملک بھر کے بڑے صنعتکاروں، فلمی ہستیوں، تاجروں اور عام لوگوں نے بھی اپنا دست تعاون دراز کیا اور نتیجتاً ایک ہفتے کےاندر اس فنڈ میں 65 ارب روپے جمع ہو گئے جو آگے چل کر 7500 ارب روپےسے تجاوز ہو گئے۔ اس وقت عوام وخواص کو اس بات پر حیرت تھی کہ ملک میں 1948 سے ہی’پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ‘ کی موجودگی میں آخرنئے ادارے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نےنئے فنڈ میں جمع رقم کو پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ میں منتقل کرنے کی تجویز دی اور اسے مہاجر مزدوروں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کی گزارش کی مگر وہ صدا بصحراثابت ہوئی۔ اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب لاکھوں مہاجر مزدورں کا خواتین اور بچوں کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل سفر کرنا بھی سنگدل حکومت پر اثر انداز نہیں ہوسکا۔ 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باوجود بے حس وزیر اعظم اس خزانےپر سانپ بنے بیٹھے رہےاوراس مد میں صرف دس ارب روپے خرچ کیے ۔ عوام کے دکھ درد کی پروا کرنے کے بجائے بھاشن پر بھاشن پلاتے رہے۔
بی جے پی کے ترجمان نالین کوہلی نے اس بابت یہ وضاحت کی کہ پہلے سے قائم کردہ پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ عام قدرتی آفات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور پی ایم کیئر فنڈ قائم کرنے کا مقصد وبا سے نمٹنا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو اس کے تحت جمع کی جانے والی ایک خطیر رقم کی مختلف اداروں میں سرمایہ کاری بے معنیٰ ہے کیونکہ وبا تو مستقل نہیں ہے۔ نالین کوہلی نے یہ بھی بتایا کہ پی ایم نیشنل ریلیف فنڈ انڈیا کو سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے قائم کیا تھا اور کانگریس اس کی ٹرسٹیوں میں شامل ہے۔ کوہلی کا یہ دعویٰ درست ہے کہ اس ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں تو ایسے میں صرف ایک سیاسی جماعت ہی کسی ایسے منصوبے کا حصہ کیوں بنے؟ لیکن اگر صرف کانگریس کے ارکان پر مشتمل فنڈ غلط ہے تو محض بی جے پی کے لوگوں کو شامل کرکے نیا فنڈ بنانا بھی ویسی ہی غلطی ہے۔ بی جے پی ترجمان کے اس بیان میں کوئی دم نہیں ہے کہ پی ایم کیئر فنڈ میں وزیر اعظم مودی اور دیگر وزرا کی شمولیت عہدوں کے سبب ہے کیونکہ اگروہ ایک نجی ادارہ ہے تو اس کے ٹرسٹی اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد بھی استعفی ٰکیوں دیں گے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگریہ فنڈ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہے تو جب سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کورونا سے مرنے والوں کے اہل خانہ کو چار لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے کیونکہ قانون کے مطابق قدرتی آفات سے مرنے والوں کے اہل خانہ کو چار لاکھ روپے معاوضہ ملتا ہے تو مرکزی حکومت نے اس فنڈ سے معاوضہ دینے کے بجائے انکار کیوں کیا؟ یہ کیوں کہا کہ اتنا بڑا معاوضہ دینے سے حکومت کو بھاری نقصان ہوگا؟ سپریم کورٹ میں دباو کے بعد این ڈی آر ایف نے صرف پچاس ہزار روپے کا معاوضہ دینے پر اکتفا کیوں کیا؟ اور وہ رقم بھی پی ایم کیئر سے ادا کرنے بجائے ریاستوں کے ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ سے ادا کروانے کی یقین دہانی کیوں کرائی ۔کورونا کی پہلی لہر تو جیسے تیسے گزر گئی لیکن جب دوسری لہر کی غیر معمولی تباہی کے بعد بھی اس فنڈ کا منہ نہیں کھلا تو اس کے انتظامی امور سے متعلق شکوک وشبہات نے جنم لینا شروع کیا اور لوگ اس کے آمد وخرچ سے متعلق سوال کرنے لگے۔
اس بابت قانون کے طالب علم کاندوکری شری ہرش نے فنڈ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے یکم اپریل کو عدالت سے رجوع کرکے اس کو عوامی ادارہ ثابت کرنے کے لیے کئی دلائل دیے مثلاً وزیر اعظم اس کے سربراہ ہیں انہوں اپنی کابینہ کے تین اور دیگر تین ٹرسٹیوں کو خود نامزد کیا ہے اس کی ویب سائٹ کے نام میں ’جی او وی ڈاٹ ان‘ ہے یعنی یہ سرکاری ڈومین ہے، ملک کا قومی نشان اس کے تصرف میں ہے جو صرف سرکاری اداروں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ بی جے پی کے تمام اراکین پارلیمان کو سرکاری خزانے سے اپنے حلقے کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کے لیے ملنے والاایک کروڑ روپیہ اس میں جمع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یعنی ’نہ عوام کا بھلا کروں گا اور نہ کرنے دوں گا‘ کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ سرکاری ملکیت کے پبلک سیکٹر کارخانوں نے اس میں ہزاروں لاکھوں روپیوں کا عطیہ دیا یہاں تک کہ فوجیوں، ججوں اور سرکاری ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ اس میں لازماًجمع کروائی گئی۔ ایسے میں بھلا کون سوچ سکتا ہے کہ یہ ایک نجی ادارہ ہے اور یہ دعویٰ نہ صرف دھوکہ ہے بلکہ غبن ہے۔
اگر سپریم کورٹ نے حکومت کو ڈانٹ پلا کر اس بابت استفسار نہیں کیا ہوتا تو یہ حقیقت صیغہ راز میں ہی رہتی۔ اس معاملے میں دلی ہائی کورٹ کے معروف وکیل سریندر سنگھ ہودا نے پہل کی ۔ انہوں نے اپنی درخواست میں فنڈ کے انتظامی امور سے متعلق معلومات طلب کیں۔ ان کا فنڈ کی ویب سائٹ پر آمد وخرچ کی تفصیل چاہنا ایک نہایت معقول مطالبہ تھا۔ اس کے حق میں ان کی دلیل یہ ہے کہ تاریکی ہی برائی کو جنم دیتی ہے اور روشنی دھندلا پن ختم کر کے شفافیت پیدا کرتی ہے۔ ان کے مطابق یہی قانون کی بالادستی کے لیے اساس ہے۔سریندر سنگھ ہودا کو اپنی درخواست واپس لینا پڑی کیونکہ انہوں نے اس سے قبل وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ نہیں کیا تھا۔اس کے بعد سمیک گنگوال نے عدالت سے رجوع کیا تو پی ایم او نے مئی کے اواخر میں کو پی ایم کیئر فنڈ کی جانکاری دینے سے منع کر دیا پھر عدالت کی سختی کے بعد مجبوراً وزیر اعظم کے دفتر میں زیر ملازمت پردیپ کمار سریواستو نے حلف نامہ دائر کرکے یہ دھماکہ خیز انکشاف کردیا کہ پی ایم کیئر فنڈ سرکاری نہیں ہے اور اس کی رقم بھارت سرکار کے خزانہ میں نہیں جاتی ہے۔ اس کے کام کاج میں مرکزی یا ریاستی سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگرپی ایم کیئر سرکاری نہیں بلکہ نجی ادارہ ہے تو اس سے متعلق معلومات پر پی ایم دفتر کا ملازم کیوں جواب دے رہا ہے؟ وزیر اعظم کے دفتر میں کسی نجی ادارے کا کیا کام ہوسکتا ہے اور وزیر اعظم کے نام پر جمع کیا جانے والا چندہ ان کے ذاتی اختیار کا معاملہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پی ایم او نے کہاکہ فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی ‘ نہیں ہے ۔ بس اتنا ہے کہ پی ایم نریندر مودی اس فنڈ کے چیئرپرسن ہیں اور کابینہ کے کئی سینئر ارکان اس کے ٹرسٹی ہیں۔ پی ایم او نے کہا تھا ’ پی ایم کیئرز فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کے سیکشن 2(h) کے تحت پبلک اتھارٹی بھی نہیں ہے۔ انڈر سکریٹری نے بتایا کہ فنڈز کا آڈٹ ایک آڈیٹر کے ذریعہ کیا جاتا ہے جو سی اے جی کے ذریعہ تیار پینل میں چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہے۔
ویسے یہ دلچسپ حقیقت ہے اس کی آڈٹ کے لیے نجی کمپنی، سارک اینڈ ایسوسی ایٹس کا انتخاب بغیر کسی بولی کے کیا گیا۔ اس کے مالک ایس کے گپتاکی بی جے پی سے قربت مشہور ہے۔ انہوں نے خود ذاتی طور پر دو کروڑ روپے عطیہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر نے یہ بتایا کہ عوامی ٹرسٹ ہونے کے ناطے یہ سی اے جی آڈٹ کے ماتحت بھی نہیں آئے گا۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ٹرسٹ کو موصول ہونے والے فنڈز کے استعمال سے متعلق معلومات کے ساتھ آڈٹ رپورٹ ٹرسٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر ڈال دی گئی ہے اور عطیات آن لائن ادائیگی، چیک یا ڈیمانڈ ڈرافٹ کے ذریعہ لیے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اگر درست ہوں تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 21-2020 کی رسید اور ادائیگی کی رپورٹ کو ابھی تک عام کیوں نہیں کیا گیا ؟ اس کا مطلب سب نہیں تو کچھ نہ کچھ گول مال ضرور ہے جس کو چھپایا جارہا ہے۔ بقول غالب
بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ پی ایم کیئر کی رقم میں 20 ارب روپے ملک میں 50 ہزار وینٹی لیٹرز خریدنے پر اور دس ارب روپے مہاجر مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیے گئے۔ اس کے علاوہ ایک ارب روپیہ کورونا کی ویکسین کی تیاری میں صرف ہوا۔ پہلی بات تو اس طرح کا راونڈ فگر خرچ نہیں ہوتا لیکن اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تب بھی 7500 ارب روپیہ میں سے صرف دس ارب روپیوں کا مہاجر مزدورں پر خرچ ہونا بہت کم ہے نیز وینٹی لیٹرز کی خریداری کے لیے حکومت نے نہ کوئی اشتہار دیا نہ ہی ٹینڈر پاس کروایا، نہ کوئی بولی لگی اور نہ ہی کوئی مسابقتی طریقہ کار اپنایا گیا جو شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وینٹی لیٹرز کی بڑی تعداد غیر معیاری نکلی جس کا اعتراف دو سرکاری پینلزز کی رپورٹ میں کیا گیا۔ مذکورہ رپورٹ میں پی ایم کیئر فنڈ کے تحت خریدے گئے دس ہزار وینٹی لیٹرز کی صلاحیت اور پائیداری پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔ اس بابت بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے ماہِ جون میں پی ایم کیئر فنڈ کے ذریعے خریدے گئے ناقص وینٹیلیٹرز کے مینوفیکچررز کا دفاع کرنے کے لیے حلف نامہ داخل کرنے پر مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا لیکن جو کام ملی بھگت سے ہوا اس کو سنبھالنا تو پڑے گا؟
پی ایم کیئر فنڈ کے تحت فراہم کردہ وینٹی لیٹر میں لاپروائی کا یہ عالم تھا کہ مہاراشٹر میں مرکز کی جانب سے فراہم کردہ 150 میں سے 113 ناقص پائے گئے اور باقی ماندہ 37 کھولے نہیں گئے کیوں کہ اکثریت میں خرابی تھی ۔ مرکزی حکومت نے وینٹی لیٹرس فراہم کرنے والے ادارے کی سرزنش کرنے کے بجائے میڈیکل آفیسرز میں تربیت کے فقدان کا الزام لگا دیا ۔ اس پر عدالت نے ناراض ہو کر کہا کہ ’’ہمارے سامنے موجود حلف نامہ اس بات کی علامت ہے کہ اس میں بنانے والے کا عملی طور پر دفاع کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وینٹی لیٹر کارآمد ہیں۔ اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل نے ہمیں اس طرح مخاطب کیا ہے جیسے وہ مینوفیکچرر کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو۔‘‘وینٹی لیٹرس کی فراہمی کو وزیر اعظم کیئر کے بجائے دیگر اداروں کے سر منڈھنے پر بھی عدالت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ’’الزام تراشی کے کھیل میں‘‘ نہیں پڑنا چاہیے اور مریضوں کے تعلق سے حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سے گھبرا کر جب اسسٹنٹ سالیسیٹر جنرل اجے تلہر نے اپنا بیان واپس لیا تو عدالت کا ردعمل تھا کہ ’’ہمارے سامنے عذرِ لنگ نہ پیش کریں۔‘‘ راجستھان اور پنجاب نے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک بھر میں یہی صورتحال رہی ہوگی مگربی جے پی کے وزیر اعلیٰ تو شکایت کرنے سے رہے۔ انہیں مریضوں سے زیادہ وزیر اعظم کے ساکھ کی فکر جو ہے۔
عوام کی خاطر جمع شدہ پی ایم کیئر فنڈ میں لاپروائی کی انتہا اس وقت سامنے آئی جب تقریباً دیوالیہ ہو چکی یَس بینک میں اس نے 250 کروڑ روپے فکسڈ ڈپازٹ کے طور پر لگا دیے حالانکہ ریزرو بینک نے اس سے پہلے ہی یَس بینک معاملے پر متنبہ کرتے ہوئے 2019 کے شروع میں ہی مذکورہ بینک کے لین دین پر پابندی لگادی تھی۔ یہاں تک کہ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے بھی کہا تھا کہ یَس بینک کے مالیاتی لین دین اور طریقہ کار پر ریزرو بینک 2017 سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ 2018 میں بھی آر بی آئی نے بینک کو خط لکھ کر مینجمنٹ اور لین دین میں لاپروائیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ بالآخر یَس بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او رانا کپور کو ریزرو بینک نے 31 جنوری 2019 کو ان کا عہدہ چھوڑنے کے لیے کہہ دیا اس کے باوجود ایسے ڈوبتے جہاز میں عوام کی امانت جھونک دینا کون سی چوکیداری ہے؟ یہ تو کارپوریٹ گورننس کے ضابطوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس کو کہتے ہیں مالِ مفت دلِ بے رحم۔ پی ایم کئیر فنڈ کی بد انتظامی نے پی ایم او کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کو پوری طرح طشت ازبام کردیا ہے لیکن اس سے بے نیاز وزیر اعظم سنٹرل وسٹا پراجیکٹ کی جانب متوجہ نظر آئے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ اپنے گھر کی بابت زیادہ فکرمند ہیں۔

 

***

 سوال یہ ہے کہ اگرپی ایم کیئر سرکاری نہیں بلکہ نجی ادارہ ہے تو اس سے متعلق معلومات پر پی ایم دفتر کا ملازم کیوں جواب دے رہا ہے؟ وزیر اعظم کے دفتر میں کسی نجی ادارے کا کیا کام ہوسکتا ہے اور وزیر اعظم کے نام پر جمع کیا جانے والا چندہ ان کے ذاتی اختیار کا معاملہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پی ایم او نے کہاکہ فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی ‘ نہیں ہے ۔ بس اتنا ہے کہ پی ایم نریندر مودی اس فنڈ کے چیئرپرسن ہیں اور کابینہ کے کئی سینئر ارکان اس کے ٹرسٹی ہیں۔ پی ایم او نے کہا تھا ’ پی ایم کیئرز فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کے سیکشن 2(h) کے تحت پبلک اتھارٹی بھی نہیں ہے۔ انڈر سکریٹری نے بتایا کہ فنڈز کا آڈٹ ایک آڈیٹر کے ذریعہ کیا جاتا ہے جو سی اے جی کے ذریعہ تیار پینل میں چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021